• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچپن میں ہم میلوں ٹھیلوں کے بہت شوقین تھے۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے، دس کلو میٹر تک کا تو شاید ہی کوئی میلہ چھوڑا ہو۔ والد صاحب خود تو شغف نہیں رکھتے تھے۔ مگر ہمارے اوپر کبھی پابندی نہ لگائی۔ اور بہ اہتمام روپیہ تھماکر بابا دین بخش کے سپرد کردیتے، جنہیں ہم ہی نہیں پورا گائوں بابا بخشا کے نام سے یاد کرتا تھا۔ اللہ بخشے بابا بخشا اسی ایک روپے میں جھولوں اور ہنڈولوں سے لیکر جلیبیوں، قلفیوں اور تربوزوں تک کی مکمل عیاشی کرواتے اور واپسی پر کچھ سکّے ہنوز ہماری جیب میں ہوتے تھے۔ میلے کی رنگینیوں میں کھوکر ہم دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتے، کہ یکایک بابا کا نعرہ مستانہ گونجتا ’’چل پترا، واپسی کا ٹائم ہوگیا‘‘۔ ہم روہانسے ہو کہ کہتے، بابا ابھی تو سورج کھڑا ہے۔ سب لوگ بھی ادھر ہیں، رونق لگی ہے۔ تمہیں آخر کس بات کی جلدی ہے؟ تو بابا پیار سے رخسار تھپتھپاتے ہوئے کہتے۔ ’’پتر میلہ بھریا ہو چھوڑنا چاہئے‘‘۔ اور ہمیں ان کے اس جواب سے شدید چڑ تھی۔ کیونکہ اس وقت تک اس کے پیچھے پوشیدہ حکمت و منطق ہماری نگاہوں سے پوشیدہ تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا۔ کچھ عقل سمجھ آئی، تو بابا کی دانش و دانائی ہم پر کھلتی چلی گئی۔ کہ دنیا واقعی انہیں کو یاد رکھتی ہے، جو بھریا میلہ چھوڑ جاتے ہیں۔
بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ اکتوبر1962میں دنیا خوفناک تباہی سے بال بال بچی تھی۔ اس وقت کی دونوں سپر پاورز امریکہ اور سوویت یونین جوہری جنگ کے بے حد قریب پہنچ گئی تھیں کہ امریکی صدر کینیڈی کی دانشمندی سے معاملہ سلجھ گیا تھا۔ سوویت یونین نے خاموشی سے کیوبا میں جوہری میزائلوں کے انبار جمع کرنا شروع کردیئے تھے۔ امریکہ کو شک ہوا تو U-2 جاسوسی جہازوں کو جوہری اسلحہ کے ان مراکز کی خفیہ فوٹو گرافی کی ذمہ داری سونپی اور ہفتہ بھر میں سارا کچا چٹھا سامنے آگیا۔ تمام ثبوت صدر کینیڈی کی میز پر دھرے تھے۔ موصوف کیلئے وہ بہت مشکل وقت تھا اور انکی صلاحیتوں کا امتحان بھی۔ کینیڈی نے کسی ردعمل کا اظہار کیا اور نہ ہی سوویت یونین سے شکایت کی۔ مگر اپنے جنگی جہاز کیوبا کے اردگرد اس طور پھیلا دیئے کہ اسلحہ کی مزید سپلائی رک گئی اور سوویت صدر خروشیف بیک فٹ پر جانے پر مجبور ہوگئے۔ اور پھر ایک معاہدہ کے تحت کیوبا میں ذخیرہ کیا گیا جوہری اسلحہ خود ہی ضائع کردیا۔ صدر کینیڈی کی یہ بہت بڑی تزویری اور سفارتی کامیابی تھی۔ اپنی بہترین حکمت عملی سے انہوں نے دنیا کو جوہری جنگ سے بچالیا تھا۔ اور پھر ایک عجیب واقعہ ہوا 22نومبر 1962 کی سہ پہر وائٹ ہائوس کے عقبی لان میں کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے انہوں نے خاتون اول جیکولین سے ایک انوکھا سوال پوچھ لیا، ’’جیکی! تمہارا کیا خیال ہے کہ اس سے بڑی کامیابی میری زندگی میں کوئی اور بھی آسکتی ہے؟ جیکی بولیں، مجھے غیب کا تو علم نہیں، ہوسکتا ہے، اس سے بڑی کامیابیاں بھی آپ کی راہ دیکھ رہی ہوں۔ کینیڈی نے آگے کو جھکتے ہوئے پریقین لہجے میں کہا، ’’نہیں جیکی! اس سے بڑا لمحہ میری زندگی میں اور نہیں آئیگا۔ میں نے اپنی انتہا کو پالیا، اب کوئی اگر مجھے قتل بھی کردے تو کوئی غم نہ ہوگا‘‘۔ بعض لمحے بھی کس قدر مقبولیت کے ہوتے ہیں، ٹھیک ایک برس بعد 22نومبر 1963 کو کینیڈی ٹیکساس کے قصبے ڈیلاس میں واقعی قتل کردیئے گئے۔ وہ تین برس سے بھی کم عرصہ کیلئے صدر رہا۔ محض 46 برس کی عمر میں جبکہ دکھنے میں 36 کا بھی نہیں لگتا تھا، چلتا بنا۔ لوگ اس کے چہرے کی معصومیت کو آج بھی نہیں بھولے اور اسکی موت کو Death of American innocence یعنی امریکی معصومیت کی موت قرار دیتے ہیں۔ موصوف پر دس ہزار سے زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ہزاروں کمرشل/دستاویزی فلمیں، ٹی وی ڈرامے اور سیریل بن چکے ہیں۔ ان کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اور ہر برس ان کے یوم وفات کو واشنگٹن کے سارے راستے آرلنگٹن کے نواحی قبرستان میں ان کی آخری آرام گاہ کی طرف جارہے ہوتے ہیں۔ چند برس بیشتر راقم کی بھی 22نومبر کی تاریخ واشنگٹن میں گزری تھی۔ میرا بھارتی دوست ڈاکٹر ارجن مجھے بھی آنجہانی صدر کی قبر پر لے گیا تھا۔ جہاں کے جذباتی مناظر نے مجھے پریشان کردیا تھا۔ حیرت کا پہاڑ تو اس وقت ٹوٹا، جب پنجابی وسیب سے جڑے ڈاکٹر ارجن نے بھی بابا خوشیا والی بات دہرادی۔ بولے، جانتے ہو امریکی بائولے کیوں ہوئے جارہے ہیں؟ پھر میرے جواب کا انتظار کئے بغیر خود ہی بولے، کیونکہ آنجہانی نے بھریا میلہ چھوڑا تھا۔ اور انہیں خوش فہمی ہے کہ اگر اسے موقع ملتا تو وہ امریکہ کو نہ جانے کن رفعتوں کی جانب لے جاتا۔ایسی مثالیں اپنے ہاں بھی موجود ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو نے بھی بھریا میلہ چھوڑا تھا۔ ویسے تو کسی کو بھی متنازعہ بنانے میں ہمارا جواب نہیں، مگر باپ بیٹی کی سیاسی بصیرت کو ایک زمانہ تسلیم کرتا ہے۔ بہت وقت بیت گیا، مزید بیت جائیگا۔ قبروں میں ان کی ہڈیاں رہیں نہ رہیں، مگر ان کی شخصیتوں کا سحر تھا، ہے اور نہ جانے کب تک رہے۔ اور آج بھی بے شمار لوگوں کو یقین ہے کہ اگر انہیں غیرفطری موت نہ مارا جاتا، تو شاید پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی اور شاید ہمارے حالات نسبتاً بہتر ہوتے۔ بھریا میلہ چھوڑنے کی ایک اور مثال قوم کی مایہ ناز بیٹی ارفع کریم کی شکل میں دکھائی دیتی ہے۔ جو محض 16برس زندہ رہی ارو تاریخ میں نام چھوڑ گئی۔ جو محض نو برس کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پرویشنل قرار پائی، اور ہر کسی کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے متاثر کیا۔ وہ مسلسل کامیابیاں اور کامرانیاں سمیٹ رہی تھی، کہ آناً فاناً وہ کچھ ہوگیا، جس کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ زندگی کی رعنائیوں اور توانائیوں سے بھرپور ارفع یکایک بیمار ہوگئی۔ دنیا بھر کے بہترین ڈاکٹروں نے سر توڑ کوشش کرلی، مگر بے سود، اور 14جنوری 2012 کی شب وہ سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے رب کی طرف لوٹ گئی۔ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مگر یہ کسک ضرور رہے گی کہ اگر وہ زندہ رہتی تو شاید سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں کوئی بڑی خبر سننے کو ملتی۔ مگر میرے ایک دوست کی رائے یکسر مختلف ہے۔ اس کا خیال ہے کہ پاکستان میں بھریا میلہ چھوڑنے والے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ اسی میں ان کی عزت اور اسی میں عظمت۔ کیونکہ ابھی ہم بڑے لوگوں کی قدر کرنے کے اہل نہیں ہوئے۔ اس کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ بہت اچھا ہوا قائداعظم بھی آزادی کے ایک برس بعد یہ خالق حقیقی سے جاملے، ورنہ نہ جانے یہ محسن کُش قوم ان کا بھی کیا حشر کرتی؟
مزے کی ایک بات اور کہ بھریا میلہ چھوڑنے والی اس قسم کی شخصیات کے برعکس بعض لوگ میلہ لٹ جانے کے بعد بھی گھر نہیں لوٹتے، اور اکھے خیموں اور کٹی طنابوں کے بیچ راکھ کی ڈھیریاں کریدتے دکھائی دیتے ہیں۔ نہ جانے ماضی کے یہ کھنڈر کسی گوہر کی تلاش میں ہوتے ہیں؟ مجھے یہ خیال دھرنوں میں بعض بزرگوں کی زبردستی کی رونمائی دیکھ کر آیا۔ یہ شو محض عمران خان اور طاہرالقادری صاحب کا تھا۔ اور ان کے کنٹینروں پر بعض جانے پہچانے بزرگوں کو دیکھ کر ترس آتا تھا۔ ٹھکاوٹ سے چور مایوس چہروں، بے آرامی اور نیند سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ نہ جانے وہ وہاں کیا کررہے تھے۔ قصوری بزرگوں جناب آصف احمد علی اور خورشید محمود صاحب کو قدرت نے کن کن رفعتوں سے نہیں نوازا۔ اب کس شے کی ہوس ہے؟ غلام مصطفےٰ کھر کا معاملہ تو ان سے بھی زیادہ سنجیدہ ہے۔ بہت ہوچکی جناب! آپ کا دور بیت چکا۔ اب گھر جائیے اور اللہ اللہ کیجئے۔
تازہ ترین