• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھٹو مرحوم کی ایک اچھائی سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کہ انہوں نے وڈیروں کے بالمقابل دبے ہوئے طبقات یعنی غریب عوام کو اپنے حقوق کا شعور دلوایا انہیں اعتماد کے ساتھ ایک نوع کی ہمت دلائی اس کے علاوہ انہوں نے خود اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی خاطر کیا کچھ کیا اس پر طویل بحث کی گنجائش موجود ہے ۔ وطنِ عزیز میں ملائیت کو بڑھاوا دینے کا عمل ضیاء الحق نے نہیں خود بھٹو مرحوم نے شروع کیا تھا ضیاء الحق نے اسی’’ مقدس مشن‘‘ کو بلندیوں تک پہنچایا جبکہ محترمہ نے اسی سونامی کے سامنے بند باندھنے کی مقدور بھر کاوشیں کیں اور بالآخر اسی کی نذر ہوگئیں جس طرح محترمہ نے وقت سے سیکھا اسی طرح نواز شریف نے بھی وقت سے بہت کچھ سیکھا ابتداً انہوں نے بھٹو کے شروع کردہ ضیاء الحقی مشن کو اپنانے کی کاوش کی لیکن جلد مضمرات کا ادراک کرتے ہوئے اس مشن سے تائب ہو کر اُسی لائن میں لگ گئے جو بینظیرکی لائن تھی چارٹر آف ڈیموکریسی اُسی کا ثمر ہے۔
آج پاکستان سوسائٹی کے باشعور طبقات پریشان ہیں کہ ہمارے اجتماعی شعور کو بجائے آگے بڑھانے کے ایک مرتبہ پھر پیچھے کو دھکیلا جا رہا ہے سازش جس کی بھی ہے لیکن مہرہ اس کا وہ ہے جس کی انا کا بوجھ کوئی بھی اٹھانے سے قاصر ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ یہی کہتا سنائی دیتا ہے کہ مجھے قدرت نے اتنا نواز رکھا ہے کہ اب مجھے اپنے لئے کچھ نہیں چاہئے حالانکہ اقتدار کی حرص، لالچ، اور خواہش میں لوگ سونامی خاں بن جاتے ہیں شاہ ایران کے پاس کس چیز کی کمی تھی؟ وہ محلات میں عیش و عشرت کی زندگی گزار سکتا تھامگر اقتدار سے محرومی کا دکھ اُسے اندرہی اندر کھا گیا۔ لیلیٰء اقتدار سے ہم آغوش ہونے کیلئے جلتا کڑہتا اور تڑپتا رہا بالآخر اس غم میں نحیف ولاغر ہو کر وہ موت کی وادی میں جا پہنچا تاریخ انسانی میں کتنی مثالیں ہیں کہ اقتدار کے لالچ میں بڑے بڑے قد آور لوگ اپنی جانوں پر کھیل گئے۔ اس حرص میں اندھے ہو کر حکمرانی ذہن والوں نے اپنے قریبی ساتھیوں، باپ بھائیوں حتیٰ کہ اولادوں کی جانیں لے لیں۔ آپ نہ جانے کس ا ستثنیٰ کی بات کرتے ہیں؟ لیلیٰء اقتدار کیلئے کسی کی طبعیت خواہ کتنی ہی خراب ہو وہ کم از کم قوم کے نو نہالوں کو تو کسی ایسے مرض میں مبتلا کرنے سے باز رہے کیا ضروری ہے کہ اپنا الوسیدھا کرنے کیلئے نو جوانان قوم کو بدتمیزی و بد تہذیبی کا سبق پڑھایا جائے ۔ وقت کی مختلف النوع ٹھوکریں کھا کر وطنِ عزیز کی قومی و سیاسی قیادت نے ’’میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کرتے ہوئے جس نئے سفر کا آغاز کیا تھا وہ آئین و جمہوریت کی سر بلندی کا سفر تھا وہ قانون کی حاکمیت اور عوامی امنگوں کے ترجمان ادارے پارلیمنٹ کی بالادستی کا سفر تھا وہ مذہب میں رواداری اور سیاست و معاشرت میں برداشت کا سفر تھا۔ سویلین حکمرانی کے ذریعے سولائزڈ سوسائٹی کا قیام اس کا ماٹو تھا امن و سلامتی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرتے ہوئے معیشت کو بڑھاوا دنیا اس کا بنیادی اصول تھا یہ طے پا گیا تھا کہ الجھائو کوئی بھی ہو دھینگامشتی سے نہیں مل بیٹھ کر باہمی مشاورت سے تمام مسائل کاحل نکالا جائے گا۔ خامیوں سے پاک کوئی بھی سماج یا سسٹم نہیںہوتا اصل مسئلہ اس کی ارتقائی تطہیر کیلئے پیش بندی و اہتمام ہوتا ہے یہ طے ہوا تھا کہ حکومت کوئی بھی ہو وہ پارلیمنٹ میں اپنی حزب اختلاف کو اعتماد میں لے کر چلے گی۔اچھائی کے لئے ابھرتی ایسی فضا میں آپ کی حب جاہ اتنی بڑھی کہ قومی بربادی کا لند ن پلان اس پر مسلط کرنا چاہا۔ جن خفیہ اشارے بازیوں سے قوم ماقبل بہکائی جا چکی ہے آپ نئی بوتلوں میں وہی شراب کہن بھر کر لے آئے اور دعویٰ کیا کہ میں تبدیلی کا علمبردار ہوں۔
ہم پوچھتے ہیں کس تبدیلی کی بات کر رہے ہیں ایک پورا صوبہ آپ کو آپ کے آدرشوں کے مطابق تبدیل کرنے کیلئے پیش کیا گیا آخر اُس کی حالت دیگر تینوں صوبوں سے کس حوالے یا لحاظ سے بہتر ہے؟ تین مہینوں سے آخر کس ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کر رہے ہیں؟کیا دھاندلی کے الزامات سے تبدیلی لانے کا مطلب نیا مارشل لا لگوانا ہے؟ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟؟ یہ نیا پاکستان تو قوم چار مرتبہ بھگت چکی ہے۔ نئے پاکستان کیلئے آخر آپ کے پاس وژن کیا ہے؟ یہ کہ ملک کو طالبان کے سنہری دور میں لوٹا دیا جائے یا قبائلی ادوار کو بطور مقدس نمونہ اپنا لیا جائے یا جدید عدالتی سسٹم کو ختم کرتے ہوئے شرعی عدالتیں اور جرگہ سسٹم لاگو کیا جائے؟ لڑکوں لڑکیوں کے اکٹھے دھمال ڈالنے سے اگر نیا پاکستان بنتا ہے تو اس کی بھی بے شمار مثالیں پرانے پاکستان میں موجود ہیں۔حالت یہ ہے کہ آپ کی اپنی پا رٹی میں انتشار ہے،ما نگے تانگے کا رکن واپسی کے لئے پر تو ل رہے ہیں لیڈران آپ کی قیا دت سے نالا ں ہیں،ممبران آپ کے دبا ئو پر مستعفی ہو نے سے انکاری ہیںآپ کی سول نا فرما نی تحریک کا جو حشر ہواوہ آپ کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کا فی تھا ۔.... قادری صاحب آپ کو بیچ منجد ہار چھوڑ کر جا چکے ہیں و احد اتحادی پارٹی بھی آپ سے نا لا ں ہو چکی ہے ۔آپ اُس سے یہ وضاحتیں مانگ رہے ہیں کہ سراج الحق صاحب پچ کے اِس طرف ہو یا اُس طرف؟۔ ہماری قومی ریاست و سیاست میں ایک ہزار ایک خرابیاں ہونگی ان کا حل آئین، جمہوریت، پارلیمنٹ، جوڈیشری اور ان سے منسلک اداروں کی مضبوطی میں ہے نہ کہ انہیں مزید کمزور بنانے میں۔ ذرا سوچیے آپ نے ہنوز جو کچھ کیا ہے اس سے یہ ادارے مضبوط ہوئے ہیں یا مزید کمزور؟
تازہ ترین