• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم دوستی نبھانا جانتے ہیں اور دشمنی کا قرض اتارنا بھی جانتے ہیں، یہ دو ٹوک اور واضح الفاظ جنرل راحیل شریف نے 6ستمبر کو یوم دفاع کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہے، انہوں نے مزید کہا کہ میں سب پر واضح کردوں کہ پہلے پاکستان کا دفاع مضبوط تھا اوراب ناقابل تسخیر ہے۔ ہم ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور ہم کشمیریوں کی حمایت جاری رکھیں گے، پاک چین دوستی عظیم ہے جس کا نتیجہ ’’سی پیک‘‘ ہے، کسی بیرونی طاقت کو اس راہداری منصوبے میں رکاوٹ ڈالنے نہیں دیں گے۔ اس منصوبے سے ملک میں خوشحالی آئے گی اور معیشت مضبوط ہوگی، انہوں نے مزید کہا کہ ہم جیت سکتے ہیں اور جیت کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں۔ 7 ستمبر کو یوم فضائیہ اور 8ستمبر کو بحریہ کی تقاریب میں ایئر فورس کے چیف اور بحریہ کے سربراہ نے بھی قوم کو خوش خبری دی کہ 65میں ہماری تعداد اور ضروری اسلحہ کی مقدار دشمن کےمقابلے میں بہت کمی تھی، ہماری فضائیہ دشمن کا پانچواں حصہ اور بحریہ صرف بارہواں حصہ تھی، تب بھی ہمارے نوجوانوں کی تیاری، تربیت اور جذبہ دشمن کے مقابلے میں بہترین تھا، آج ہم نے اسلحہ جاتی عدم توازن پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے، جوانوں کی تیاری اور جذبہ پہلے کے مقابلے میں دو چند ہے۔ ہم نے 65ء میں دشمن کو اپنی فضائوں سے دور رکھا جو آیا واپس نہیں گیا بلکہ انڈیا کے اندر گھس کران کے ہوائی اڈوں کو کھدیڑ ڈالا، ان کے جہاز بیٹھی بطخوں کی طرح مارےگئے۔ نیوی کا معاملہ تو بالکل ہی معجزہ تھا، چھوٹی اور منی سی پاک بحریہ اور ’’غازی‘‘ آبدوز نے دشمن کا ناطقہ بند کردیا، ’’دوارکا‘‘ میں بھارتی بحریہ کی بندرگاہ پر براہ راست حملہ کیا، کھڑے جہازوں اور تنصیبات کو تباہ کر ڈالا، بمبئی بندرگاہ کی ناکہ بندی کردی، پوری جنگ کے دوران پاکستان سے بارہ گنا بڑی بحریہ کو کونے کھدرے میں چھپ رہنے پر مجبور کردیا۔ تینوں افواج کے سربراہوں نے یقین دہانی کرائی کہ آئندہ کسی مشکل وقت قوم کومایوس نہیں کریں گے، وقت پڑنے پر عوام ہمیںبالکل تیار حالت میں پائیں گے۔ اس سے پہلے بھی جنرل راحیل شریف بھارتی دھمکیوں کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’کولڈ اسٹارٹ ہو یا ہاٹ اسٹارٹ‘‘ آیئے، ہم تیار ہیں یہ اعلانات اور تیاری کی باتیں یکطرفہ نہیں ہیں، دشمن ملک کے تجزیہ کاروں، ایئرفورس کے اعلیٰ عہدیداروں اور بھارتی میڈیا کی ہا ہاکار نے ہمارے کمانڈروں کے دعوئوں کی تصدیق کی ہے کہ ’’چین تو دور کی بات ہے، بھارتی افواج پاکستان کے مقابلے میں بھی پیچھے رہ جاتی ہے‘‘۔ بھارتی چینل پر یہ بات مشہور تجزیہ کار راہول بخشی نے ایئر مارشل ’’دھنوا‘‘ کے حوالے سے کہی کہ ہمارے بڑوں میں پہلی بار کسی نے سچ بولا اور اپنی حکومت کو بروقت خبردار کیا ہے کہ انڈیا پاکستان کے مقابلے میں لڑاکا جہازوں کی تعداد تین گنا ہوا کرتی تھی، ایک کے مقابلے میں تین اور جہازوں کی کوالٹی بھی اعلیٰ تھی لیکن اب یہ تعداد کم ہو کر دو کے مقابلے میں تین رہ گئی ہے آئندہ برسوں میں یہ اور بھی کم ہو جائیگی۔ انڈیا کا ’’دفاعی میگزین‘‘ بری فوج کے بارے میں لکھ چکا ہے کہ پاکستان کی بری فوج تیاری کے اعتبار سے بہترین حالت میں ہے جبکہ انڈیا کی آدھی فوج کشمیر میں تعینات ہے ان کو تیاری اور تربیت کی فرصت ہی نہیں ہے فوج کا مورال پست ترین سطح پر ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے بعد بھارتی فوج میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی کے حوالے سے ’’را‘‘ کے سابق سربراہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی’’آئی ایس آئی‘‘ دنیا میں سب سے خطرناک ایجنسی ہے۔ کسی زمانے میں روس کی’’کے جی بی‘‘ ہوا کرتی تھی لیکن کیمونسٹ روس ختم ہونے کے بعد ان کی وہ حالت نہیں رہی۔ اب پاکستان کی خفیہ ایجنسی چھوٹی ہونے کے باوجود بڑی موثر اور خطرناک ہے۔ انڈیا کے دفاعی ماہرین اور اعلیٰ عہدیداروں کے تبصروں اور تجزئیے سے افواج کے سربراہوں کے بیانات کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جارحانہ بیان بازی، چینی صدر کے پاس شکایتیں امریکی صدر سے مدد کی درخواستیں، آسیاں کے سربراہی اجلاس میں پاکستان پر پابندیوں کی اپیلیں ان کی بوکھلاہٹ کا کھلا ثبوت ہیں اور ان کی کمزوری کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ جہاں تک پاکستان اور انڈیا کی براہ راست جنگ کی بات ہے تو ایسی نوبت آنے پر یقیناً ہم1965ءکے دفاع اور1971ءکی طرح فاصلے کی مجبوری کا شکار نہیں ہوں گے۔ اس مرتبہ جنگ یقیناً انڈیا کی حدود میں لڑی جائے گی، اس لئے کہ پاکستان کے چھوٹے ایٹمی ہتھیار جنہیں میدان جنگ کے ہتھیار بھی کہا جاتا ہے اور کم فاصلے پر مار کرنے و الے میزائل کی موجودگی میں بھارتی فوج کو موقع بھی دیا جائے تو بھی وہ پاکستانی حدود میں آنے کی ہمت نہیں کرپائے گی مگر یہ سب سرحدوں پر کھلی جنگ کی صورت میں ممکن ہے۔ اب تک انڈیا کی پالیسی جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے، دہشت گردی کا گڑھ ثابت کرنے، دہشت پھیلانے والا ملک بنائے رکھنے میں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے، اس پروپیگنڈے کے پردے میں اس نے وہی کھیل شروع کر رکھا ہے جو اس نے مشرقی پاکستان میں کھیلا تھا یعنی تضادات کو ابھارنا، غداروں کو تلاش کرکے’’را‘‘ کی مدد سے خفیہ سیل قائم کرنا، پراکسی(خفیہ جنگ کے لئے آلہ کاروں کی بھرتی) ، تربیت اور ان کرایے کے غداروں کے ذریعے پاکستان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کردینے کا طریقہ، جو مشرقی پاکستان میں کامیابی سے آزمایا تھا۔ اب وہی ہتھیار پھر سے ہمارے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ مشرقی پاکستان کا زخم ہمارے سینوں پہ تازہ ہے کہ پھر انہی ہتھیاروں سے فاٹا، بلوچستان، کراچی کو بھی خون میں نہلادیا گیا ہے۔ پاکستان کے خلاف یہ کھیل گزشتہ 30برس سے جاری ہے۔ اب امریکہ کے ذریعے افغانستان میں پائوں پھیلانے کی اجازت سے وہاں پر کم قیمت اور آسان آلہ کار دستیاب ہوگئے حتیٰ کہ افغان خفیہ ایجنسی کے اہلکار بھی، امریکہ کی مدد انڈیا کی طرف سے پاکستان پر مسلط کی گئی اس ’’پراکسی وار ‘‘سےہماری صنعت تباہ ہوگئی، کراچی جو دنیا کی تیز رفتار معیشت تھی اس کو بریک لگ گئے، بیرونی سرمایہ کاری تو کیا آئی الٹا پاکستان کا اپنا سرمایہ بھی دوسروں ملکوں کی طرف پرواز کرگیا، 2001ءسےاب تک بالواسطہ اور بلاواسطہ پاکستان200ارب ڈالر کا نقصان کرچکا ہے۔ اس میں ملک کے اندر امن و امان قائم رکھنے کی قیمت بھی شامل ہے۔ فوج اور اس کے معاون اداروں ا ور شہریوں کی ہلاکتیں ایک لاکھ کی تعداد سے تجاوز کرگئی ہیں۔ پاکستانی فوج کو اندرون ملک مصروف کرکے انڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں وحشت و بربریت کا خوفناک کھیل کھیلا ہے۔ وہاں پر اب تک سوا لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے، معذور ہوجانے والے بچوں اور بے آبرو ہونے والی عورتوں کی تعداد بے حد و بے حساب ہے۔ اس طرح کل ملا کر ہم سوا دو لاکھ شہداء کی قربانی دے چکے ہیں ، ان ساری شہادتوں اور اخراجات کے مقابلے میں بھارتی سورمائوں کے پائوں میں ایک کانٹا تک نہیں چبھویا جاسکا اگر ہم انڈیا کے ساتھ براہ راست جنگ میں گئے ہوتے یہ جنگ ایک برس پر محیط ہوتی توبھی پاکستانی ا ور کشمیریوں کی شہادتیں دو لاکھ نہیں ہوسکتی ہیں۔ کیا یہ ہماری قسمت میں لکھا ہے کہ دشمن کو اپنے ملک میں خفیہ اڈے قائم کرنے کی مہلت دیں اور پھر اپنی بہادر افواج اور قوم کا خون بہا کر ان اڈوں کو ختم کریں؟ صرف دفاعی جنگ لڑنا بزدلی کی اقسا م میں سے ایک قسم ہے دشمنی کا قرض روز افزوں ہے، اب اس قرض کے بوجھ سے قوم کی کمر بھی جھک سی گئی ، کوئی ہے جو قرض کے اس بوجھ کو اتارے؟


.
تازہ ترین