• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں گزشتہ تین ماہ سے بے یقینی کی صورتحال جاری ہے، تحریک انصاف کی طرف سے 30 نومبر کو ایک بار پھر ریڈ زون میں شدید احتجاج کرنے کے اعلان اور اس بار کے حکومتی تیوروں سے سیاسی بحران ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا نظر آرہا ہے۔ اس محاذ آرائی کی وجہ گزشتہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی ہے،جس کی تحقیقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آئندہ چند دنوں میں واضح ہو جائے گا لیکن سانپ گزر جانے پر لکیر پیٹنے والوں کو مستقبل کی ایسی تصویر پر غور کرنا چاہئے کہ جس کے خد وخال ابھی سے نہ سنوارے گئے تو ایسی بد صورتی تخلیق ہو گی کہ اس پر سب ہی نوحہ کناں ہوں گے۔حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے آئندہ عام انتخابات کو آزاد ،منصفانہ اور شفاف بنانے کیلئے انتخابی اصلاحات کرنے پر اتفاق کیا۔اسکے بعد تحریک انصاف سمیت پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل انتخابی اصلاحاتی کمیٹی بنادی گئی۔ کمیٹی کے متعدد اجلاس ہو چکے ہیں تاہم تحریک انصاف کے ارکان تاحال کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ انتخابی اصلاحات کے تحت دھاندلی پر قابو پانے اور انتخابی عمل کو ہر ممکن حد تک شفاف بنانے کیلئے پاکستان میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا نظام بھی متعارف کرانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ان ووٹنگ مشینوں کے استعمال کے بارے میں انتخابی اصلاحات کی ذیلی کمیٹی کو ایک بریفنگ دی گئی اور ان کے استعمال کا عملی مظاہرہ بھی کر کے دکھا یا گیا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین نے؛کرشمے؛ دکھانے کے عمل کے دوران جب دی گئی کمانڈ کے تحت اطاعت کرنے سے انکار کردیا تو الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل آئی ٹی نے اسی اجلاس میں ان الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی ؛افادیت؛ پر جو روشنی ڈالی اس نے قانون سازوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ الیکشن کمیشن کے ڈی جی نے بعد میں ایک خصوصی نشست میں میرے سامنے جو انکشافات کئے وہ جمہوریت اور پاکستان کے مستقبل کیلئے انتہائی پریشان کن ہیں۔ ایک عام پاکستانی کی طرح میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ آئندہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کی وجہ سے دھاندلی کے امکانات ختم ہو جائینگے اور انتخابات کے انعقاد کا ایک شفاف نظام رائج ہو جائیگا لیکن تفصیلات جاننے کے بعد آشکار ہوا کہ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ بھارت کی طرز پر جس الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے نظام کو ہم پاکستان میں متعارف کرانے جا رہے ہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس نظام کا تجربہ کرنے کے بعد اسے ترک بھی کر چکےہیں۔ ہالینڈ،آئرلینڈ سمیت یورپ اور مغرب کے کئی ممالک ای وی ایم کے استعمال کا نظام ناقابل اعتماد ہونے کے باعث اس سے کنارہ کشی کر چکے ہیں۔ 2005ءمیں امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر اورسابق وزیر خارجہ جیمز بیکر تھری نے ایک رپورٹ ؛بلڈنگ کانفیڈنس ان یو ایس اے ؛ میں لکھا کہ ہر الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیساتھ ووٹ کی تصدیق کے لئے آڈٹ ٹرائل پیپر ہونا چاہئے تاکہ ووٹ ڈالنے والا فرد مکمل طور پر مطمئن ہو کہ اس کا ووٹ درست طور پر کاسٹ ہوا ہے،اس ووٹ کی گنتی اور تصدیق ممکن ہو سکے گی اور اگر ای وی ایم میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو ووٹ کے بیک ایپ کا متبادل نظام موجود ہوگا۔ یہ بھی ایک انکشاف ہے کہ بھارت میں جن دوکمپنیوں نے یہ مشینیں تیار کیں انہوں نے ان مشینوں میں استعمال ہونیوالے سافٹ وئیر پروگرام یعنی مائیکرو چپس کو امریکہ اور جاپان کی کمپنیوں سے خریدا۔ ان غیر ملکی کمپنیوں کیساتھ سافٹ وئیر پروگرام میں استعمال ہونیو الا انتہائی خفیہ کوڈ بھی شئیر کیا گیا جس سے یہ ای وی ایمز کسی بھی طرح قابل بھروسہ نہیں رہیں۔ تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا کہ ای وی ایم کو نہ صرف ہیک کیا جا سکتا ہے بلکہ اس میں ٹیمپرنگ کے وسیع امکانات پائے جاتے ہیں۔ ای وی ایم کی مینو فیکچرنگ سے ان کے استعمال اور الیکشن کے نتائج کےاعلان تک مینوفیکچررز،ڈیزائنرز،ٹیکنیشنز اورآئی ٹی کے متعلقہ ماہرین کسی بھی سطح پر نہ صرف ان میں ٹمپرنگ کر سکتے ہیں بلکہ الیکشن کے نتائج میں ردو بدل بھی ممکن ہے۔بھارتی الیکشن میں یہ دلچسپ کہانیاں بھی منظر عام پر آئی ہیں کہ ان ای وی ایمز کو آپریٹ کرنے یا ان سے متعلق افراد نے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو حلقے کی اہمیت کے اعتبار سے پیشکش کی کہ وہ ایک سے پانچ کروڑ روپے بطور رشوت دیں تو ان کے حلقے کے نتائج الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں ؛دھاندلی؛ کے ذریعے ان کے حق میں کر دئیے جائیں گے۔ ان مشینوں کے ناقابل اعتماد ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2008 میں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کی طرف سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے ایوان زیریں میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے نظام کے ذریعے ووٹنگ کرائی گئی۔اس عمل کے دوران 54 ارکان ایسے تھے جنہوں نے اپنی نشستوں پر نصب بٹن دبا کر الیکٹرانک ووٹ ڈالنے کی متعدد بارکوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ اسکے بعد ان ارکان پارلیمنٹ کو مینوئل ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دی گئی۔اس طرح یہ مشینیں کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتی ہیں۔ بھارت سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں ان ای وی ایمز کی سب سے بڑی خرابی جو بتائی گئی ہے وہ یہ کہ اس میں ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد ووٹر یہ تصدیق نہیں کر سکتا کہ اس کا ووٹ درست کاسٹ ہوا یا نہیں،اس کا ووٹ گنتی میں آئے گا یا نہیں،حتی کہ مبصر یا الیکشن کمیشن کا متعلقہ عملہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ای وی ایم میں الیکشن سے پہلے یا بعد میں ٹمپرنگ نہیں ہوئی۔ ای وی ایم میں موجود ووٹوں کا ریکارڈ ضائع ہونے کے خدشات بھی ٹھوس حقیقت ہیں۔ ای وی ایم کی ساکھ کے بارے میں امریکہ کی اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر ڈیوڈ ایل ڈل کا کہنا ہے کہ یہ کسی طور ممکن ہی نہیں ہے کہ کمپیوٹر ٹیکنا لوجی فول پروف ہو اور ایسی مشین تیار کی جا سکے جس میں گڑ بڑ نہ کی جا سکتی ہو۔ دنیا بھر کے کمپیوٹر پروفیشنلز بھی اس بات پر متفق ہیں کہ قابل اعتماد ٹیکنالوجی صرف وہی ہے جس میں انفرادی طور پر ووٹ کی تصدیق کی جا سکے اور وہ صرف بیلٹ پیپر کے نظام کے ذریعے ہی ممکن ہے،یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی بیلٹ پیپر کا نظام ہی رائج ہے۔ ہم تو ابھی تک گزشتہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کے سیاپے سے نہیں نکل سکے تو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے دنیا بھر میں ترک کئے جانیو الے نظام کو اختیار کر کے مستقبل کیلئے کیوں گڑھا کھودنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ الیکشن کمیشن اور سیاسی جماعتیں ترقی یافتہ ممالک کیساتھ اپنے ہمسائے بھارت کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے نظام کے استعمال کا فیصلہ کریں اور تحریک انصاف بھی سڑکوں پر احتجاج کی بجائے انتخابی اصلاحاتی کمیٹی جیسے مؤثر پلیٹ فارم پر اس حساس معاملے پر فیصلہ سازی میں کردار ادا کرے۔ کہتے ہیں دانا وہ ہوتا ہےجو خود تجربہ کرنے کی بجائے دوسروں کی غلطیوں سے سیکھ لے۔
تازہ ترین