• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مختلف اطراف سے اب یہ آوازیں واضح طور پر سنائی دے رہی ہیں کہ ’’ سندھ کو بلوچستان بنانے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں ۔ ‘‘ یہ آوازیں کیوں بلند ہو رہی ہیں ، اس کے بھی ٹھوس اسباب ہیں ۔ گزشتہ پیر کو جب سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی طرف سے دو سیاسی کارکنوں آصف پنہور اور وحید لاشاری کی مسخ شدہ لاشیں ملنے اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سندھ پرست رہنما ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قتل کے خلاف ہڑتال کی جا رہی تھی اور پورے سندھ میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے ، بالکل اسی دن ضلع جامشورو کے صنعتی علاقے نوری آباد سے مزید دو سیاسی کارکنوں سرویچ پیرزادو اور روحل لغاری کی مسخ شدہ لاشیں ملیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لاشیں پھینکنے والوں نے دو مزید لاشیں پھینکنے کے لیے اسی دن کا انتخاب کیا ، جب پورے سندھ میں لاشیں پھینکنے کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا ۔ اس سے پہلے بھی اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوئے ، جب احتجاج ہو رہا ہوتا تھا اور سیاسی کارکنوں کو یا تو ’’ مقابلوں ‘‘میں مار دیا جاتا تھا یا گمشدہ کارکنوں کی لاشیں ملتی تھیں ۔ اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ میں کیا ہونے جا رہا ہے ؟ جو بھی کچھ ہونے جا رہا ہے ، اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے ، الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ امریکا کے معروف ماہر لسانیات اور سیاسی دانشور ’’نوم چومسکی ‘‘ کی طرح ہمیں الفاظ کا انتخاب کرنا نہیں آتا اور نہ ہی نوم چومسکی کی طرح ہمارے پاس اپنے الفاظ کی تائید کے لیے دستاویزی ثبوت ہیں ۔ نوم چومسکی نے بلوچستان اور سندھ جیسی صورت حال سے دو چار دنیا کے کئی ملکوں اور خطوں میں ان پس پردہ عوامل اور حقائق کو پوری سچائی سے بے نقاب کیا ہے اور لاطینی امریکا میں ریاستی دہشت گردی پر ایک مدلل کتاب بھی لکھ ڈالی ہے ۔ بلوچستان کے بعد سندھ میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اس کے حوالے سے میں اپنی محسوسات کو صرف نوم چومسکی کے الفاظ کا جامہ ہی پہنا سکتا ہوں کہ ’’ دہشت گردی کا کلچر مضبوطی سے ہمارے سیاسی ماحول میں اپنے پنجے گاڑ رہا ہے ۔ ۔ ۔ تباہ کاری کی دوڑ میں تیزی آ گئی ہے ‘‘ ۔ اس مختصر کالم میں نہ ہی یہ ممکن ہے کہ سندھ کی خراب ہوتی ہوئی صورت حال کے اصل حقائق اور عوامل کو بیان کیا جا سکے اور نہ ہی ان سطور کا یہ مقصد ہے ۔ بس کچھ باتیں دل پر محسوس ہو رہی ہیں ، جن کے ’’ کتھارسس ‘‘ کے لیے قلم کی نوک کا راستہ اختیار کیا گیا ہے ۔ نوجوان سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ ان بوڑھے ماں باپ کا کرب محسوس ہو رہا ہے ، جنہیں اچانک کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے مسخ شدہ چہروں کو شناخت کریں ۔ ان بہنوں کی خوف سے تیز ہونے والی دل کی دھڑکنیں بھی محسوس ہو رہی ہیں ، جن کے بھائیوں کے صرف نام ان گمشدہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں ، جو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی گئی ہے اور ان بہنوں کو معلوم ہے کہ ہر گمشدہ کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت اور جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے درمیان فرق کو بھی محسوس کر رہا ہوں ۔ جنرل ضیاء کے دور میں جمہوری تحریک کو کچلنے کے لیے قبائلی فورسز کو ’’ محب وطن فورسز ‘‘ کا سرٹیفکیٹ دے کر انہیں شہروں ، قصبوں اور شاہراہوں پر لوٹ مار کا لائسنس بھی دیا گیا اور یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ سندھی ڈاکو ہیں ۔ پھر ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے نام پر سندھ میں ابھرتا ہوا سیاسی کیڈر کچل دیا گیا ۔ ٹنڈو بہاول میں ’’ ڈاکوؤں ‘‘ کے قتل کے بعد تاریخ نے خود انکشاف کیا کہ اصل حقائق کیا تھے ، ورنہ ہم جیسے قلم کاروں کی کیا جرأت تھی ۔ پھر پرویز مشرف کا دور آیا ، جب یہ کہا گیا کہ ’’ سندھی علیحدگی پسند ہیں ‘‘ ۔ 2004-05 ء میں سیاسی کارکنوں اور عام لوگوں کے غائب ہونے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ یہ تقریباً وہی دور ہے ، جب بلوچستان میں بھی یہ کام شروع ہو چکا تھا اور یہ سلسلہ جمہوری حکومتیں قائم ہونے کے باوجود بھی جاری ہے ۔ پھر گمشدہ کارکنوں کی لاشیں ملنے لگیں ۔ سندھ میں جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو علیحدگی پسند تحریک کا یہاں کوئی وجود ہی نہیں تھا اور نہ آج تک ہے ۔ جب عام کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے پر سندھ میں کوئی بڑا ردعمل نہ ہوا تو زیادہ سرگرم اور معروف سیاسی رہنماؤں کی لاشیں ملنے لگیں ۔ 25 فروری 2011ء کو جئے سندھ متحدہ محاذ ( جسمم ) کے سیکرٹری جنرل مظفر بھٹو پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے ۔ 21 اپریل 2011ء کو سانگھڑ میں جسمم کے رہنماؤں کی گاڑی پر حملہ ہوا ، جس میں سرائی قربان کھوہاوڑ اور روپلو چولیانی سمیت پانچ سیاسی رہنما مارے گئے اور پھر ان کی لاشوں کو جلا دیا گیا ۔ 25 مئی 2012ء کو مظفر بھٹو کی مسخ شدہ لاش حیدر آباد کے قریب سے ملی ۔ یہ سلسلہ 2004-05 ء سے اب تک جاری ہے ۔ اسی دوران جئے سندھ قومی محاذ کے سربراہ بشیر خان قریشی کی پراسرار موت ہوتی ہے ۔ پھر بشیر خان قریشی کے بھائی مقصود خان قریشی کوساتھی سمیت قتل کرکے گاڑی سمیت جلا دینے کا درد ناک واقعہ بھی رونما ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے ورلڈ سندھی کانگریس کی رپورٹ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے ، جس کا عنوان ’’ سندھ میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل ‘‘ ہے ۔ اسی عرصے میں جئے سندھ تحریک کے صدر ڈاکٹر صفدر سرکی ،جسقم کے آصف بالادی ، جسمم کے رہنما میر عالم مری اور دیگر کئی سیاسی کارکن اغواء ہوئے اور کچھ عرصے تک قید میں رہنے کے بعد رہا کر دیئے گئے لیکن بہت سے گمشدہ لوگوں کی لاشیں ملی ہیں اور بہت سے لوگوں کا ابھی تک پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے جو اعداد و شمار دیئے ہیں ، ان کے مطابق اس وقت بھی 60 سے زیادہ لوگ لاپتہ ہیں ۔ ضیاء اور مشرف دور کا فرق محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ اچانک ’’ سندھو دیش لبریشن آرمی ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم مختلف واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کر لیتی ہے ۔ 25 مئی 2012ء کو قاضی احمد کے قریب کراچی سے اٹک جانے والی بس پر حملہ اور اس طرح کے دیگر واقعات کا مخصوص سیاسی حالات میں رونما ہونے کے اسباب کو بھی صرف محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ ریلوے ٹریکس پر کب ، کیوں اور کس نوعیت کے دھماکے ہوتے ہیں ، اس کے پس پردہ حقائق بھی صرف محسوس کیے جا سکتے ہیں ، الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے ۔ پورا سندھ یہ محسوس کر رہا ہے کہ صوبے میں علیحدگی پسندی کی کوئی تحریک نہیں ہے اور سندھ میں کام کرنے والی سیاسی جماعتوں کے بارے میں بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ کس حد تک آگے جا سکتی ہیں ۔ البتہ یہ بات بھی واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے کہ لاشیں ملنے سے لوگوں میں احساس بے گانگی بڑھتا جا رہا ہے اور شاید ایسی صورت حال پیدا کرنے والوں کا مقصد ہی یہی ہے کہ احساس بے گانگی میں اضافہ ہو ۔ اس پر مجھے 18 ویں صدی کے اس یورپی نو آبادیاتی باشندے کا وہ خط یاد آ رہا ہے ، جو اس نے جنوبی افریقا سے اپنی کمپنی کو لکھا تھا اور جس کے الفاظ یہ تھے کہ ’’ہمیں اپنے مقصد میں کامیابی تب حاصل ہو سکتی ہے ، جب لوگوں میں ہمارے خلاف غصہ پیدا ہو ‘‘ ۔ بلوچستان کے حالات بہت آگے نکل چکے ہیں اور سندھ میں چونکہ بلوچستان والی صورت حال پیدا کی جا رہی ہے لہذا بلوچستان میں جو پہلے کیا گیا ، وہ اب سندھ میں ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے ۔ بلوچستان اور سندھ دونوں صوبوں سے گمشدہ افراد کی زیادہ تر لاشیں ملنے کا سب سے بڑا مرکز کراچی ہے ۔ یہ بات بھی محسوس کرنے والی ہے ، بیان کرنے والی نہیں ۔ بلوچستان کی طرح سندھ میں بھی تیزی سے دینی مدارس کے قیام کو محسوس کیا جا سکتا ہے اور سندھ کی ابتدائی صورت حال سے یہ خدشات بھی ہونے لگے ہیں کہ مصنوعی طور پر بلوچستان میںجو حالات پیدا کیے جا سکتے ہیں ، ویسے ہی حالات سندھ میں بھی پیدا کیے جا سکتے ہیں ۔ بقول نوم چومسکی ’’ سیاست کی بساط پر نا پسندیدہ گروہ تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں نشانہ بنایا جا سکے اور پھر جارحیت کے ذریعہ اس قوم کا وجود یا اس کی سیاسی مزاحمت ختم کی جا سکے ‘‘ ۔ پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی قومی سیاسی جماعت نے اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ابھی تک نہ تو ادراک حاصل کیا ہے اور نہ ہی ان میں اہلیت موجود ہے ۔ ہم بھی صرف اپنی بے بسی کو محسوس کر سکتے ہیں۔
تازہ ترین