• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پہلی دفعہ محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف کو بھی مذاکرات کی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے اور حکومت بھی سمجھ گئی ہے کہ سیاسی بحران کے موثر علاج کیلئے کسی نہ کسی طرح خان صاحب کو مطمئن کرنا ہو گا۔ ہمیشہ سے کہا جاتا رہا ہے کہ سیاست بند دروازوں کا کھیل نہیں ۔ بے لچک رویوں سے تصادم پیدا ہوتا ہے اور تصادم کسی بھی حکومت کے حق میں نہیں ہوتا ۔اب جبکہ حکومت کی طرف سے بھی واضح اعلان آ گیا ہے کہ وہ تحریک انصاف سے مذاکرات پر آمادہ ہے اور تحریک انصاف نے بھی بخوبی اندازہ لگا لیا ہے کہ دھرنوں اور جلسوں سے نہیں ،مل بیٹھ کر بات کرنے سے ہی مسئلہ طے ہو گا تو امید پیدا ہو چلی ہےکہ تازہ مذاکراتی دور نتیجہ خیز ہو گا اور معاملات طے پا جائیں گے۔
غالباً تحریک انصاف کے کسی قدر نرم روئیے کا سبب یہ ہے کہ تقریباً ایک سو دس دن پر محیط اس کا دھرنا مطلوب مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوا۔ خان صاحب کا پلان’’ اے ‘‘ یہی تھا کہ وہ لاکھوں کارکنوں اور علامہ طاہر القادری کے صف شکن سپاہیوں کے ہمرا ہ اسلام آباد پر یلغار کریں ۔ دارالحکومت کو مفلوج کردیں اور اہم عمارتوں پر قبضہ کر لیں۔ جس کے نتیجے میں حکومت ہتھیار ڈال دے اور موثر قوتیں وزیر اعظم سے استعفیٰ لیکر ، ایک نگران حکومت قائم کر دیں۔ پلان اے کے تمام خدوخال لندن میں تیار ہوئے تھے۔ مسلم لیگ ق بھی اس پلان کا حصہ تھی۔14 اگست کو اس پر عملدر آمد کا آغاز ہوا۔ کئی اتار چڑھائو آئے لیکن حکومت نے تصادم گریز پالیسی اپنائی اور دیکھتے دیکھتے طوفان کی شدت کم ہونے لگی۔ پھر وہ موڑ آیا کہ علامہ طاہر القادری نے مایوس ہو کر اپنے خیمے اٹھا لئے اور خان صاحب کے جلسے بھی سکڑنے لگے۔
پلان’’ بی ‘‘کے طور پر تحریک انصاف نے ملک کے طول و عرض میں بڑے بڑے جلسوں کا پروگرام بنایا ۔ یہ جلسے حاضری اور جوش و خروش کے اعتبار سے کامیاب رہے۔تاہم ان سے بھی کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکلا۔ وجہ یہ تھی کہ خان صاحب نے جلسوں میں مصالحت کے بجائے نہایت جارحانہ رویہ اختیار کئے رکھا اور اپنے مخصوص لہجے میں تابڑ توڑ حملے کرتے رہے۔ حکومت نے غالباً یہ حکمت عملی اختیار کر لی کہ جلسوں کا سلسلہ زیادہ دیر تک جاری رکھنا ممکن نہیں ۔ لہٰذا خان صاحب خودہی تھک ہارکر بیٹھ جائیں گے۔ اس دوران پیپلز پارٹی ، طاہر القادری اور ق لیگ نے بھی بڑے جلسے کر لئے جن سے خان صاحب کے جلسوں کی اہمیت کم ہو گئی ۔ خان صاحب نے ایک فیصلہ کن یلغار کے لئے 30 نومبر کو اسلام آباد میں بڑے جلسہ عام کی کال دی اور زور و شور سے اس مہم کو اٹھایا ۔ ایک بار تو لگا کہ 30 نومبرکو واقعی لاکھوں انسانوں کا ہجوم امڈ آئے گااور حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گی۔ اس جلسے سے صرف ایک دن قبل وزیر اعظم نواز شریف نے حویلیاں میں ایک بڑا جلسہ کر ڈالا ۔بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف 30 نومبر کو اتنا بڑا ہجوم اسلام آباد نہ لا سکی جس کی توقع تھی ۔ محض چند ہزار لوگوں کا مجمع لگا جوخان صاحب کے اپنے جلسوں کے برابر بھی نہ تھا۔
یہاں عمران خان نے پلان’’ سی ‘‘ کا اعلان کیا لیکن اب قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہیں سے ان کا احتجاج ایک ایسا موڑ مڑ گیا جس سے تحریک انصاف کمزور پڑنے لگی ۔ خان صاحب نے کہا کہ وہ 4 دسمبر کو لاہور، 8 کو فیصل آباد 12کو کراچی اور 16کوپورا پاکستان بند کر دیں گے۔ اس کا فوری رد عمل ہوا ۔ 16 دسمبر یوم سقوط ڈھاکہ ہے۔تنقید کرنے والوں نے کہا کہ پہلے 14اگست اور اب 16دسمبر کو متنازعہ بنا کر خان صاحب کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔ شہروں کو بند کر دینے اور عوام کی روز مرہ زندگی میں خلل ڈالنے کے عمل کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ چند گھنٹوں کے اندر اندر تحریک انصاف کو تا ریخیں بھی بدلنا پڑیں اور شہر بند کرنے کے حوالے سے بھی صفائیاں اوروضاحتیں پیش کی جانے لگیں ۔ تاجر برادری نے شدید رد عمل ظاہر کیا ۔ صنعت کاروں نے بھی احتجاج کی آواز اٹھائی ۔ برآمد کنندگان کا کہنا تھا کہ مختلف مصنوعات کی بر آمد کے حوالے سے دسمبر انتہائی اہم مہینہ ہوتاہے۔ کیونکہ کرسمس کے تہوار کی وجہ سے یورپی ممالک میں بعض اشیاء کی بڑی مانگ ہوتی ہے ۔ دسمبر میں لاہور ، فیصل آباد اور کراچی جیسے شہر بند کرانے کا مقصد براہ راست قومی مفاد کو نقصان پہنچانا ہے ۔ یہ دبائو ابھی تک موجود ہے بلکہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے تحریک انصاف کے رہنما یہ اشارہ دینے لگے ہیں کہ مذاکرات شروع ہونے کی صورت میں شہر بند کرانے والا ’’ پلان سی‘‘ معطل کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان نے ایک انٹر ویو میں پلان ’’ڈی ‘‘ کا بھی حوالہ دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا مطلب ’’سول نا فرمانی‘‘ بھی ہو سکتا ہے ۔ٍ اہل پاکستان اب اس کھیل سے تنگ آتے جا رہے ہیں۔ پلان اے ، بی اور سی سے لوگوں کو کچھ نہیں ملا بلکہ انہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ پاکستان کو بھی شدید معاشی نقصان پہنچا۔ چین سمیت کئی ممالک کے سربراہ یہاں نہیں آسکے۔ خان صاحب کو تین ماہ سے زائد عرصے پر محیط اپنی احتجاجی مہم سے ضرور کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہئے ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ٹیکس نہ دو ۔ ان کی اپنی جماعت کے قائدین نے نہ سنی ۔ انہوں نے بجلی کا بل نذر آتش کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کے بل ادا نہ کرو ۔ ان کی جماعت کے سارے رہنمائوں نے بل ادا کر دئیے۔ انہوں نے سمندر پار پاکستانیوں سے کہا کہ ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجو۔ ان کی اس اپیل کو رد کرتے ہوئے پاکستانیوں نے پہلے سے بھی زیادہ رقوم بنکوں کے ذریعے بھیجیں۔ انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ شہر بند کرنے کے اعلان پر میڈیا ، سول سوسائٹی اور خاص طور پر تاجر برادری نے کس رد عمل کا اظہار کیا ۔ انہیں معلوم ہو جانا چا ہئے کہ اب پاکستان اس طرح کی بے مہار احتجاجی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جلاو گھیرائواور بارود کی سیاست کا دور ختم ہو چکا۔ لوگ سوچنے لگے ہیں اوردلیل کی زبان سمجھنے لگے ہیں ۔ اگر خان صاحب نے ’’ پلان ڈی ‘‘ کے طور پر سول نا فرمانی کی کال دی تو انہیں شدید مایوسی ہو گی اور خود ان کی جدو جہد کو نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ ان کے لئے اچھا راستہ یہی ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔ اسمبلیوں میں واپس جا کر اپنا تعمیری کردار ادا کریں ۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں بیٹھ کر آئندہ کے انتخابات کو ہر قسم کی دھاندلی سے پاک رکھنے کے لئے قانون سازی کرائیں اور دھاندلی کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے کمیشن پر اعتماد کریں۔
عمران خان نے وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے سے دستبردار ہو کر عقل مندی کا ثبوت دیا ۔ انہوں نے مذاکرات کی پیشکش کر کے بھی مثبت اقدام کیا ۔ ان دونوں اقدامات سے تحریک انصاف کا گراف بہتر ہوا ہے۔ اب انہیں چاہئے کہ مذاکراتی عمل کے دوران پلان سی اور ڈی وغیرہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے ،ماحول کو ساز گار رکھنے کے لئے اپنی تحریک میں ایک لمبا وقفہ کر لیں ۔ اسی طرح حکومت کے وزراء کا بھی فرض ہے کہ وہ آگ پر تیل نہ ڈالیں ۔ حال ہی میں حکومت کی طرف سے شروع کئے گئے پی ٹی آئی مخالف اشتہارات کا سلسلہ بھی بند ہو جانا چاہئے ۔ ماحول کو ٹھنڈا اور خوش گوار رکھنا دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر اس ذمہ داری کو محسوس کیا گیا تو مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں ۔ بیشتر باتوں پر پہلے ہی اتفاق ہو چکا ہے۔ تفصیلات طے کرنا کچھ مشکل نہیں ہو گا۔ لیکن مذاکرات کی کامیابی کیلئے لازم ہے کہ خان صاحب اپنی حکمت عملی تبدیل کریں ۔وفاقی حکومت بھی عمران خان کی نرمی کو کمزوری نہ سمجھے بلکہ سنجیدگی سے نتیجہ خیز بات چیت کرے اور انہیں آبرومندانہ واپسی کا راستہ دے۔
تازہ ترین