• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے اور تعلقات مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب جنرل راحیل شریف امریکی عسکری اور سول حلقوں کو یہ باور کروا رہے تھے کہ فوج کا آپریشن ضرب عضب سارے دہشت گرد گروپوں کے خلاف ہورہا ہے تومشیر خارجہ امور سرتاج عزیز صاحب نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا کہ پاکستان صرف ان گروپوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جو اس کے خلاف ہیں اور ان گروپوں کے خلاف کچھ نہیں کر رہا جو اس کے دشمن نہیں ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے سرتاج عزیز کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ تاریخی تناظر میں بات کر رہے تھے لیکن اس سے ان امریکی حلقوں کو شہ ملی ہے جو مسلسل یہ کہتے ہیں کہ پاکستان دوغلی پالیسی پر گامزن ہے۔
یہ امر بعید از قیاس ہے کہ سرتاج عزیز صاحب کا بیان اسٹیبلشمنٹ کی کلیرنس کے بغیر دیا گیا ہو۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چند ہفتے پیشتر جب پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں پاکستان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ حقانی نیٹ ورک جیسے امریکہ دشمن گروہوں کو پناہ گاہیں مہیا کررہا ہے تو امریکی سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر شدید احتجاج کیا گیا تھا اور اس طرح کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔ تو پھر چند ہفتوں میں ایسا کیا ہوا کہ سرتاج عزیز صاحب خود ہی ان الزامات کی تائید کرنے لگے جن کا ذکر پینٹاگون کی رپورٹ میں کیا گیا تھا۔ کیا سرتاج عزیز صاحب صرف لشکر طیبہ جیسے گروپوں کی بات کر رہے تھے جن کا ہدف ہندوستان ہے؟
بعض امریکی حلقے اسے پاکستان کی روایتی دوغلی اور بلیک میلنگ کی پالیسی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سرتاج عزیز کے بیان کا یہ مطلب ہے کہ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اس کے دشمنوں کے خلاف کارروائیاں کرے تو اسے پاکستان کو مزید وسائل مہیا کرنے ہوں گے۔ یعنی افغانستان میں امریکی فوجیوں کے بڑے حصے کے انخلا کے بعد بھی کولیشن سپورٹ پروگرام کے تحت پاکستان کی مدد جاری رہنی چاہئے۔ ان حلقوں میں جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ جنرل راحیل شریف کا اپنے دورہ امریکہ میں بیانیہ بالکل نیا تھا۔ انہوں نے کھل کر ہر جگہ اس بات پر زور دیا کہ پاکستان ضرب عضب آپریشن اپنے ملک سے انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے کررہاہے اور یہ کسی بڑی طاقت کے دباؤ میں آکر نہیں کیا جارہا۔ ہمارے خیال میں یہ درست اور حقیقت پسندانہ بیانیہ ہے کیونکہ آخرکارطالبان اور دوسرے جنگجو گروہوں کی شورش کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہی ہو رہا تھا۔ پاکستان پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ اگر امریکیوں کے افغانستان سے جزوی انخلاء سے پہلے طالبان کا سرحدی علاقوں سے صفایا نہ کیا گیا تو اس کے لئے مشکلات میں کئی سو گنا اضافہ ہو جائے گا۔ ماضی میں پاکستان کا عوامی بیانیہ بالکل مختلف تھا۔ اس بیانیہ میں سارا زور اس بات پر تھا کہ امریکہ افغانستان میں اپنی جنگ لڑرہا ہے اور اس نے پاکستان کو جبراً اس جنگ کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ اس جنگ میں پاکستان کو کئی سو بلین ڈالر کا نقصان امریکہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس لئے یا تو پاکستان کو اس جنگ سے علیحدہ ہوجانا چاہئے اور یا پھر امریکہ کو پاکستان کے نقصانات کا پورا ازالہ کرنا چاہئے۔ اس کے الٹ امریکی بیانیہ یہ تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو کئی بلین ڈالر کی خطیر رقوم مہیا کی ہیں جبکہ پاکستان امریکہ کے دشمن طالبان کو پناہ گاہیں بھی مہیا کرتا ہے اور دوسرے طریقوں سے بھی ان کی اعانت کرتا ہے۔
اس حد تک امریکی بیانیہ میں صداقت تھی کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اچھے اور برے طالبان میں تفریق کرتی تھی۔ تحریک طالبان پاکستان کو دشمن قرار دیا جاتا تھا جبکہ افغان طالبان (جن میں حقانی نیٹ ورک سر فہرست تھا ) کو دوست سمجھا جاتا تھا۔ اس تفریق کے پس منظر میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا ا سٹریٹیجک گہرائی کا نظریہ تھا اور یہ امید تھی کہ امریکہ کے افغانستان سے نکلنے کے بعد جو حکومت بنے گی اسے ہندوستانی اثر و رسوخ سے بچانے کے لئے افغان طالبان کو استعمال کیا جائے گا۔ یہ زاویہ نگاہ کافی ناقص تھا کیونکہ پاکستانی اور افغان طالبان کے درمیان تفریق ناممکن تھی۔ زمینی حقائق بھی یہی تھے کہ طالبان کی شورش سے پاکستان کا مالی اور جانی نقصان روز بروز بڑھ رہا تھا۔جب یہ واضح ہو گیا کہ طالبان پاکستانی ریاست کے وجود کے لئے خطرہ ہیں تو پاکستانی فوج نے سارے جنگوؤں کے خلاف کارروائی کا بیڑا اٹھایا۔ ایسے موقع پر جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکہ اس لئے اہم ہے کہ امریکی سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے معاملے میں پاکستانی عسکری قیادت کے ساتھ ہی بنیادی معاملات طے کئے جا سکتے ہیں۔ یہ دورہ اس لئے بھی مفید ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے بعد امریکہ میں بھارت کے حق میں فضا قائم ہو چکی ہے۔ اس کوزائل تو نہیں کیا جا سکتا لیکن پاکستانی قیادت پاک امریکی تعلقات کو صحت مند بنانے کیلئے کوشش کرسکتی ہے کیونکہ پاکستان کے لئے امریکہ سے تعلقات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ نہ صرف امریکہ پاکستان کو سب سے زیادہ مالی امداد فراہم کرتا ہے بلکہ وہ سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔ پاکستان کو بہت سے اسلحہ کے فاضل پرزوں کے لئے بھی امریکہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ مزید برآں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضہ جات کے لئے امریکی حمایت درکار ہوتی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے افغانستان اور طالبان کے بارے میں حالیہ بیانیہ کو کافی پذیرائی ملی ہے۔ امریکہ چاہتا بھی یہی ہے کہ پاک افغان تعلقات میں وسعت اور گہرائی پیدا ہو۔ امریکہ کے دورے سے پہلے جنرل راحیل شریف کا دورہ کابل اس سلسلے میں کافی اہم تھا۔ صدر اشرف غنی احمد زئی کے دورہ اسلام آباد میں بھی بہت سے معاملات کو طے کیا گیا ہوگا۔ جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ اب پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے دست و بازو بن چکے ہیں اور باہمی مشاورت سے مخالف طاقتوں کو شکست دینے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے امریکی حلقوں کو یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ داعش جیسی تنظیم کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔
قطع نظر اس سے کہ جنرل راحیل شریف کے نئے بیانیہ کا امریکہ میں خیر مقدم کیا گیا ہے، حقیقتاً پاکستان کے لئے صحیح سمت بھی یہی ہے کہ وہ اچھے اور برے طالبان کے درمیان تفریق ختم کرکے ہر طرح کی مسلح جنگجو تنظیموں کا خاتمہ کرے ۔ پورے ملک سے انتہا پسند تنظیموں کی بیخ کنی کی جانی چاہئے۔ جب تک یہ نہیں ہوتا نہ تو ریاست کی رٹ قائم ہوگی نہ ہی دہشت گردی سے نجات ملے گی۔ ابھی تو زیادہ تر آپریشن افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ہی ہورہا ہے لیکن ریاست کو اپنی بقا کے لئے لازم ہے کہ وہ پورے پاکستان سے ایسے گروہوں کا خاتمہ کرے جو فرقہ واریت سمیت ہر قسم کی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔
تازہ ترین