• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیر ایک ایسا فٹ بال ہے جس سے پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اپنی اندرونی سیاست کے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے وقتاً فوقتاً میچ فکس کرتی رہی ہیں۔ چونکہ مسئلہ حل کرنے کا ادارہ ہی نہیں ہوتا اس لئے اس طویل میچ میں فٹ بال ادھر سے ادھر لڑھکتا رہتا ہے اور کوئی نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ دونوں ممالک اسے اپنے وجود کا جزو لاینفک قرار دیتے ہوئے اپنے رویوں میں لچک پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ اب سیاسی معیشت میں بنیادی تبدیلیوں کی وجہ سے بھارت میں ہندو قوم پرستی اور پاکستان میں اسلامی نظریہ مضبوط تر ہوئے ہیں اس لئے اب اس مسئلے کا حل اور بھی مشکل بنتا جا رہا ہے۔ اس سارے قضیئے میں بیچارے کشمیری بری طرح سے پس رہے ہیں۔
حالیہ سارک کانفرنس میں بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم ایک دوسرے سے اسکول کے بچوں کی طرح روٹھے رہے اور جب کانفرنس میں اختتام کے قریب دونوں نے مصافحہ کیا تو باقی ممالک کے رہنماؤں نے تالیاں بجا کر اس کا خیر مقدم کیا۔ ان میں سب سے زیادہ جوش و خروش افغانستان کے صدر اشرف غنی نے دکھایا کیونکہ وہ ان دونوں ملکوں کے درمیان پراکسی جنگ کا شکار بن رہے ہیں۔ باقی ماندہ سارک ملکوں کے رہنماء بھی جانتے ہیں کہ اگر پاک ہند تعلقات میں بہتری نہیں آتی تو سارک ممالک اپنے باہمی تعاون کے مقاصد حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ان دو ممالک کی باہمی چپقلش سے پورا خطہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے ۔
پاک بھارت تعلقات میں حالیہ سردمہری تب شروع ہوئی جب بھارت نے خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر ہونے والے مذاکرات کے انعقاد سے انحراف کیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے مذاکرات سے قبل کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کی۔ مودی حکومت نے پاکستان کو ایسا نہ کرنے سے روکنے کے اشارے دئیے تھے کیونکہ ان کے نقطہ نظر سے یہ بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ پاکستان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسے کشمیریوں سے مشاورت کا حق ہے اور وہ ماضی میں ایسا کرتا رہا ہے جس پر بھارتی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کبھی نریندر مودی جیسی ہندوقوم پرست حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔
جب وزیر اعظم نواز شریف نریندر مودی کی رسم حلف برداری میں دہلی گئے تھے تو دونوں رہنماؤں میں کافی گرمجوشی دیکھی گئی تھی اور اس سے اندازے لگائے جا رہے تھے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری ناگزیر ہے۔ اپنے اس دورے میں وزیر اعظم نواز شریف نے بھی کشمیری رہنماؤں سے ملاقاتیں کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اس بارے میںخوش نہیں تھی۔ چنانچہ جب عمران خان اور طاہر القادری کے لانگ مارچوں اور دھرنوں نے حکومت کو متزلزل کر دیا تو خارجہ پالیسی دوبارہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں آگئی۔ اس پس منظر میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کی جس کی وجہ سے مودی حکومت نے خارجہ سیکرٹریوں کی سطح کے مذاکرات منقطع کرنے کا اعلان کردیا۔
اگر پاکستان میں نواز حکومت اپنی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے کشمیر کے مسئلے کو دوبارہ سے اٹھا رہی تھی تو دوسری طرف مودی حکومت بھی مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کی نئی حکمت عملی ترتیب دے رہی تھی۔ مودی حکومت کشمیر میں پاکستان مخالف ووٹ کو یکجا کرکے ریاست کی اسمبلی میں اپنی اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس وقت کشمیر کی ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370 کے مطابق خصوصی حیثیت ہے جسے ختم کرنا بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور کا حصہ ہے۔ کشمیر کی موجودہ حیثیت کے ہوتے ہوئے کوئی غیر کشمیری بھارتی مقبوضہ ریاست میں جائیداد نہیں خرید سکتا۔ لیکن اگر بھارتی آئین کی دفعہ 370 ختم کر دی جائے تو پورے ہندوستان سے آکر لوگ کشمیر کی پر فضا وادیوں میں جائیداد یں خریدنا شروع کر دیں گے جس سے کشمیری اپنے ہی علاقے میں اقلیت بن سکتے ہیں۔
بھارت پوری طرح سے ہندو قوم پرستی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ اس مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہند توا کا نعرہ لگا کر جیتی ہے۔ جنتا پارٹی کی موجودہ حکومت اٹل بہاری واجپائی کی اعتدال پسندی کے الٹ انتہا پسندانہ ہندو قوم پرستی کی عکاسی کرتی ہے۔ اس ہندو قوم پرستی کی پشت پر وہ بنیادی معاشی تبدیلیاں ہیں جن سے پورے بھارتی سماج کا ڈھانچہ بدل چکا ہے۔بھارت میں یہ تبدیلیاں ویسی ہی ہیں جیسا کہ انیسویں صدی کے یورپ میں آئی تھیں۔ وہاں بھی جب زرعی معاشرہ صنعتی روپ لے رہا تھا اور دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی تیزی سے ہو رہی تھی تو پورے یورپ میں قوم پرست طاقتوں نے سراٹھانا شروع کر دیا تھا۔ اسی انتہا پسند قوم پرستی کے زیر اثر دو عظیم جنگیں لڑی گئیں جن میں کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بنے۔ اسی طرح اب ہندوستان میں آئی ہوئی قوم پسندی کی لہر پہلے سے بہت مختلف ہے۔ یہ نہ تو نہرو کی کانگریس پارٹی اور نہ ہی اٹل بہاری واجپائی کی بھارتیہ جنتا پارٹی والی قوم پرستی ہے۔ اس لئے نریندر مودی کی سربراہی میں بننے والی بھارتی قوم پرستی کو بالکل نئے انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں بھی بھارت کی طرح مذہبی قوم پرستی میں کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے اور اس کا سبب بھی بنیادی معاشی ڈھانچے کی تبدیلی ہے۔ اگرچہ پاکستان کا موقف اخلاقی اور تاریخی بنیادوں پر درست ہے لیکن دنیا کی سیاست میں اخلاقیات کی بنیادوں پر فیصلے نہیں ہوتے ۔ عالمی سیاست میں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہوتی ہے۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ طاقت کے توازن میں بھارت اور پاکستان کس مقام پر کھڑے ہیں۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں لہٰذا عسکری پہلو سے دونوں ملکوں کے درمیان کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسی صورت میں معاشی طاقت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو بھارت تیزی سے دنیا میں معاشی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے جبکہ پاکستان کی معیشت دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اگر پاکستان میں سیاسی بحران بڑھا تو ملک دیوالیہ پن کے قریب پہنچ جائے گا۔ ایسے حالات میں پاکستان علاقے کا غیر موثر ملک ہو گا جس کی عالمی حلقوں میں کوئی پذیرائی نہیں ہوگی۔کیا ایسی حالت میں پاکستان کشمیریوں کی کوئی مدد کر سکتا ہے؟ ظاہر بات ہے کہ اس کاجواب نفی میں ہوگا۔ ان حالات میں پاکستان کو کیا کرنا چاہئے؟
ایک سینئر اور تجربہ کار سفارت کار سے پوچھا گیا کہ ان حالات میں چینی پاکستان کو کیا مشورہ دیتے ہیں؟ اس سفارت کار کا کہنا تھا کہ چینی پاکستان کو صبر سے کام لینے کی تلقین کرتے ہیں۔ چینیوں کے خیال میں پاکستان کو مسئلہ کشمیر اٹھاتے رہنا چاہئے لیکن ہندوستان کے ساتھ دوسرے شعبوں میں لین دین جاری رکھنا چاہئے۔ چینیوں کے خیال میں کشمیر کا مسئلہ بہت طویل عرصہ تک حل نہیں ہو سکتا اس لئے پاکستان کو اسے بنیادی نہیں بنانا چاہئے۔ چین کے خود بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں لیکن چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ غالباً پاکستان کو بھی چین کی تقلید کرنا چاہئے ۔ اگرچہ یہ راستہ آسان نہیں ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان کو اپنے سیاسی اور معاشی نظام کو مستحکم بناتے ہوئے بھارت سے تعلقات قائم کرنے کی کوششیں کرنا چاہئیں۔
تازہ ترین