• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کا حالیہ دورہ امریکہ انتہائی غیر معمولی اثرات کا حامل ہے ، جن کا گہرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ایک ہفتے کے اس دورے میں پاکستان کیلئے کیا کامیابیاں حاصل ہوئیں ان پر بات کرنے سے پہلے بدلتی ہوئی عالمی صورت حال کے تناظر میں پاک امریکہ تعلقات کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اس وقت پاک امریکہ تعلقات نہ صرف ایک اہم موڑ پر پہنچ چکے ہیں بلکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی الجھا ہوا ہے ۔ ان حالات میں ایک جرنیل کی بہترین ’’ سفارت کاری ‘‘ پر بات کرنا انتہائی دلچسپی کا حامل ہو گا۔امریکہ سے پاکستان کے تعلقات بہت طویل عرصے سے ہیں اور ان تعلقات میں نشیب و فراز بھی آتے رہے ہیں ۔جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ سے کچھ آگے پیچھے ہمارے خطے میں دو تین بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ سارک کانفرنس اس دورے کے بعد منعقد ہوئی ۔ اس کانفرنس میں علاقائی تعاون کو فروغ دینے کیلئے کئی اہم فیصلے کئے گئے لیکن ابھی تک سارک ایک اہم علاقائی تنظیم کے طور نہیں ابھر سکی۔ دورے سے فوری بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی نے بھی پاکستان کا دورہ کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کیساتھ مل کر دہشت گردی کیخلاف لڑنا چاہتے ہیں۔صدر اشرف غنی نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ سلامتی اور دفاع کے امور پر تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔افغان صدر کا یہ دورہ بروقت بھی تھا‘ اہم بھی تھا اور اس دورہ کا علاقائی سیاست پر بھرپور اثر بھی پڑے گا۔ قبل ازیں امریکہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان سے اتحادی افواج کا انخلا کم از کم ایک سال کیلئے موخر کر دیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی روس کے وزیر دفاع جنرل سرگئی شوئیگو نے پاکستان کا انتہائی اہم دورہ کیا اورپاکستانی حکام کےساتھ افغانستان ، علاقائی سلامتی ، اسلحہ کے فروخت اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا۔وہ 1969 ء کے بعد دورہ کرنے والے پہلے روسی وزیر دفاع ہیں۔طویل عرصے کے بعد عالمی سیاست میں رشین فیڈریشن ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے اور کئی موقعوں پر اس نے امریکی حکومت کو بھی جھٹکا بھی دیا ہے۔ اگر صورتحال اسی طر ح بڑھتی رہی ان کا تو چین کے ساتھ ایک مفاہمتی عمل جاری رہے اس طرح دنیا شائدیک قطبی نہ رہے۔ ان واقعات کے علاوہ علاقائی اور عالمی سیاست میں بہت سی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے دورے کو حالیہ واقعات اور رونما ہوتی ہوئی تبدیلیوں کے تناظر میں بھی سمجھنا چاہئے ۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ 6 سے 7 سال سے پاکستان آرمی کا امریکہ اور مغرب میں تاثر( Perception ) اچھا نہیں تھا۔ جنرل مشرف کے دور میں یہ تاثر اچھا تھا وہ ایک Visionaryاور کامیاب جنرل تھے اور ان میں نہ صرف فیصلے کرنے کی صلاحیت تھی بلکہ اعتماد بھی تھا اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کی صلاحیت بھی لیکن اس کو بعض لوگ یہ رنگ دیتے ہیں کہ امریکہ فوجی حکومتوں کے ساتھ ’’ ڈیل ‘‘ میں زیادہ آسانی محسوس کرتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اور خاص طور پر جب ڈیمو کریٹس حکومت میں ہوں تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امریکہ فوجی حکومتوں کے ساتھ زیادہ آسانی محسوس کرتا ہے ۔ پاکستانی فوج کا تاثر خراب کرنے کے کچھ دیگر عوامل ہیں ۔ جنرل راحیل شریف کے دورے کے دوران وزیر خارجہ سرتاج عزیز کا بی بی سی کو انٹرویو میں یہ بیان سامنے آیا کہ پاکستان ان انتہا پسندوں کیخلاف کارروائی کیوں کرے، جو پاکستان کی سلامتی کیخلاف نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وزیردفاع خواجہ آصف کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ امریکہ نے کبھی پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ حکومت کے ان دو اہم عہدیداروں کے بیانات سے جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ میں مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور اسکے اثرات کو زائل کرنے کی بھی ۔ اس سے یہ تاثر بھی ملا کہ پاکستان کی فوج اور سول حکومت ’’ ایک پیج ‘‘ پر نہیں ہیں ۔ یہ تو اچھا ہوا کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے بروقت سرتاج عزیز کے بیان کی وضاحت کر دی اور جنرل راحیل شریف نے بھی صورت حال کو سنبھالا۔امریکی میڈیا اور دیگر اداروں میں بھی پاکستان کے حوالے سے مسلسل شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے تھے ۔ جنرل راحیل شریف کے ہمراہ اعلیٰ سطح کا وفد امریکہ کے دورے پر گیا تھا۔ جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز سمیت کئی اہم لوگ شامل تھے ۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنے دورے میں امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی ، امریکہ کی مشیر قومی سلامتی سوسان رائس، افغانستان اور پاکستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے ڈان فیلڈمین ، سی آئی اے کے اہم عہدیداروں ، سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے ارکان ، سینیٹروں اور امریکی افواج اور انٹیلی جنس اداروں کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں ۔ جنرل راحیل شریف نے واشنگٹن میں سفارت خانے میں ایک اہم خطاب بھی کیا ۔ ان کی ان سرگرمیوں سے نہ صرف پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف منفی تاثر کو دور کرنے میں مدد ملی بلکہ انہوں نے پاکستان کا مقدمہ بہتر انداز میں پیش کیا ۔ دورے میں طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروہوں اور سرحدوں کے پار کارروائیاں کرنیوالے گروہوں کے خلاف کارروائیوں اور انٹیلی جنس شیئرنگ کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز رہی ۔ انہوں نے ہر جگہ دو ٹوک الفاظ میں یہ بات واضح کی کہ پاکستان حقانی گروپ سمیت تمام انتہا پسند گروہوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی ، جب تک ایک بھی دہشت گرد پاکستان میں موجودہے۔جنرل راحیل شریف نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان اپنی بقاء کے لئے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور وہ اپنی بقاء پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا لیکن دنیا کو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں اور اس نے بہت نقصانات کا سامنا کیا ہے ۔ پاکستان یہ جنگ اسلئے لڑ رہا ہے کہ وہ دنیا کو پر امن بنانا چاہتا ہے۔ اگر پاکستان یہ جنگ جیت جاتا ہےتو دنیا میں امن قائم ہو گا ورنہ صورت حال اس کے برعکس ہو گی ۔ انہوں نے بہت واضح انداز میں امریکیوں کو یہ باور بھی کرایا کہ اس جنگ میں پاکستان کو تعاون درکار ہے لیکن ان کے اس دورے کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ امریکہ سے کسی قسم کی فوجی یا اقتصادی امداد حاصل کی جائے ۔ امریکہ ایک بہت بڑی طاقت ہے لیکن جنرل راحیل شریف نے انتہائی بہادری اور حوصلے کیساتھ پاکستان کا موقف پیش کیا اور پاک امریکہ دفاعی تعلقات کو ’’ ہاب ناب ‘‘ سے نکال کر معروضیت سے منسلک کیا ۔ انہوں نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا کہ پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر بھارت کی طرف سے مسلسل سرحدی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں حالانکہ یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر دہشت گردوں کیخلاف جنگ کے دوران مشرقی سرحدوں پر کوئی خطرہ نہیں ہو گا لیکن بھارت میں نئی آنے والی دائیں بازو کی سیاسی جماعت بی جے پی کی حکومت نے جارحانہ حرکتیں شروع کر رکھی ہیں دہشت گردوں کے خلاف واضح موقف ، خطے اور عالمی امن کیلئے جنرل راحیل شریف کے وژن کی وجہ سے انہیں امریکہ نے لیجین آف میرٹ کا اعلیٰ فوجی ایوارڈ سے نوازا ۔ جنرل راحیل شریف کے دورے میں پاکستان نے جو کچھ حاصل کیا ، اس کی بہت پہلے سے ضرورت تھی بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ اور پہلی دونوں سول حکومتوں نے اس باوقار طریقے سے امریکیوں کو ڈیل کیا نہ ہی پاکستان کا موقف سامنے رکھا۔ وہ سیاسی طور پر اپنے کوئی مقاصد نہیں رکھتے ہیں اور ایک پیشہ ور سپاہی ہیں ، جن کے خاندان میں نشان حیدر پانے والے کئی شہداء بھی شامل ہیں ۔ افغانستان اور پاکستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے ڈان فیلڈمین نے ایک پاکستانی اخبار کو اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف انتہائی دو ٹوک الفاظ میں بات کرنیوالے پاکستانی مفادات کے حقیقی ترجمان ہیں ۔ بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی صورت حال اور پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کی اپروچ میں کسی حد تک تفاوت کے تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل راحیل شریف کا دورہ انتہائی کامیاب رہا ہے ۔ یہ ایک فوجی جرنیل کی بہترین سفارت کاری ہے۔ جنرل راحیل شریف کا بطور چیف آف آرمی اسٹاف ایک سال مکمل ہو گیا ہے ۔وہ اس ایک سال میں پاکستان میں کامیاب ترین فوجی جنرل کے طور پر ابھرے ہیں۔اس مختصر عرصے میں جہاں انھوں نے فوج کا Perceptionتبدیل کیا ہے ۔ وہاں انہوں نے امریکہ اور نیٹو سے تعلقات بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔
تازہ ترین