• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل فیس بک پرایک دوست کے شیئرکئے ہوئے اس گانے نے غمزدہ کردیا جس میں ایک افغان گلوکارپاکستان کے لوگوں کو بددعا ئیں دیتے ہوئے کہتا ہے کہ خداکرے کہ تم بھی کبھی اپنے بچوں سمیت روتے ہوئے پناہ کی تلاش میں طورخم کی سرحدپارکرو۔ یہ بددعا سیدھی دل پرجاکرلگی کہ جولوگ گذشتہ 37سال سے ہمارے ساتھ گھروں اورمحلوں میں رہے ہرغمی خوشی میں شریک رہے۔ہم نے کبھی ان کو احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ اس ملک میں اجنبی ہیں۔وہ پاکستان اور یہاں کے عوام کے جذبہ اخوت کا یہ صلہ بھی دے سکتے ہیں کہ ہمیںبددعا ئیں دیں۔ مجھے اپنے بچپن کی وہ صبح اب بھی مدہم مدہم یاد ہے ۔جب میں نیند سے بیدار ہوا توگھرمیں ہونے والی بات چیت سے پتہ چلا کہ کچھ افغان ہمارے ہمسائے کے گھرمیں آبسے ہیں ۔ کیونکہ افغانستان پر روس نے حملہ کردیا ہے اس کے بعد سے یہ افغان ہماری زندگی کا ایک حصہ بن گئے سارے محلے نے اپنے گھروں سے اپنی استطاعت کے مطابق تھوڑا تھوڑا سامان ان کے ساتھ شیئرکیا مجھے یاد ہے میری ماں نے ہمارے گھر میں موجود کھلونے اورکچن میں مصالحہ کوٹنے والی لنگری اوراپنے زیراستعمال بیلن چوکا تک ان کے حوالے کیا اور خود ہاتھ سے ہی روٹیاں بناتی اورپکاتی رہی۔ہم نے ان افغانوں کے بچوں کے ساتھ کھیلنا شروع کیا ہماری مسجدمیں اعلان ہوا کہ اب ہم سب مل کران افغانوں کا خیال مذہبی فریضہ سمجھ کرکرینگے۔ ان افغانوں میں سے مردوں نے ہمارے گھروں کے باہرآئس کریم کے ٹھیلے لگادیئے، فروٹ کی ریڑھیاں بھی ان کی ہوگئیں ۔ انہوں نے تندور بھی کھولے۔ان کے قابلی پلاو توخاصے مشہورہوئے نمکمنڈی کا پورا بازار افغانیوں کی دکانوں سے سج گیا، ڈرائی فروٹ اورقالینوں سے لیکرقیمتی پتھروں کے کاروبارپران کاقبضہ ہوگیاکچھ مقامی لوگوں نے شورمچایا کہ افغان مزدوروں کے دیہاڑی کم لینے کی وجہ سے مقامی لوگوں کے ہاتھوں سے دیہاڑی کی مزدوری بھی گئی ۔لیکن آفرین کہ افغانیوں کے خلاف تحریک کی کسی نے حمایت کی۔ وقت گزرتا گیاپھران افغانیوں کی پاکستانی گھرانوں میں شادیاں ہونے لگیں لڑکی پاکستانی تولڑکا افغانی اورلڑکی افغانی تولڑکاپاکستانی ۔پھر ان کی ایک نسل بھی یوں بننے لگی جوآدھی افغانی اورآدھی پاکستانی ہے۔ پاکستانیوں کی جانب سے اس رواداری اوربھائی چارے کو افغانوں نے ہرسطح پرسراہا اس دوران دونوں ملکوں کے لوگوں کی اس محبت کے قصے موسیقی میں بھی درآئے۔جہاد افغانستان کے دوران پشاورآنے والے افغان جہادی تنظیموں کے رہنماوں کی تقریریں سننے کے لئے افغانیوں سے زیادہ پاکستانی مجمع میں بیٹھے ہوتے اوران کی جانب سے جب مدد کی پکارہوتی توافغانیوں سے پہلے پاکستانی لبیک کہتے۔ اس دوران موسیقی میں بھی اس بھائی چارے کا رنگ ملتا رہااور پھرجب طالبان کی حکومت ختم ہوئی اورایک بارافغانیوں کی وطن واپسی کے کچھ آثارپیدا ہوئے توکابل کے مشہورشاعربابک زئے صاحب کا یہ کلام آج بھی مجھے یاد ہے کہ جس میں وہ پشاوریوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ آہستہ آہستہ افغان واپس کابل جارہے ہیں ۔اے پشاور۔توہم کو یاد کرکے ضرور روئے گا۔ لیکن آج جوافغان گائیک کا گانا سنا۔ اس کے الفاظ اورشاعری کے پیغام اوربابک زئے کے پیغام میں زمین آسمان کا فرق تھا۔بابک زئے کا کلام نرم اورمحبت بھرا تھا جبکہ آج کے گائیکی کے کلام اور لہجے میں ترشی، تلخی اورنفرت کا اظہار نمایاں تھا۔
یہ نفرت کہاں سے آئی کس نے اسے پروان چڑھا کرافغان میڈیا کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا اورکیا پاکستان کچھ ہی دنوں میں اتنا خراب ہوگیا کہ اس کے باسیوں کو بددعا دی جائے اگربات اتنی ہے کہ غیررجسٹرڈ افغانوں کے خلاف گھیرا تنگ ہوگیاہے اوردہشت گردی کے خلاف کاروائیوں میں وہ جن کے پاس کوئی سفری ثبوت یا اپنی موجودگی کا جواز نہیں کوکچھ تکلیف ہورہی ہے تویہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا خود مجھے یاد ہے کہ جنرل پرویزمشرف کے دورمیں طالبان اورپاکستان کی یہ انڈرسٹینڈنگ بنی تھی کہ پاکستان اپنے ہاں پائے جانے والے غیررجسٹرڈ افغانوں کو پکڑکرطورخم کی سرحد پران کے وطن کے حوالے کردے گا اس وقت توکوئی ایسی موسیقی نہیں سنی اورنہ ہی کسی نے اسے محسوس کیااس کے بعد بھی جو موسیقی وجود میں آئی وہ پاکستان سے نفرت پرمبنی نہیں تھی لیکن یہ اچانک کیا ہوگیا کہ حالات بھی وہی اورکارروائی بھی وہی تاہم اس کا ری ایکشن بدلا ہوا ہے۔ ایسا کیا ہوگیا کہ بات پرچم جلانے سے لیکربددعاوں تک آپہنچی ہے۔اس کے پیچھے کارفرما عوامل میں اگردیکھا جائے توبہت سےسوالوں کے جواب بڑے واضح ہیں کہ پہلے افغانوں کو (لیکن سب کو نہیں کچھ کو) بھارت اورامریکہ کاآسرا نہیں تھا اورنہ پاکستان اتناـ"برا"تھا۔افغانوں کو اگرشکوہ ہے توپاکستانیوں کو بھی شکوے ہیںجو سب کو معلوم ہیں۔
لیکن بات صرف موسیقی تک نہیں بلکہ افغانستان جواس وقت امریکہ، بھارت اورایران کے زیراثراورزیرتسلط ہے کے حکمراں بھی وقتا فوقتا ایسے گانے گاتے رہتے ہیں۔ ماضی قریب میں سابق افغان صدرحامد کرزئی کبھی توپاکستان کوجڑواں بھائی کہتے کہتے اس حد تک چلے گئے کہ بن سوچے اعلان کردیا کہ بھارت نے پاکستان پرحملہ کیا توافغانستان پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا اورپھر تھوڑی ہی دیربعد جب ضرورت پڑتی توپاکستان کو افغانستان کے تمام مسائل کا ذمے دارٹھہراکراس پربرس پڑتے، اب ایک بارپھرانہوں نے پاکستان کے خلاف بڑھک ماری ہے کہ وہ پاکستان کی طورخم سرحد پرلگنے والے گیٹ کوکبھی برداشت نہیں کرینگے اورپاکستان کے بڑے علاقے کو افغانستان کا حصہ کہتے ہیں۔حامد کرزئی بہت چھوٹی سی سطح سے قسمت کی یاوری اورامریکہ کی تابعداری اوراپنے سرپراقتدارکی ہُماکے بیٹھنے کی بدولت افغانستان کے بادشاہ بن بیٹھے۔ وہ مہاجرت کے دورمیں ہماری یادداشت میں یہاں کے اخبارات کے دفاترمیں شام کوپریس ریلیزدیتے ہوئے پائے جاتے اورپھرشام ڈھلنے سے پہلے کیمپ میں اپنے اس کچے مکان میں لوٹ جاتے جہاں پران کے بچے مدہم روشنی میں ان کے لئے رات کے کھانے کا انتظارکرتے۔ ہوا یوں کہ وہ امریکہ میں نائن الیون کے حملوں کے بعد ننگرہارکے مشہورکمانڈرعبدالحق کے ہمراہ سی آئی اے کی مدد سے افغانستان میں داخل ہوئے، حامد کرزئی کی قسمت اچھی تھی کہ کمانڈرعبدالحق اس وقت افغانستان کے حکمراں طالبان کے ہتھے چڑھ گئے اورتین دنوں میں ہی ان طالبان نے انہیں قتل کرڈالا پھرامریکیوں کو فوری طورپرایک کارندے کی ضرورت پڑی جنہوں نے حامد کرزئی پراکتفا کیااوریوں حامد کرزئی قصرکابل منتقل ہوگئے اب وہ معتبرہوکرامریکہ اوربھارت کی بولی بولنے لگے، انہیں وہی پاکستان برا لگنے لگا۔
وہ کہنے لگے کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کو پناہ دینے کے بدلے میں دنیا سے پیسے لئے لیکن کیا کسی کو معلوم ہے کہ پاکستان کو ان افغان مہاجرین کے بدلے میں کیا ملتا ہے صرف پانچ سوروپے فی افغان سالانہ وہ بھی صرف صحت اورتعلیم کی سہو لتوں کے استعمال کے بدلے میں۔
ہم افغانوں کو احسان فراموش نہیں کہتے کیونکہ عام افغان ایسا نہیںاورنہ وہ پاکستان سے نفرت کرتا ہے لیکن جوبھی ان کی جانب سے پاکستان کو گالیاں دے رہا ہے وہ کیا ان افغانوں سے میری ماں کے دیے ہوئے کھلونے ،بیلن چوکا اورہمارا دیا ہوا پیار اوراحترام واپس دلا سکتا ہے جو اب بھی مجھ جیسے ہرپختون کی یادداشت کا حصہ ہیں۔

.
تازہ ترین