• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مئی 2013کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اکثریتی جماعت بن کر ابھری جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی دوسرے اور پاکستان تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہی ۔انتخابی مینڈیٹ کےمطابق مسلم لیگ (ن) نے وفاق اور صوبہ پنجاب میں حکومت قائم کی۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی جبکہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا۔ امید کی جا رہی تھی کہ تینوں بر سر اقتدار جماعتیں باہم الجھنے کے بجائے عوام سے کئے گئے وعدوں کی عملی صورت گری کے لئے کوشاں رہیں گی ۔ آغاز میں سیاسی صورتحال قدرے پر سکون رہی تا ہم انتخابات کے ڈیڑھ برس بعد عمران خان نے 4حلقوں میں دھاندلی کے الزامات کو جواز بناتے ہوئے احتجاج کا آغاز کردیا۔ گزشتہ تین ماہ سے احتجاج کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ وقتاً فوقتاً دیگر سیاسی جماعتیں بھی جلسوں کا اہتمام کرکے، بیانات اور اعلانات کے ذریعے اس سیاسی ہلچل میں اپنا حصہ ڈالتی دکھائی دیتی ہیں۔دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت کم و بیش تمام قابل ذکر سیاسی جماعتیں بر سر اقتدار ہیں ۔ تاہم اپنی حکومتی کارکردگی پر نگاہ کرنے اور مفاد عامہ کے اقدامات یقینی بنانے کے بجائے اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں ۔ مخالفانہ بیانات دینا اور خوشنما اعلانات جاری کرنا یوں بھی ہمارے سیاستدانوں کا مرغوب مشغلہ ہے۔ بسا اوقات ان اعلانات اور بیانات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، سیاسی رہنما اس امرسے بخوبی آگاہ بھی ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود عوام الناس کی آنکھوں میں طرح طرح کے خواب سجا دئیے جاتے ہیں ۔ خاص طور پر حصول اقتدار سے قبل یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ برسر اقتدر آنے کی صورت میں ملک و قوم کی تقدیر بدل دیں گے۔ تاہم حکمرانی ملنے کے بعد زمینی حقائق دکھائی دیتے ہیں تو ترجیحات بدل جاتی ہیں ۔
مسلم لیگ(ن) کی انتخابی مہم کے دوران وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف متواتریہ دعویٰ کرتے رہے کہ اگر وفاق میں ان کی جماعت کی حکومت بنی تو وہ فقط چھ ماہ میں بجلی بحران کا خاتمہ کر دیں گے۔ مسلم لیگ(ن) کی حکومت قائم ہوئے تقریبا دو سال ہونے والے ہیں۔ اس دوران لوڈ شیڈنگ میں نسبتاً کمی ضرور آئی ہے تاہم ،انکے اعلانات کے مطابق، اس بحران کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ اسی طرح کم و بیش ہر جلسے اور تقریب میں ملک و قوم کی لوٹی گئی دولت وصول کرنے اور ایک ایک پائی قومی خزانے میں واپس لانے کا اعلان کیا جاتا تھا۔ تاحال یہ وعدہ بھی تکمیل کا منتظرہے ۔ غالباً حکومت کی سیاسی مصلحتیں احتساب کی راہ میں حائل ہیں۔ اسی قسم کے اعلانات آج کل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی اپنے جلسوں میں دہراتے ہیں کہ برسر اقتدار آکر قوم کی پائی پائی کا حساب لیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص اپنے پارٹی فنڈز میں ہونے والے گھپلوں کا حساب لینے سے قاصر ہو وہ قومی خزانے کی خرد برد کا حساب کیونکر لے گا۔اپنی انتخابی مہم میں عمران خان کھلے عام اعلان کرتے رہے کہ بر سر اقتدار آکر تین ماہ میں بلدیاتی انتخابات کروائیں گے اور نوے روزمیں کرپشن کامکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں انکی حکومت قائم ہوئے تقریبا اٹھارہ ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے، تاحال نہ تو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جاسکا اورنہ ہی کر پشن کا خاتمہ ۔ چند برس قبل ،اے این پی کے دورحکومت میں ،عمران خان نے نیٹو سپلائی روکنے کے لئے پشاور میں دھرنے کا اہتمام کیا تھا۔ اس وقت انکا موقف تھا کہ نیٹو سپلائی کی ترسیل اور ڈرون حملے حکومتی کمزوری کے غماز ہیں ۔ آج جبکہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکمرانی ہے ،اس صوبے سے نیٹو سپلائی نہایت آسانی اور روانی سے گزررہی ہے۔ ماضی میں اختیار کردہ طرز عمل کے قطعی برعکس، ڈرون حملوں پر بھی وہ چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ بیان بازی کرنا اور دوسروں کو ہدف تنقید بنانا نہایت آسان ہے جبکہ عملی طور پرخود کچھ کرنا بہرحال ایک مشکل امر ہے ۔ اچھا ہو کہ جس تبدیلی کے وہ دعوئےدار ہیں اس کی ابتدا اپنی جماعت اور صوبے سے کریں ۔
چند روزقبل امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے بھی کچھ اہم اعلانات کئے۔ فرمایا کہ بر سراقتدار آ کر انکی حکومت عوام کو تعلیم اورصحت کی مفت سہولتیں فراہم کرے گی ،بے روز گاروں اور بوڑھوں کو الائونس دے گی اور اسلامی نظام نافذ کیا جائے گا۔ مشرف دورحکومت میں جماعت اسلامی پانچ برس صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت کا حصہ رہی ۔ اس وقت یہ ایجنڈا نافذ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی گئی ؟ اب بھی جماعت اسلامی خیبر پختونخوا میں حکومتی اتحاد کا حصہ ہے ۔انہیں چاہئے کہ ان اچھے اقدامات کا آغاز اپنی صوبائی حکومت سے کریں اور تبدیلی کی علمبردار تحریک انصاف کیساتھ مل کر تعلیم ، صحت اورنوجوانوں کے حوالے سے یہ ایجنڈاعملی طور پرنافذ کریں۔ جماعت کے حالیہ اجتماع میں محترم سراج الحق نے احتساب پر بھی بے حد زور دیا ۔ احتساب کا مطالبہ قابل تائید، تاہم اس کا آغاز بھی انہیں اپنے صوبے سے ہی کرنا چاہئے بلکہ ان حکومتی اراکین سے جو تنخواہیں تو عوام کے ادا کئے گئے ٹیکس سے وصول کرتے ہیں مگر گزشتہ تین ماہ سے اپنا وقت اور سرکاری وسائل عمران خان کے جلسوں کی نذر کئے ہوئے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی وہ سیاسی جماعت ہے جسے سب سےزیادہ عرصہ حکومت کرنے کا موقع ملا۔ حال ہی میں بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں ایک بڑا جلسہ کیا اور برسر اقتدار آنے کی صورت عوام کی تقدیر بدلنے کا دعوی ٰ بھی۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں ہونے والی بد عنوانی، اقربا پروری اور بد ترین حکومتی کارکردگی سے ہم سب آگاہ ہیں۔ آج بھی پیپلزپارٹی صوبہ سندھ ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکمران ہے ۔ مگر اپنی حکومتوں کی کارکردگی بہتربنانے کے بجائے خواب فروشی میں مصروف ہے۔ سندھ جسے پیپلز پارٹی کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے وہاں عوام کی حالت ا نتہائی بدترہے اور وہ روٹی ، کپڑے اور مکان کو ترستے ہیں۔ صو بے میں بد ترین کرپشن، بد انتظامی اور دہشت گردی کا راج ہے۔
ایم کیو ایم بجا طور پر پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے حکمراں، اس جماعت نے سندھی عوام کی حالت بدلنے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ یہ تنقید بے حد جائز اور قابل تائید ہے۔ تاہم یہی سوال ایم کیو ایم سے بھی پوچھا جاناچاہئے۔ جوبارہا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ رہی ہے اور بہت سی اہم وزارتوں پر برا جمان بھی۔ خود اس جماعت نے عوامی مشکلات اور مسائل کے حل کے لئے کیا اقدامات کئے ؟ ایم کیو ایم سیاسی اختلافات کے باعث متعدد بار حکومت سے علیحدہ ہوئی تاہم کبھی بھی عوامی مسائل کو جواز بناتے ہوئے اقتدار سے دستبرداری اختیار نہیں کی گئی۔ یہ ہمارے سیاستدانوں کی عمومی روش ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں رہتے ہوئے تو عوام کو بہلائے رکھتے ہیں مگر حکومت سے باہر آتے ہی مفاد عامہ کا خیال ستانے لگتا ہے۔ جیسے آج کل چوہدری پرویز الٰہی عوام کو سستی بجلی اور پانی کی فراہمی کے لئے کا لا باغ ڈیم کی تعمیر کے پر زور حامی دکھائی دیتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دست راست چوہدری صاحبان کی جماعت 2002سے 2008 تک برسر اقتدار رہی تاہم اس وقت کالا باغ ڈیم بنانے کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ یوں بھی فوجی حکومتیں سیاسی مصلحتوں سے قدرے ماورا ہوتی ہیں۔ تب یہ کام با آسانی کیا جاسکتا تھا مگر تغافل برتا گیا۔
غریب عوام کی اکثریت جمہوریت سے مایوس دکھائی دیتی ہے تو اس کا سبب ہمارے سیاست دانوں کا یہی طرز عمل ہے۔ جو ٹھوس عملی اقدامات سے گریزاں فقط بلند و بانگ نعروں اور وعدوں پراکتفا کرتے ہیں ۔ آخر عوام الناس ان بیانات اور اعلانات پر کب تک قناعت کریں ؟۔ کاش سیاست دان اور سیاسی جماعتیں عوام کے ووٹوں کا حق ادا کریں ۔ اپنی کار کردگی پر توجہ دیں۔ اپنی اپنی حکومت کا محاسبہ کریں ۔عوام کو خواب دکھائیں تو انکوتعبیربھی بخشیں۔ کھوکھلے نعروں کی سیاست اور خواب فروشی کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔
تازہ ترین