• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمٰن نے قومی اسمبلی میں بتایا ہے کہ دنیا کی پہلی ایک سو جامعات میں کوئی پاکستانی یونیورسٹی شامل نہیں، تاہم عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی چھ یونیورسٹیاں501سے لے کر701میں شامل ہیںجو کوئی قابل رشک بات تو نہیں لیکن اس بات کی غمازی ہے کہ اگر حکومتی سطح پر مربوط جدوجہد کی جائے تو پاکستان تعلیم کے میدان میں اپنا سکہ ضرور منوا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں تعلیم حکمرانوں کی ترجیحات میںکبھی شامل نہیں رہی اور اب بھی اس پر قومی بجٹ کا چار فیصد سے زیادہ حصہ خرچ نہیں ہوتا ۔موجودہ حکومت اسے جی ڈی پی کے 7فیصد تک لے کر جانا چاہتی ہے اور اس کے لئے عملی اقدامات بھی کررہی ہے لیکن موجودہ حالات میں ایسا ہونا ایک معجزہ ہی دکھائی دیتا ہےاور اگر ہمارے تعلیمی نظام کا بھرپور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری ابتدائی درسگاہوں سے لے کر جامعات تک کے طلباء و طالبات کو معیاری تعلیم کی وہ سہولتیں حاصل نہیں جو دنیا کے ترقی یافتہ ہی نہیں کئی ترقی پذیر ممالک کو حاصل ہیں، مگر اس کے باوجود والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کر گزرنے میں کوئی کمی نہیں کررہے، اگر حکومت تعلیم کو بجٹ میں متعین کئے جانے والے اخراجات سے مستثنیٰ کرکے خصوصی شعبے کی حیثیت دے دے اور اس کے لئے جتنے بھی فنڈز ہوسکیںمہیا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستانی جامعات بھی دنیا کی ٹاپ ٹین یونیورسٹیوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہوں۔ صوابی کی سدرہ نامی ایک طالبہ نے ان دنوں میں اے سی سی اے کے امتحان میں 180ممالک کے طلبہ میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ،شرط صرف یہ ہے کہ انہیں ارزاں اور کوالٹی ایجوکیشن فراہم کی جائے اور اس کیلئے سازگار ماحول مہیا کیا جائے اگر ایسا ہوجائے تو وہ اپنے اسلاف کی بغداد، غرناطہ اوراشبیلیہ میں قائم کردہ علمی روایات کو تازہ کرنے میں کوئی کمی نہیں کریں گے۔
.
تازہ ترین