• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قدرت حالات اور جیونے کر کٹ کے نامور کھلاڑی عمران خاں کو سیاسی طور پر ابھرنے اور چھا جا نے کے اتنے بھر پور مواقع دیے کہ اگرمحض سیاسی صلاحیتوں کا فقدان ہی ہو تا پھر بھی با ت بن سکتی تھی المیہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت اس فکری توازن سے بھی تہی دامن ہے جو سیاسی قیا دت کے لیے ناگزیر ہے ۔اُ ن کی سیا سی شخصیت میں سوائے انتہا پسندانہ جذبا تیت یا غصیلی الزام تر اشی کے آخر اور کو ن سی کوالٹی ہے جو تلا ش کی جا سکتی ہے۔اپنی اس فطری خصوصیت کی و جہ سے وہ اپنے لیے جتنے دوست بناتے ہیں ان سے کئی گنازیادہ دشمن پیدا کر تے چلے جا رہے ہیں۔ خود نمائی وخود ستائی نے انھیں کبھی اپنی انا کے خول سے با ہر نہیں آنے دیا نتیجتاً اُ ن میں کبھی وسعت نظری پیدا ہو سکی نہ جمہوریت اُن کے اندر کہیں جگہ بنا سکی۔سیا سی ناپختگی کے ساتھ کا نو ں کے کچے ہیں۔کسی ایسے شخص کو زبان پر بھی کنڑول نہ ہو تو اس کی شخصیت میں کبھی استقامت نہیں آسکتی اپنی انہی خصوصیات کی بر کت سے مو صوف کو با ربار پنیترے بدلنے پڑتے ہیں اپنی مختصرسی سیاسی زند گی میں جتنے پنیترے اور مو قف عمران خا ں نے بدلے ہیں وطن عزیز کے تمام سیا سی لیڈران میں سے کسی ایک کو بھی یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔سابق ڈکٹیٹر پرویزمشرف کے ریفرنڈم سے لے کر جیو اور جنگ کی قصیدہ گوئی تک،سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی شان میں پیش کیے گئے سپاس نا موں سے لے کر اُ ن کی اور جسٹس فخرالدین جی ابر اہیم کی ہجوگوئی و الزام تر اشی تک۔موصوف کی نظروں میں اپنے سوا کو ئی محترم ہے نہ دیانیدار۔ہر کو ئی سازشی چور اور لٹیرا ہے،کہا جا تا ہے کہ پہلے تولو پھر بو لولیکن مو صوف کا خیا ل ہے کہ پہلے بو لو پھر تولوبلکہ تو لنے کی ضرورت ہی کیا ہے لفظــــــ ’’انصاف‘‘کا ورد ہی کا فی ہے مو صوف کے رول ما ڈل ائرمارشل اصغر خان کے متعلق مر حوم پیر پگاڑا کہا کرتے تھے کہ ان میں تحر یک ہے نہ استقلال جبکہ ہما رے ممدوح کے پا س تحر یک تو ہے لیکن استقلال یا انصاف دونوں نہیں ،جہاں سے و ہ جیت جا ئیں وہاں تو انصا ف ہے اور جہاں سے ہا ر جا ئیں وہیں وہیں بے انصا فی و دھاندلی ہے اگر چہ اس دھاند لی کے خلاف تحریک چلا نے کا خیال انہیں پو رے ایک سال بعدآیا ہے ۔کیوں اور کیسے آیا ہے ؟اس پر ہم اظہار خیا ل کر نا نہیں چاہتے بس اتنا عرض ہے کہ اپنے دھاندلی دھا ندلی کے کھیل میں بھی وہ غیر سنجیدہ ہیں بصورت دیگر وہ پو رے ایک سا ل سے اسمبلیوں میں کیوں بیٹھے ہو تے اور خیبرپختون خواہ کی حکمرانی کے مزے کیوں لو ٹ رہے ہو تے۔جن لو گو ں کو اپنے لگا ئے گئے الزاما ت کا یقین ہو تا ہے اُ ن کے رویے ایسے غیر ذمہ دارنہ تو نہیں ہو تے۔ حا لا نکہ زمینی حقائق کچھ اور تھے بیشتر قومی حلقوں میں آپ کی پا رٹی کے پا س ڈھنگ کے امید واران تک نہ تھے یہی وجہ ہے کہ چالیس کے قریب قومی حلقوں میں آپ ا پنے امیدواران تک کھڑے نہ کر سکے اور تیس حلقوں میں آپ کے امیدواران کی ضما نتیں تک ضبط ہو گئیں ۔
پھر بھی آپ کو اپنے چا ر حلقوں کے حوا لے سے اگر اتنا غصہ ہے تو یہ معا ملہ آزاد عد لیہ کے پا س ہے جس کی سر بر اہی اس وقت آپ کے ہدف تنقید افتخار محمد چو ہدری کے پاس نہیں ہے سوال یہ ہے کہ منتخب جمہوری حکو مت کا اس ایشو سے کیا لینا دینا ہے اُ ن کے تو خو د اپنے کیسسز آپ سے کہیں زیا دہ التواء کا شکا ر ہیں ۔
عمران خاں کو سو چنا چاہئے کہ سیا سی سفر ہا تھوں پر سرسوں جما نے کی طر ح نہیں ہو تا اس را ہ میں بڑ ی الجھنوں سے گز رنا پڑتا ہے وہ اتنی شتابی دکھا ئیں گے تو بجا ئے آگے بڑھنے کے بہت پیچھے جا کر رہ جائیں ۔اُن کا یہ غیر ذمہ دارنہ رویہ جا ری رہا تو ہم پوری ذمہ داری سے لکھے دیتے ہیں کہ اگلے انتخابا ت میںوہ محض اصغر خا ن بن کر رہ جا ئیں گے۔وطن عزیز طا لع آزما ئوں کے ہا تھوں پہلے ہی بڑی چو ٹیں کھا چکا ہے قومی سیا ست نے وقت سے یہ سبق سیکھا کہ منا قشت کی احتجاجی سیا ست قوم کو پسماندہ بنا تی ہے اور ملک کو پیچھے لے جا تی ہے اگر آج قومی سیا ست میچورٹی کی راہو ں پر ہے تو قومی میڈیا کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ کسی طفل سیاست کو یہ حق نہ دے کہ وہ اسے با ز یچہ اطفال بنا سکے ۔اگر یہاں دو پارٹی سسٹم مضبو ط ہو رہا ہے تو اس پر با ریوں کی پھبتی کستے ہو ئے عدم استحکام پید ا کر نے کا رو یہ قومی مفا د میں نہ ہو گا تیسری پا رٹی اگر اپنے لیے جگہ بنا تی ہے تو خوش آمدید لیکن سیا سی آداب و روایا ت و ضوابط کو درہم بر ہم کر نے کا حق کسی کو نہیں ہونا چاہئے۔
تازہ ترین