• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
18ویں سارک کانفرنس نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سمیت تمام رکن ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔اس کانفرنس میں خطے کے دواہم ترین ممالک پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی کاماحول رہا اورچند جملوں اورمسکراہٹوں کے تبادلے اورگلے شکوے بھی ہوئے اوراس سے آگے بات نہ بڑھ سکی۔پچھلی سارک کانفرنسوںکی طرح یہ کانفرنس بھی خظے کے عوام کی امن وخوشحالی کے حوالے سے وابستہ توقعات پرپورا نہ اتر سکی صرف توانائی کی ضروریات پوری کرے سے متعلق ایک معاہدے پردستخط ہوئے اس پر بھی کتنا عملدرآمد ہوگا یہ بعدکی بات ہے۔معاشی معاہدوںپربھی پاکستان سمیت رکن ممالک کے تحفظات کے باعث دستخط نہ ہوسکے۔ اس تنظیم کوقائم ہوئے تقریباََ 30سال ہوگئے ہیں اسکے رکن ممالک میں بنگلہ دیش،سری لنکا،نیپال، بھوٹان،مالدیپ ،بھارت اورپاکستان شامل ہیں۔اس تنظیم کے رکن ممالک آج تک اس شش وپنج میں مبتلا ہیں کہ سارک کامقصد خطے کے ملکوںمیں اقتصادی اورسیاسی تعاون بڑھانا تھا لیکن یہ تنظیم اپنےحقیقی مقاصد حاصل نہیںکرسکی۔بھارت اس تنظیم میں ایسا ملک ہے جس کے تمام ملکوں سے تنازعات ہیں۔ مگر دیگر ملکوں کی حکومتیں اپنے کمزور حدود اربعہ کی وجہ سے دفاعی قوت اور عدم استحکام کی وجہ سے خاموش کردار ادا کرتی ہی۔ پاکستانی قوم گزشتہ پچاس سال سے بھارت کے مقابلے میں کھڑی ہوئی ہے۔ نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی، سری لنکا میں بھارتی فوج کی مداخلت بھوٹان سے تنازعات، مالدیپ کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش اور بنگلہ دیش سے محاذ آرائی اقتصادی قبضہ پانی کے تنازعات اپنی مشکلات میں تمام ملک پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ بات وہی کھڑی ہے اور بھارتی رویے کی وجہ سے شائد آخری لبوں پر ہے۔ بھارت بھی یہی چاہتا ہے مگر الزام اپنے اوپر نہیں لینا چاہتا۔ اسی لئے اس نے پاک بھارت تعلقات میں سرد مہری اختیار کی ہوئی ہے۔ ہمارے مصالحانہ اور امن پسندانہ رویے سے بھی بھارت نے خارجہ سطح پر مذاکرات سے انکار کر دیا ہے۔ قیام پاکستان ایک باقاعدہ بین الاقوامی ایجنڈا تھا جس میں انتہائی وضاحت سے اس علاقے کی تقسیم سے متعلقہ معاملات کو طے کیا گیا تھا۔ مگر بھارتی حکومت نے اس کی پروانہیں کی اور اس نے حیدر آباد وکن، جونا گڑھ، کشمیر،گوا اور جزیرے دمن اور دیو پر بھی فوجی قوت کے ذریعے قبضہ کر لیا وہ تو سری لنکا کو بھی بھارتی حصہ کہتا ہے مگر سری لنکا کی سیاسی قیادت اس کو چلنے نہیں دیتی مگر ہماری سفارتی مشینری وہ تاریخ سے دنیا کو یہ سمجھانے میں شائد ناکام رہی ہے کہ بھارت کیا چاہتا ہے۔ اس کے عزائم کیا ہیں۔حیدر آباد دکن بہت بڑی ریاست تھی اور اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے مگر گھریلو جھگڑوں اور سیاسی قیادت دنیا کو یہ سمجھانے میں ناکام رہی ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں کسی وقت بھی امن کو تہہ و بالا کرسکتا ہے۔ حیدر آباد کن جو بہت سے ملکوں سے بڑی ریاست تھی بھارت نے ٹھیک اسی دن جس دن قائد اعظم کا انتقال ہوا اسے فوجی قوت کے بل بوتے پر ہڑپ کر لیا ہم اپنے گھریلو مسائل میں الجھے رہے اب ہمیں سارک کانفرنس میں مضبوط رویہ اختیار کرنا چاہئے مگر ہم اپنے معاملات میں ہی مصروف کار رہتے ہیں اور دن رات تحریکیں چلاتے رہتے ہیں۔ جب سارک تنظیم کا قیام عمل میں آرہا تھا تو جنرل ضیاء الحق نے بہت سے قومی رہنماؤں اور دانشوروں کو بلا کر مشورہ لیا مجھے خان عبدالقیوم خان نےبتایا کہ تقریباً سب نے اس کی مخالفت کی۔ کیونکہ یہ تنظیم بھارت کے معاملات کو سامنے رکھ کر بنائی جارہی تھی مگر ’’رموز مملکت‘‘ صرف حکمران ہی جانتے ہیں اور یہ بن گئی۔ اس کے چار ٹرمیں یہ شامل ہے کہ اس تنظیم میں باہمی تنازعات کو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔ سارک کے قیام کا نتیجہ بھارتی توقعات کے خلاف نکلا اور چھوٹے مگر اہم ملک بھارت کے اثر میں نہ آئے۔ گزرے ہوئے حالات اس کے گواہ ہیں اس کی وجہ بھی پاکستان تھا۔ جس کی فوجی قوت اور ایٹمی قوت اس کی راہ میں حائل تھی۔ اس لئے آج تک یہ علاقائی تنظیم ایک قدم آگے نہ بڑھ سکی۔ اور اس کا غصہ بذریعہ مذاکرات بھارت ہم پر اتارتا رہتا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان 1962ءمیں جنگ ہوئی ہے۔ بہت سے مغربی ملکوں نے فوجی اسلحہ بھارت کو امداد کے طور پر دیا مگر 1965ء کی جنگ میں بھارت نے یہ اسلحہ ہمارے خلاف استعمال کیا۔ مگر ہمارے عوام نے فوجی قوت کے ساتھ مل کر اسے ناکام بنادیا۔ ایک بات طے شدہ یہ ہے کہ جب تک ہم باہمی اتحاد اور اپنے سیاسی تنازعات کا کوئی معقول حل تلاش نہیں کریں گے۔ ہم مشکلات سے دوچار رہیں گے اور ہمیں اپنے معاملات کو بہتر بنانا ہوگا۔ ہمارے گھریلو مسائل نے ہمیں کمزور ہی کیا ہےعالمی میڈیا بھی کہہ رہا ہے کہ سارک ایک بے عمل اور بے اثر تنظیم بن کررہ گئی ہے اس کے علاقائی اراکین میں باہمی تنازعات ہیں ہمیں سارک کانفرنس سمیت ہرفورم پراپنے موقف کوجاندار بنانا ہوگا۔جب تک سارک کانفرنس کا نئے سرے سے چارٹر نہیں بنے گا وہ غیر متحرک رہے گی۔
تازہ ترین