• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مولانا ابو الکلام آزادسے یہ قول منسوب ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ جبکہ ہمارے ملک کے ایک نامور کالم نگار کا کہنا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے ، نہ آنکھوں میں حیا۔ اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو شاید یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سیاست کے دماغ میں قومی مفادات کا کوئی خانہ بھی نہیں ہوتا۔ بجا کہ سیاسی جماعتوں کا اولین مقصد اقتدار کی بار گاہوں تک پہنچنا ہوتا ہے ۔ جس کیلئے بیشتر جماعتیں ہر طرح کے حربوں اور ہتھکنڈوں کو ضروری خیال کرتی ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جماعت اسلامی سمیت بہت سی دوسری جماعتیں جو اپنا دینی تشخص رکھتی تھیں اور روائتی سیاست سے ہٹ کر اپنی حکمت عملی بناتی تھیں اب وہ بھی عمومی روش اختیار کر چکی ہیں ۔ جس طرح اقتدار سے محروم جماعتیں ، اقتدار کے حصول کے لئے کسی اصول، ضابطے ، قاعدے یا اخلاقیات کو ضروری نہیں سمجھتیں ، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اقتدار کی بارگاہوں تک پہنچ جانے والی جماعتیں بھی اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے کسی اخلاقی ضابطے ، اصول یا روایت کو خاطر میں نہیں لاتیں ۔ اس روش کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صاحبان اقتدار ہوں یا حزب اختلاف دونوں اقتدار کی خواہش میں قومی مفاد کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں ۔ ماضی پر نگاہ ڈالیں ۔ سقوط ڈھاکہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔اس سانحے کو 44 برس بیت چکے ہیں۔ہر سال 16 دسمبر کو ہم اسے ٹی وی ٹاک شوز ، کالموں اور مباحثوں کا موضوع بنا تے ہیں ۔ دراصل یہ سانحہ شیخ مجیب الرحمن ، ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ خان کے مابین اقتدارکے حصول اور تحفظ کی کشمکش کا نتیجہ تھا۔ ذاتی اور سیاسی مفادات، قومی مفادات پر غالب آئے اور قائد کا پاکستان دولخت ہو گیا۔ تاہم آج تک ہم نے اس سانحے سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے طرز فکر یا طرز عمل میں تبدیلی لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ مفادات کا ٹکرائو اور حصول اقتدار کی خواہش ہی نے بار بار مارشل لاء کی راہ ہموار کی اور ریاستی مفادات شخصی مفادات کی بھینٹ چڑ ھتے رہے ۔نہایت افسوسناک امر ہے کہ اہم قومی منصوبوں کے آغاز اور تکمیل کی راہ میں بھی ہماری سیاسی ، صوبائی ، لسانی اور عصبی ترجیحات حائل رہیں۔ برسوں سے کالا باغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ طاق میں دھرا ہے۔ اگر ڈیمز بنانے پر اتفاق رائے قائم کر لیا جاتا تو آج ہمیں بجلی کا بد ترین بحران درپیش نہ ہوتا۔ اسی غیر حکیمانہ طرز عمل کے باعث معیشت ، تعلیم ، صحت اور دیگر شعبوں میں طویل المعیاد پالیسیاں مرتب نہ ہو سکیں ۔
ایسا نہیں کہ ہمارے سیاسی رہنما ملک و قوم کی فلاح کے جذبہ سے عاری ہیں ۔ درحقیقت بیشتر سیاستدان ملکی معاملات کی اصلاح احوال کے آرزو مند ہیں ۔ مثلاً کون نہیں چاہتا کہ سبز پاسپورٹ کی عزت و آبرو بڑھے ، کون نہیں چاہتا کہ دہشت گردی کے نا سور کا خاتمہ ہو ، کون نہیں چاہتا کہ امن و عامہ کی صورتحال میں بہتری آئے اور عوام الناس کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے ، کو ن نہیں چاہتا کہ بجلی بحران کا خاتمہ ہو اور صنعتی ، زرعی اور دیگر تجارتی سر گر میاں نمو پائیں، کو ن نہیں چاہتا کہ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی سماجی مسائل حل ہوں ، کون نہیں چاہتا کہ پاکستان کو بیرونی قرضوں سے نجات ملے اور معیشت کو استحکام حاصل ہو ۔ کون نہیں چاہتا کہ موٹر ویز شاہرائیں ، بندر گاہیں تعمیر ہوں۔ یہ ایسے معاملات ہیں جو ہر سیاسی جماعت کے منشور کا حصہ ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ان مشترکہ ترجیحات پر اتفاق رائے کیوں نہیں قائم کیا جاتا؟کیوں اس امر کو یقینی نہیں بنایا جاتا کہ اہم قومی معاملات کو سیاست کی نذر کرنے سے گریز کیا جائے۔ ماضی میں جذبہ مفاہمت کے تحت ایسی کاوشیں کی گئیں اور وہ ثمر آور بھی ہوئیں۔ میثاق جمہوریت کی تشکیل میں بھی یہی جذبہ کارفرما تھا۔ برسوں محاذ آرئی کی سیاست کے بعدمسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہان نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے یہ معاہدہ کیا جس نے بعدازاں ہماری سیاست اور دیگر قومی معاملات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اٹھارویں اور انیسویں آئینی ترامیم کی متفقہ منظور ی بھی سیاسی اتفاق رائے کا مظہر تھی۔ ان ترامیم کے باعث چند اہم معاملات کی اصلاح احوال ہوئی ۔ مرکز نے بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل کئے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعیناتی ، نگران حکومتوں اور الیکشن کمشنر کی نامزدگی جیسے معاملات کا طریقہ کار طے ہوا۔ گرچہ ان معاملات میں مزید اصلاح کی گنجائش باقی ہے۔ تاہم ماضی کی نسبت کافی بہتری آئی ۔نوے کی دہائی میں تیرھویں اور چودھویں آئینی ترامیم کی منظوری میں بھی سیاسی مفاہمت کا مظاہرہ ہوا۔ سیاسی اتفاق رائے کی سب سے بڑی نشانی آئین پاکستان ہے۔ ستر کی دہائی میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے بھٹو صاحب سے بد ترین مخالفت اور مخاصمت کے با وجود ، دستور کی تشکیل اور منظوری میں انتہائی مثبت کردار ادا کیا ۔سقوط ڈھاکہ کے بعد ،پاکستان کے کم و بیش نوے ہزار قیدی بھارتی قبضہ میں تھے ۔جب ذوالفقار علی بھٹو معاہدہ شملہ کرنے بھارت گئے تو اس وقت تمام سرکردہ سیاسی رہنمائوں نے اپنے اختلافات با لائے طاق رکھتے ہوئے، انہیں ائیر پورٹ پر الوداع کہا۔یوں بھارت سمیت دنیا بھر کو قومی یکجہتی کا پیغام دیاگیا۔
اس وقت جبکہ پاکستان کو بہت سے بحران درپیش ہیں قومی یکجہتی کی ضرورت بے حد زیادہ ہے ۔ بہت سے اہم قومی معاملات سیاسی اتفاق رائے کے متقاضی ہیں اور اس امر کے بھی کہ ریاستی مفادات کو ذاتی اور سیاسی مفادات پر ترجیح دی جائے۔جبکہ ہمارے ہاں بدترین سیاسی محاذ آرائی، تصادم اور ہیجان کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ تین ماہ سے جاری احتجاج نے معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ گرچہ اس ڈیڑھ برس کے عرصہ میں وفاقی حکومت کی کارکردگی ہر گز مثالی نہیں تھی۔ تا ہم معاملات بہتری کی جانب گامزن ضرور تھے۔ روپے کی قیمت کو استحکام حاصل تھا اور اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی تھی ۔ پاکستان کی عالمی رینکنگ میں بھی بہتری کے آثار تھے۔ سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہو رہے تھے ۔ تا ہم احتجاج کے باعث اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری رک گئی ۔ سفارتی سطح پر الگ شرمندگی اٹھانا پڑی جب چین ، قطر ، سری لنکا اور مالدیپ کے سر براہان کے طے شدہ دورے منسوخ ہوئے۔ سبز پاسپورٹ کی ساکھ اور وقار متاثر ہوا اور دنیا نے ہمیں غیر مہذب اور غیر قانونی طرز احتجاج اختیار کرنے والی قوم کے طور پر جانا ۔ قبل افسوس امر ہے کہ لندن میں کشمیرکاز کے لئے نکالی گئی ریلی کو بھی سیاست کی نذر کر کے بھارتی لابی کو تسکین فراہم کی گئی۔یہی کچھ نیو یارک میں ہوا۔جب وزیر اعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی برادری کے سامنے بھارت پرسخت ترین تنقید کررہے تھے ،با ہر پی ٹی آئی کے ورکرز گو نواز گو کے نعرے لگا کر مسئلہ کشمیر کی حمایت کی کاوش کو نقصان پہنچاتے رہے۔
کاش عمران خان جانیں کہ انکا طرز سیاست میاں نواز شریف یا مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچا نے کے بجائے پاکستان کی رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بن رہاہے۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ عمران خان سمیت تمام سیاسی رہنمااس بات کا خیال رکھیں کہ انکی سیاست کی وجہ سے ریاست کوکوئی نقصان نہ پہنچے۔سیاسی جماعتیں ضرور حکومت کے غلط کاموں کی گرفت کریں اور اسکی ناقص کار کردگی کا محاسبہ بھی ۔ تاہم قومی مقاصد کو ٹھیس پہنچانے سے گریز کریں۔ اسی تناظر میں چند روز قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ــ"میثاق معیشت" کی تجویز دی ہے یعنی تمام جماعتیں معاشی سر گرمیوں کو سیاست کی نذر نہ کرنے کا عہد کریں ۔ بر سر اقتدار آنے سے قبل میاں نواز شریف ’’میثاق پاکستان ‘‘ کا تصور پیش کر چکے ہیں ۔جس میں تجویز کیا گیا تھا اہم قومی ترجیحات کا تعین کر کے ان پر کامل اتفاق رائے قائم کر لیا جائے اور حکومتوں کی تبدیلی قومی مقاصد کی تکمیل پر اثر انداز نہ ہو ۔ اس سلسلے میں اولین ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ ان تجاویز کی عملی صورتگری کرئے۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سیاستدان ضرور ایک دوسرے پر تنقید کریں ۔ ایک دوسرے کی گرفت کریں ۔ ایک دوسرے کو سیاسی طور پر نقصان پہنچائیں ۔ روائتی سیاسی حربے بھی استعمال کریں ۔ تا ہم جب بھی اپنے اور پاکستان کے مفادات میں تصادم اور ٹکراو دکھائی دے تو اپنی انا کی قلغی نیچے کر کے پاکستان کے مفاد کے آگے سر جھکا دیں ۔ یہ طرز عمل نہ صرف پاکستان کی سر بلندی کا باعث ہو گا بلکہ انکے وقار اور آبرو میں بھی اضافہ کرے گا۔
تازہ ترین