• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی نئی سیاسی مہم جوئی۔ کامیابی کے امکانات

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان آج کیا کرنے جا رہے ہیں اور وہ جو کچھ کرنے جا رہے ہیں ،کیا اس میں وہ کامیاب بھی ہوں گے یا نہیں ؟ اس وقت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ طے کر لیا جائے کہ کامیابی کیا ہے۔عمران خان کا بنیادی ہدف یہ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو ختم کرکے وقت سے پہلے انتخابات کرا دیئے جائیں ۔ اگر وہ اپنا یہ ہدف حاصل کر لیتے ہیں تو یہ ان کی کامیابی ہے اور اگر حاصل نہیں کر سکتے ہیں تو یہ ان کی ناکامی ہے ۔ اس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں ؟
اب تک عمران خان اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ان کی حالیہ ناکامیوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔ ان کا لانگ مارچ اور دھرنا ناکام ہوا حالانکہ پاکستان عوامی تحریک نے بھی ان کے ساتھ لاہور سے لانگ مارچ شروع کیا تھا اور اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا ۔ لانگ مارچ اور دھرنے میں شرکاء کی زیادہ تر تعداد کا تعلق پاکستان عوامی تحریک سے تھا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ دو چار دن کے بعد دھرنے سے چلے گئے تھے اور وہ روزانہ شام کو موسیقی کی محفل میں شامل ہوتے تھے۔ عوامی تحریک کے لوگ مستقل وہاں بیٹھے رہے ، جن کی وجہ سے دھرنا باقی رہا ۔ ان کے چلے جانے سے دھرنے کا تصور ختم ہو گیا ۔ عمران خان نے حکومت کے جانے کی جو بھی ڈیڈ لائن دی ، وہ پوری نہیں ہوئی ۔ یہ بھی ایک ناکامی ہے۔ عمران خان نے ایک دفعہ اعلان کیا تھا کہ ’’ امپائر ‘‘ فلاں دن انگلی اٹھا دے گا لیکن ایسا بھی نہیں ہوا ۔ یہ ایک اور ناکامی ہے ۔ عمران خان نے پاکستان کے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ سول نافرمانی کریں اور حکومت کو کوئی بھی ٹیکس اور یوٹیلٹی اداروں کے بل ادا نہ کریں ۔ پاکستان کے عوام نے اس اپیل کو بھی مسترد کر دیا ۔ یہ بھی ایک بہت بڑی ناکامی ہے۔عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ ان کی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ استعفیٰ دے دیں گے مگر اس اعلان پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا ۔ اگر ان کے ارکان سینیٹ ، قومی و صوبائی اسمبلی کو استعفیٰ دینا ہوتا تو وہ اسی طرح استعفیٰ دے دیتے ، جس طرح پاکستان تحریک انصاف کے سابق صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کھڑے ہو کر اپنا استعفیٰ دے دیا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کی اپنی پارٹی کے لوگ ان کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ یہ پارٹی کے اندر سے ایک طرح کی بغاوت ہے ۔ اگر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر استعفیٰ دینے والے ارکان کو بلا رہے ہیں تاکہ ان کے استعفوں کی تصدیق کی جا سکے تو انہیں چلے جانا چاہئے تھا ۔ اس میں حرج ہی کیا ہے ۔ اب تک استعفوں کے اعلان پر بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے ۔ یہ بھی ایک سیاسی ناکامی ہے۔
پورے پاکستان میں صرف پاکستان عوامی تحریک واحد سیاسی جماعت تھی،جس نے عمران خان کے ساتھ مل کر جدوجہد کی اور ان سے زیادہ قربانیاں دیں۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کے ساتھ بھی عمران خان کی ’’ سیاسی شراکت داری ‘‘ نہیں چل سکی ۔اسے بھی ایک سیاسی ناکامی سے تعبیر کیا جانا چاہئے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی قوتوں نے نہ صرف عمران خان کے موقف کی حمایت نہیں کی بلکہ وہ عمران خان کے خلاف متحد ہو گئیں ۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی نے بھی عمران خان کا ساتھ نہیں دیا حالانکہ وہ خیبر پختونخوا کی حکومت میں تحریک انصاف کی اتحادی ہے ۔ پورے ملک کی نمائندہ سیاسی قوتوں کو اپنا مخالف بنا لینا بھی کوئی کامیابی نہیں ہے ۔ لانگ مارچ اور دھرنوں کے بعد پاکستان تحریک انصاف اندرونی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی۔عمران خان کے پرانے ساتھی اور پاکستان تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے بر وقت ’’ اقدام ‘‘ کرکے عمران خان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا ۔اگرچہ ضمنی انتخابات میں مخدوم جاوید ہاشمی ملتان سے ہار گئے لیکن انہوں نے عمران خان کی کامیابیوں کے امکانات ہمیشہ کے لئے معدوم کر دیئے ۔ یہ بھی عمران خان کی ایک بہت بڑی ناکامی ہے ۔ صرف یہی نہیں ، حکومت ہٹانے کی مہم کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت کئی مرتبہ گرتے گرتے بچی ۔ اس صوبے میں بھی پارٹی کے اندر کئی بغاوتیں ہوئیں اور خیبر پختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے ہی عمران خان کے خلاف نعرے بازی کی ۔ یہ بات بھی کسی سیاسی رہنما کے لئے کامیابی تصور نہیں کی جائے گی کہ اس کے خلاف اس کی پارٹی کے لوگ بار بار بغاوت کریں ۔ عمران خان اور ان کے ’’ نظریاتی ‘‘ استادوں نے حکومت کو ہٹانے کے لئے بڑے پیمانے پر اپنی خفیہ سرگرمیاں بھی جاری رکھیں اور طاقت کے اہم مراکز میں وہ لابنگ بھی کرتے رہے ۔ امریکہ، مشرقی وسطیٰ اورپاکستان کے اندر طاقت کے ان مراکز تک رسائی حاصل کی گئی ، جو پاکستان پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن اس میں بھی بری طرح ناکامی ہوئی ۔ مذکورہ بالا ناکامیوں کے ساتھ عمران خان ایک پھر سیاسی مہم جوئی کرنے جا رہے ہیں ۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ پاکستان عوامی تحریک بھی نہیں ہے ۔ لوگوں میں پہلے کی ناکامیوں کی وجہ سے زیادہ جوش و خروش بھی نہیں ہے اور دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ عمران خان کے حامی جلسہ میں تو کچھ دیر بیٹھ سکتے ہیں لیکن وہ دھرنے میں نہیں بیٹھتے ۔ ان باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی کامیابی کے امکانات کتنے ہیں ۔ عمران خان صرف اپنی ایک کامیابی کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی قوم کو جگا دیا ہے ۔
انہوںنے بڑے بڑے جلسے بھی منعقد کیے ہیں اور روزانہ ٹی وی چینلز بھی ان کی بات دو کروڑ لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ اس بات کا ابھی تک سائنسی بنیادوں پر سروے نہیں ہوا کہ عمران خان کی مقبولیت میں کس قدر اضافہ ہوا ہے اور ان کے خلاف لوگوں کے جذبات کس قدر بھڑکے ہیں ۔ انہوں نے اپنی اس کامیابی کا دوسرا پہلو نہیںدیکھا ہےکہ ان کا بحیثیت سیاست دان پاکستان کے اکثر لوگوں میں کیا امیج ہے ۔ اب جو کچھ وہ اسلام آباد میں کرنے جا رہے ہیں ، اس میں ان کی کامیابی کے کوئی امکانات نہیں ہیں بلکہ خطرہ اس بات کا ہے کہ کچھ دیگر قوتیں ان کی اس مہم جوئی سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں ۔
تازہ ترین