• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کی مسلم تنظیموں نے امریکی صدر اوباما سے اپیل کی ہے کہ وہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے زکوٰۃ کی شکل میں دوسروں کی امداد اور خدمت خلق کے حق کو بحال کریں اور اس تعلق سے سابق امریکی صدر جارج بش نے جو مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے، اس کا ازالہ کریں۔مسلمان اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ زکوٰۃ کی بنیاد پر افراد یا جماعت میں سے کسی کی مدد کریں گے تو انہیں دہشت گردی کیلئے سرمایہ فراہم کرنے کے جرم میں پکڑلیا جائے گا یا پریشان کیا جائے گا۔ امریکہ کی دو اسلامی تنظیموں ’’اپنیک‘‘ اور ’’احنا‘‘ نے ایک خط لکھ کرصدر اوباما کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ امریکی اسلامی تنظیموں کی کونسل نے جو نفع حاصل کرنے کی بنیاد پر کام نہیں کرتی تھیں کہ اتہام کی بنیاد پر بند کردیا گیا تھا کہ انتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو مالی مدد فراہم کرتی ہیں۔ اسلامی تنظیموں نے اپنے طور پر بھرپور کوشش کی ہے وہ امریکی وزیر خزانہ کو اپنے بے ضرر عمل کی یقین دہانی کراسکیں۔لگ بھگ سات تنظیموں کو اس الزام پر بند کردیا گیاکہ وہ زکوٰۃ کی آڑ میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کو مالیمدد اور ان کو فروغ دیتی ہیں۔
امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں نے اس امریکی قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے جس کے ذریعے کسی غیرملکی فلاحی ادارے کی مدد یا مالی اعانت کرنے پر دہشت گردی کے قانون کے تحت جیل بھیجاجاسکتا ہے۔مسلمانوں کا کہنا ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنا اسلام میں فرض ہے اور ان کی اس عبادت کے حق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ شہری حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کو مدد فراہم کرنے کا امریکی قانون اتنا غیرواضح اور پیچیدہ ہے کہ اس کی وجہ سے افراد اور تنظیمیں اپنی مالی امداد کے استعمال کا ریکارڈ رکھنے کا ناممکن کام سرانجام نہیں دے سکتیں اور ان تنظیموں کے بقول اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے امریکی مسلمان دیگر مسلمان ملکوں میں خیرات کے طور پر بھی رقم بھیجنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کہ کہیں یہ رقوم دہشت گردی کے ساتھ منسلک قرار نہ دے دی جائیں اور ایسا صرف روپے پیسے کے معاملے میں نہیں ہے بلکہ کسی بھی طرح کی مدد اس قانون کی زد میں آسکتی ہے۔ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک امریکی تنظیم ’’کراماہ‘‘ سے وابستہ وکیل ابوسی کا کہنا ہے کہ کراماہ افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہوسکا کہ اس اسکول کی مدد کرنا قانونی طور پر صحیح ہے یا نہیں؟ اس قانونی پیچیدگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اس منصوبے پر سرے سے عمل ہی نہ کرسکے اور اسکول کیلئے اشیاء افغانستان نہ پہنچ سکیں۔ امریکہ کے مالیاتی قوانین بلکہ خود امریکی آئین کے مطابق حکومت امریکہ کو یا امریکہ کے کسی بھی ادارےکو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ امریکی شہریوں سے ان کے مذہبی تشخص کی بنیاد پر غیرمساوی سلوک کرے اور مذہب کی بنیاد پر ان پر پابندیاں عائد کریں یا ان کی آمدنی کے ذرائع و وسائل معلوم کریں (یہ ایک الگ بحث ہے کہ زکوٰۃ کا نظام مغرب کی نظر میں ایک متنازعہ مسئلہ ہے)پھر کیا سبب ہے کہ امریکہ کے لگ بھگ 8لاکھ مسلمانوں کے ساتھ حکومت کے مالیاتی ادارے،سیکورٹی ادارے اور دوسرے سرکاری و غیرسرکاری ادارے مذہبی بنیاد پر غیرمساوی سلوک کررہے ہیں؟ اس کا واضح جواب میری نظر میں یہ ہے کہ 11/9کے بعد ہر مسلمان وہاں مشکوک ہوگیا ہے یہی سبب ہے کہ امریکہ میں آج محمد،احمد، علی خان اور اس جیسے دوسرے اسلامی ناموں والے افراد سے غیرمعمولی احتیاط برتی جاتی ہے اور ہر موقع پر ان کو اپنی شناخت کی تصدیق کرانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ بی بی سی نے جو رپورٹ تیار کی ہے اس کے مطابق امریکی مسلمانوں کی قومی سطح پر نمائندگی کرنے والی تنظیم ’’کونسل آف امریکن مسلم ریلیشنز‘‘ نے رقم کی ترسیل کا کاروبار کرنے والی سب سے بڑی کمپنیپر الزام لگایا ہے کہ وہ بلاوجہ مسلمان گاہکوں کو ہراساں اور ان کی رقوم ضبط کررہی ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ اسے کچھ عرصہ سے مسلمان شہریوں کی طرف سے ان کی رقوم کو ناجائز ذرائع آمدنی کا کہہ کر ضبط کئے جانے کی شکایت موصول ہورہی ہیں اور یہ بھی کہ ویسٹرن یونین نے محمد، احمد، علی اور خان جیسے ناموں کے حامل افراد سے ان کے مذہب، رہائش، کاروبار، ذریعہ آمدن، قومی شناخت کے بارے میں پوچھ تاچھ کی پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ تنظیم نے اسے ’’مذہبی پروفائلنگ‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ویسٹرن یونین کا اربوں ڈالر کا کاروبار دنیا کے سو سے زائد ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ رقوم ضبط کئے جانے کے واقعات کی نشاندہی کرتے ہوئے تنظیم کی ایک عہدیدار حوان حسن نے بتایا کہ چند روز قبل ایک سیاہ فام امریکی محمدعلی نے جب نیویارک سے شکاگو میں اپنے ایک رشتے دار کو بھجوانے کیلئے رقم ویسٹرن یونین کی ایک شاخ میں جمع کرائی تو کچھ ہی گھنٹے بعد انہیں کمپنی کے ایک اہلکار نے فون کیا اور کہا کہ چونکہ ان کا نام محمد ہے اس لئے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنی تصویر مہیا کریں۔ محمدعلی نے جواباً احتجاج کیا اور کہا کہ وہ رقم واپس لینا چاہیں گے لیکن ویسٹرن یونین نے ان کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تصویر دیئے بغیر وہ اپنی رقم واپس نہیں لے سکتے۔ویسٹرن یونین کی ترجمان وینڈی ہربرٹ نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا کہ محمدعلی کی رقم ضبط کئے جانے کا عمل امریکی قوانین اور قواعد کے مطابق ہے، جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا ان قوانین و قواعد کا اطلاق صرف محمد، احمدد، علی اور خان نامی لوگوں پر ہوتا ہے تو اس نے کہا کہ ویسٹرن یونین رقوم کی ترسیل کا کاروبار وزارت خزانے سے جاری کی گئی ہدایات کے مطابق کرتی ہے تاہم اس نے اعتراف کیا کہ اس کے پاس حکومت کی طرف سے دی گئی ایک ’’واچ لسٹ‘‘ موجود ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ جب کمپیوٹر سسٹم کسی گاہک کے واچ لسٹ میں درج نام کی شناخت کرتا ہے تو قانون کے مطابق ان پر لازم ہے کہ وہ اس گاہک کی رقم ضبط کرلیں۔ترجمان وینڈی ہربرٹ نے مزید بتایا کہ ویسٹرن یونین پیٹریاٹ ایکٹ کے نفاذ سے پہلے بھی رقم بھیجنے والے افراد کی چھان بین کرتی تھی۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکی کانگریس نے جب پیٹریاٹ ایکٹ پاس کیا تو ہمیں حکم دیا گیا کہ رقوم بھیجنے والی کمپنیوں پر لازم ہے کہ حکومت کی ’’واچ لسٹ‘‘ کو اپنے کمپیوٹر سسٹم میں شامل کریں۔ یہی وجہ تھی کہ محمدعلی کا پہلا اور آخری نام (محمد اور علی) واچ لسٹ میں شامل تھا، تاہم مسٹر محمدعلی کی تصویر مہیا کرنے کے ایک دن بعد ان کی رقم واپس لوٹا دی گئی۔ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ میںلگ بھگ 8 لاکھ مسلمان آباد ہیں ان میں سے دوتہائی مسلمان بیرون ملک پیدا ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کونسل آف امریکن مسلم ریلیشنز کے ارکان ویسٹرن یونین سے ایسے واقعات کی وضاحت طلب کررہے ہیں اور ان ناخوشگوار واقعات کی روک تھام پر زور دے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں جب نجی طور پر کا م کرنے والے مالیاتی اداروں اور کمپنیوں کو امریکی حکومت نے ’’مسلم شناخت والے افراد‘‘ کی سخت جانچ پڑتال کی ہدایت کررکھی ہے اور ان کو ایسے ناموں کی لسٹ بھی فراہم کررکھی ہے تو خود حکومت کے سرکاری محکموں اور اداروں میں کیا ہورہا ہوگا؟ امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے گزشتہ دنوں سان فرانسسکو میں مسلم ایڈووکیٹس نامی تنظیم سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں متعدد عرب امریکیوں کی جانب سے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے خلاف شکایت موصول ہوئی ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہیں۔
آخر میں میرے لئے یہ بتایا بے حد ضروری ہے کہ صدراوباما نے اپنی قاہرہ میںکی گئی تقریر میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ زکوٰۃ ادا کرنے کے معاملے میں امریکہ میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ تعاون کریں گے، کب؟ یہ انہوں نے نہیںبتایا....
تازہ ترین