• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان کے نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہو گیا ہے ۔ یہ عہدہ تقریباً گذشتہ 16 مہینے سے خالی تھا ، جب چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین جی ابراہیم نے رضاکارانہ طور پر اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ اگر سپریم کورٹ کا مسلسل دباؤ نہ رہتا تو اس عہدے پر تقرری میں مزید تاخیر بھی ہو سکتی تھی ۔ ’’ دیر آید درست آید ‘‘ کے مصداق جسٹس سردار رضا خان کی نئے چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت سے تقرری کا درست فیصلہ ہو گیا ہے ۔
اگرچہ دنیا کے ہر ملک میں چیف الیکشن کمشنر کا منصب انتہائی اہم ہوتا ہے لیکن پاکستان میں یہ منصب انتہائی حساس نوعیت کا بھی ہے ۔ پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں سوالات پیدا ہوئے ہیں ۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے ، جہاں کے عوام نے جمہوریت کے لئے طویل جدوجہد کی ہے اور بے مثل قربانیاں دی ہیں لیکن متنازع انتخابات نے جمہوریت کو داغدار کر دیا ہے ۔ انتخابات کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کے بعد لوگوں کا جمہوری نظام پر اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اور یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کیونکہ کوئی قوم جمہوریت پر یقین ختم ہونے کے بعد کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا نظام حکومت اختیار کر سکتی ہے ۔ ایسی قوم کا مقدر انتشار اور افرا تفری ہے۔ پاکستان کے نئے چیف الیکشن کمشنر پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس صورت حال سے وطن عزیز کو نکالیں اور لوگوں کا جمہوریت پر یقین بحال کریں ۔ جب تک لوگوں کو اپنے مینڈیٹ کے چوری ہونے کا خوف رہے گا ، تب تک ان کا جمہوریت پر یقین بحال نہیں ہو گا ۔
انتخابی عمل پر غیر مرئی قوتوں کے اثر انداز ہونے کے حوالے سے اب کسی کو شک و شبہ نہیں رہا ہے ۔ اب تک پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ، ان میں سے ایک دو انتخابات کو چھوڑ کر باقی سب انتخابات کی شفافیت کے بارے میں سوالات پیدا ہوئے ہیں ۔ انتخابی نتائج بھی معروضی صورت حال ، زمینی حقائق اور لوگوں کے اندازوں سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں ۔ ہر انتخابات میں غیر مرئی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا اور ’’ ڈیزائن ‘‘ واضح نظر آتا ہے ۔ یہ غیر مرئی قوتیں ’’ پاکستان کے داخلی استحکام اور قومی سلامتی ‘‘ کے اپنے نظریات کی بنیاد پر انتخابی نتائج مرتب کرواتی ہیں یا کروانے کے لئے اثر انداز ہوتی ہیں ۔ پاکستان کا کوئی چیف الیکشن کمشنر ایسا نہیں ہے ، جو اس عہدے سے غیر متنازع شخص کے طور پر الگ ہوا ہو ۔ سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کی دیانت داری اور غیر جانب داری پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا ہے لیکن ان کی نگرانی میں مئی 2013ء میں جو عام انتخابات منعقد ہوئے ، وہ انتہائی متنازع ہو گئے ہیں ۔ چیف الیکشن کمشنر کا منصب سنبھالنے کے بعد فخر الدین جی ابراہیم (فخرو بھائی ) ہمیشہ اس عزم کا اظہار کرتے تھے کہ پاکستان میں وہ شفاف انتخابات کا انعقاد کرائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر شفاف انتخابات نہ ہوئے تو پاکستان کو بہت نقصان ہو گا ۔ وہ اپنے عزم اور ارادے کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ چیف الیکشن کمشنرکی بے بسی اس سے زیادہ کیا ہو سکتی ہے ۔ فخرو بھائی نے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کی بڑے پیمانے پر شکایات کے شور میں اپنا استعفیٰ دیا ۔ ان کے بعد سابق چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی اور سپریم کورٹ کے سابق جج رانا بھگوان داس نے قومی سیاسی جماعتوں کی اپیل کے باوجود چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی کیونکہ انہیں صورت حال کا مکمل ادراک تھا ۔ نئے چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کو بھی یقیناً اس صورت حال کا ادراک ہو گا ، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ۔ اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں اور درپیش چیلنجوں کے بارے میں بتایا جائے ۔ جسٹس سردار محمد رضا خان کو پاکستان کی قومی سیاسی جماعتوں نے نہ صرف اتفاق رائے سے اس منصب جلیلہ کے لئے نامزد کیا ہے بلکہ ان کی دیانت داری اور اعلیٰ صلاحیتوں پر بھی اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے جسٹس سردار محمد رضا کا پاکستانی قوم اس لئے بھی احترام کرتی ہے کہ انہوں نے 2007ء میں جنرل پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم ( پی سی او ) پر ایک جج کی حیثیت سے حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا ۔ مختلف اہم مقدمات میں ان کے جرأت مندانہ اور قانون کے مطابق فیصلوں کو بھی وسیع تر حلقوں میں سراہا جاتا ہے ۔ لہٰذا ان سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس منصب جلیلہ سے مکمل انصاف کریں گے ۔
الیکشن کمشنر کے عہدے کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ کوئی شخص یہ عہدہ قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے اور پاکستان کی سیاسی جماعتیں تقرری کا معاملہ اتفاق رائے سےحل نہیں کر سکتی ہیں ۔ نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سے اب یہ تاثر زائل کرنے میں مدد ملے گی ۔ پاکستان میں انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے والی قوتوں کو صرف چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن نہیں روک سکتا ہے ۔ اس کے لئے پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں اور سول سوسائٹی کو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ساتھ دینا ہو گا ۔ 2013ء کے عام انتخابات میں جو کچھ ہوا ، وہ یقیناً فخرو بھائی نہیں چاہتے ہوں گے لیکن ہو گیا ۔ پاکستان کی پارلیمانی سیاسی جماعتوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کے لئے فوری طور پر کام کریں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی تاخیر نہ کی جائے ۔ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔ سب سے پہلے عوام کے مینڈیٹ کو چوری ہونے سے بچایا جائے ۔ اس کے لئے دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے اور جدید ٹیکنالوجی کو انتخابی عمل میں رائج کیا جائے ۔ پاکستان میں طویل عرصے سے مردم شماری بھی نہیں ہوئی ہے کیونکہ مردم شماری پر بھی غیر مرئی قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اگر ایک دو سالوں میں مردم شماری نہیں ہو سکتی ہے تو پھر نادرا کے اعداد و شمار کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا جائے اور اسی کی بنیاد پر مردم شماری کی جائے ۔ فوری طور پر ایسی نئی حلقہ بندیاں بھی کی جائیں ، جن سے تمام لسانی اور اقلیتی گروہوں سمیت آبادی کے تمام گروہوں کو ان کی جائز نمائندگی مل سکے ۔ صرف چیف الیکشن کمشنر شفاف انتخابات نہیں کرا سکتے ۔ پوری قوم کے ایک ایک فرد کو اس کام کے لئے اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہو گی ۔ ورنہ چیف الیکشن کمشنر کی دیانت داری ، غیر جانب داری اور عزم کے باوجود شفاف انتخابات نہیں ہو سکیں گے ۔
تازہ ترین