• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی کا 48 واں یوم تاسیس اتوار 30 نومبر کو بلاول ہاؤس لاہور میں منایا جا رہا ہے ۔ اسی دن پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک بار پھر وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کریں گے اور اپنے آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کریں گے ۔ پاکستان کے میڈیا اور عوام کی توجہ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس سے زیادہ تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں پر ہو گی ، جس نے اس وقت پاکستان کی سیاست کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے سال 1967ء سے لے کر اب تک 47 سالوں میں پہلی مرتبہ ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں ،جن میں کوئی دوسری سیاسی جماعت پیپلز پارٹی سے زیادہ مقبول ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کے 48 ویں یوم تاسیس پر ان نئے حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے ۔ یہ زیادہ مشکل حالات ہیں ۔ پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی لڑائی ان قوتوں سے تھی ، جو ملک میں ہر صورت آمریت نافذ کرنا چاہتی تھیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری کی لڑائی بھی اگرچہ انہی قوتوں سے ہے لیکن انہوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی ہے اور اب وہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے آمریت کے نفاذ کی بجائے سیاسی عمل پر اپنا مکمل اختیار حاصل کرچکی ہیں ۔ اسی شہر لاہور میں ذوالفقار علی بھٹو نے 30نومبر 1967ء کو ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی ۔ اس دن ایک بہت بڑا کنونشن منعقد ہوا تھا ۔ یہ بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ترقی پسند اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی تھی ، جس نے سوشلزم کو اپنی معیشت اور جمہوریت کو اپنی سیاست قرار دیا تھا ۔ یہ پارٹی دیکھتے ہی دیکھتے مغربی پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد پارٹی کا پہلا یوم تاسیس منانے کے لیے اسی شہر کو منتخب کیا ۔ اس 48 ویں یوم تاسیس کے حوالے سے منعقدہ کنونشن میں شاید چند لوگ ایسے بھی شریک ہوں گے ، جو 47 سال پہلے والے کنونشن میں بھی شریک تھے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو چاہئے کہ یوم تاسیس کے بعد ان چند لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ ضرور پوچھ لیں کہ 1967ء والے کنونشن اور 2014ء والے کنونشن میں کیا بنیادی فرق ہے ۔ ان سطور کو تحریر کرنے سے کچھ دیر پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے انتہائی سینئر رہنما اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر مخدوم محمد امین فہیم کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر ایک غیر رسمی نشست ہوئی ، جس میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے قیام اور پیپلز پارٹی کی جمہوریت اور پاکستان کے عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کے مختلف ادوار کا ایک ایسا تجزیہ پیش کیا ، جس سے ہمیں یہ بات سمجھ آ گئی کہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا راز کیا تھا ۔ انہوں نے یہ بتایا کہ انتہائی کٹھن اور مشکل حالات اور ہر آزمائش میں پیپلز پارٹی سرخرو ہو کر نکلی ۔ میں مخدوم صاحب کی جو بات سمجھ سکا ، وہ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کی قیادت ، کارکنوں اور عوام کے درمیان بہت گہرا رشتہ تھا ۔ پارٹی اپنی نظریاتی اساس پر قائم رہی اور وسیع تر مشاورت سے فیصلے ہوتے تھے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پارٹی کے لیے آزمائش ختم نہیں ہوئی ہے اور حالات پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور مشکل ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کام کرنے والے لوگ بوجوہ پیچھے چلے گئے ہیں ۔ پارٹی میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی نئی ٹیمیں کام کر رہی ہیں اور اس نئے دور میں نوجوانوں کو ہی آگے آنا چاہئے ۔ آج کے حالات میں بھی شہید بھٹو کے فلسفہ پر عمل کرکے ہی پیپلز پارٹی سرخرو ہو سکتی ہے ۔ 1967ء اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے ۔ 1967ء میں پاکستان میں انقلاب کے حالات تھے ، لوگوں میں زبردست جوش و ولولہ موجود تھا اور نئی دنیا جنم لے رہی تھی ۔ آج جمہوریت کو ناکامی سے بچانے کا چیلنج در پیش ہے ، پیپلز پارٹی کے کارکن اور عوام مایوس ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس ایسے حالات میں منایا جا رہا ہے ، جب لوگ کسی واضح نصب العین کے بغیر ایک ایسی سیاسی پارٹی کی کال پر سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں ، جو انتہائی دائیں بازو کی سوچ کی حامل ہے اورغیر جمہوری اور انتہا پسند قوتوںنے سیاسی میدان خالی کرکے دے دیا ہے ۔ آج کے حالات کا بہت سنجیدگی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ بلاول ہاؤس لاہورکے کنونشن میں خورشید حسن میر ، جے اے رحیم ، ڈاکٹر مبشر حسن ، بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید ، مخدوم محمد زمان طالب المولیٰ ، چوہدری ارشد ، راجہ انور ، حنیف رامے ، معراج خالد ، شوکت محمود ، ملک حاکمین خان ، بیگم ریحانہ سرور ، بیگم اشرف عباسی اور ان جیسے بے شمار لوگ موجود نہیں ہوں گے ، جو سیاست ، تاریخ اور فلسفہ کا علم رکھتے تھے اور اپنے ملک کی معروضی سیاست کو اچھی طرح سمجھتے تھے ۔ بلاول ہاؤس والے کنونشن میں وہ سیاسی کارکن بھی نہیں ہوں گے ، جن کی تربیت اس وقت کی ان سیاسی جماعتوں نے کی تھی ، جو پاکستان میں عوامی اور قومی جمہوری انقلاب کی راہ ہموار کر چکی تھیں ۔ بلاول ہاؤس والے یوم تاسیس کے کنونشن میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوں گے ، جنہوں نے پیپلز پارٹی کے اقتدار کے زمانے میں اپنی سماجی اور طبقاتی حیثیت ہی تبدیل کر لی ہے ۔ جو لوگ حالات کا ادراک رکھتے ہیں ، وہ یا تو خاموش رہیں گے یا ان کی بات سننے کے حالات نہیں ہوں گے ۔ یہاں وہ کارکن شامل ہوں گے ، جو حیثیت تبدیل کرنے والوں کے بارے میں شاکی ہوں گے ۔ اس ماحول میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہو گا کہ پارٹی قیادت ، عہدیداروں اور کارکنوں کے مابین نظریاتی بندھن بہت کمزور ہو چکا ہے ۔ مخدوم محمد امین فہیم اگرچہ نوجوانوں کی نئی ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کر رہے ہیں لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اس ٹیم کے لیے چیلنج بہت بڑا ہے ۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پارٹی کے تھنک ٹینک کو پاکستان اور بدلتے ہوئے عالمی حالات کا گہرائی سے تجزیہ کرکے ایک نئی پارٹی پالیسی دینا ہو گی ۔ اس یوم تاسیس پر پیپلز پارٹی کا ایک نیا ڈکلئیریشن سامنے آنا چاہئے ، جو ایک واضح پروگرام کے ساتھ پاکستان کے عوام کو ایک نئی راہ متعین کرکے دے ۔ اس کنونشن کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور پارٹی کی قیادت کو ملک بھر میں پیپلز پارٹی کے سینئر اور دلبرداشتہ کارکنوں کے ساتھ رابطہ بحال کرنا ہو گا ۔ بڑے پیمانے پر عوامی رابطہ مہم شروع کرنا ہو گی ۔ پیپلز پارٹی کی تنظیم نو پر توجہ دینا ہو گی اور ان لوگوں کو پارٹی سے دور کرنا ہو گا ، جو کارکنوں کے لیے اجنبی ہیں یا جنہوں نے اپنے ’’ اعمال ‘‘ کی وجہ سے پارٹی کو بدنام کیا ہے ۔ یہ ڈکلئیریشن دیتے وقت اس بات کو ضرور مد نظر رکھا جائے کہ جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد بھی بہت کٹھن اور مشکل تھی لیکن جمہوریت کو ناکامی سے بچانے اور پیپلز پارٹی کے عوام اور کارکنوں کے ساتھ رشتے کی بحالی کے لیے جدوجہد اور زیادہ مشکل اور کٹھن ہے ۔ یہ تاریخ کا ایک نیا موڑ ہے ۔ تھکن ہے ، مایوسی ہے ، نظریاتی رشتے کمزور ہیں ، شکوک و شبہات ہیں ، پارٹی امور چلانے والے بعض لوگوں کے ساتھ کارکنوں کی اجنبیت ہے ، پیسہ بنانے کی دوڑ ہے ، پارٹی کے سینئر رہنما تقریباً لاتعلق ہیں ۔ سیاست اور عوامی رابطے کے لیے حالات سازگار نہیں ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سیاست غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کو دوبارہ پاکستان کی سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت بنانے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں ۔
تازہ ترین