• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں ایف بی آر کی زبوں حالی کا کچھ تذکرہ کیا تھا کہ کس طرح گزشتہ ایک دہائی کی ناقابل عمل ریفارمز کے نتیجے میں اس ادارے میں بہتری کی بجائے مزید تنزلی ہوئی ہے۔ محاصل میں سالانہ اضافے کا تناسب وہی ہے، جو ہر سال اصل افراطِ زر کے برابر برابر ہوتا ہے جس سے محاصل میں بظاہر اضافہ دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقتاً ٹیکس کی جی ڈی پی سے شرح کم ہو رہی ہے۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ جس ملک میں سالانہ آمدن کا گوشوارہ داخل کرنے والوں کی تعداد کچھ سال پہلے 12/13لاکھ تک پہنچ گئی تھی، اب وہ گھٹتے گھٹتے آٹھ لاکھ رہ گئی ہے۔ یہ چار پانچ لاکھ افراد جو پہلے گوشوارہ داخل کرتے تھے، اب نہ تو گوشوارے داخل کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی پوچھنے والا ہے کہ جناب آپ کی آمدن اگر پہلے سے کم بھی ہو گئی ہے تو آپ گوشوارہ داخل نہ کرنے کا کیا جواز رکھتے ہیں۔ قانون میں گوشوارہ داخل نہ کرنے والوں کیلئے جرمانے حتیٰ کہ قید کیلئے عدالتی کارروائی کی بھی گنجائش موجود ہے مگر ایف بی آر والوں سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ ان چار پانچ لاکھ لوگوں کو کیوں جرمانے نہیں کئے گئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ عین بازار کے بیچ بیٹھا ایک کاروباری شخص اچانک اپنا گوشوارہ دینا بند کر دے اور کوئی اسے پوچھنے والا ہی نہ ہو۔ ہمارے ایک جاننے والے کوئی پانچ سال پہلے غالباً 2008ء کا گوشوارہ بروقت داخل نہ کر سکے، انہوں نے ہم سے مشورہ کیا تو ہم نے کہیں سے پوچھ کر انہیں یہ مشورہ دیا کہ وہ لیٹ گوشوارہ داخل کر دیں، اس سے کوئی خاص جرمانہ نہیں ہو گا۔ ابھی کچھ دن پہلے ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں نے 2008ء کے بعد گوشوارہ دینا بند کر دیا ہے۔ ہم حیران ہوئے کہ ان کا کاروبار تو ویسے کا ویسا بلکہ پہلے سے بہتر ہے، تو یہ کیوں گوشوارہ نہیں دے رہے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ 2008ء میں اتفاقاً گوشوارہ لیٹ ہو گیا تھا، اس وقت سے آج تک کسی نے نہ تو اس کا پوچھا ہے اور نہ ہی کوئی نوٹس ملا ہے، ایسے میں انہوں نے سوچا کہ ہر سال کیلئے یہ تردد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم ایسے میں اپنا سر پیٹنے کے علاوہ کیا کر سکتے تھے۔ کاش ایف بی آر کے حکام پاور پوائنٹ پریزنٹیشن سے باہر نکل کر زمینی حقائق کا ادراک کر سکیں تو صورتحال میں مثبت تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہماری اطلاع کے مطابق فنکشنل بنیادوں پر محکمہ کی جو تقسیم کی گئی ہے اس کے مطابق گوشوارے جمع کرنا اور ریکوری کرنا علیحدہ یونٹ کی ذمہ داری ہے اور آڈٹ کسی علیحدہ یونٹ کے ذمہ ہوتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ دونوں کا آپس میں رابطے کا فقدان ہے اور ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک ٹیکس گزار جس نے گوشوارہ داخل ہی نہیں کیا ہوتا، وہ کمپیوٹر میں قرعہ اندازی کے ذریعہ آڈٹ کیلئے چن لیا جاتا ہے۔ جب آڈٹ افسر کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے تو گوشوارہ داخل ہی نہیں کیا تو وہ گوشوارے کا نوٹس دینے کا مجاز نہیں ہے اور اسے اس کیلئے اپنے انفورسمنٹ افسر سے درخواست کرنا پڑتی ہے، اب اس کی مرضی ہے کہ وہ گوشوارہ کب منگواتا ہے۔ آڈٹ کے حوالے سے آج کل محکمہ میں ایک اور لطیفہ بھی قارئین کے علم میں اضافے کا باعث بنے گا۔ جو لوگ گوشوارہ داخل نہیں کرتے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، انہیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں اور جو گوشوارہ داخل کرتے ہیں، ان میںسے کچھ فیصد کو آڈٹ کیلئے منتخب کر لیا جاتا ہے، گویا انہوں نے گوشوارہ داخل کر کے کوئی بہت بڑی غلطی کر دی ہو۔ لطیفہ اس میں یہ ہے کہ محکمہ ہزاروں کی تعداد میں کیس آڈٹ کیلئے منتخب کر کے آڈٹ افسروں کو یہ ٹارگٹ دے رہا ہے کہ انہیں 50 فیصد کیس دو یا تین ماہ کی مدت میں مکمل کرنے ہیں، اس سے بسااوقات کچھ افسروں کو ایک مہینہ میں دو تین سو کیس مکمل کرنے پڑتے ہیں کیونکہ انہیں وارننگ دی گئی ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرینگے تو ان کی اضافی تنخواہ بند کر دی جائے گی۔ اب ایسے میں آڈٹ کیس کی جو کوالٹی ہو گی وہ کسی سے چھپی نہیں ہے۔ اس طرح آڈٹ کا سارا فلسفہ زیرو ہو کر رہ گیا ہے۔ آڈٹ تو ایسے ہونا چاہئے جیسے یورپ، امریکہ حتیٰ کہ پڑوسی ملک بھارت میں ہوتا ہے۔ جس کا ٹیکس آڈٹ ہوتا ہے وہ اپنے بچوں کو بھی نصیحت کر جاتا ہے کہ آمدن و اخراجات میں کوئی گڑبڑ نہ کرنا۔ جبکہ ہمارا آڈٹ ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ آخر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ ایک آڈٹ ٹیم کو سال بھر میں دس بارہ کیس آڈٹ کیلئے دئیے جائیں مگر وہ آڈٹ اس طرح کا ہو کہ چھپی ہوئی ایک ایک پائی کا حساب لیا جا سکے۔ جیسا کہ پچھلے کالم میں عرض کیا گیا ہے کہ ہمیں طارق باجوہ کے چیئرمین لگنے سے یہ امید بندھی تھی کہ وہ ایف بی آر میں خاطرخواہ تبدیلی لانے میں کامیاب ہوں گے مگر افسوس کہ باوجوہ ایسا نہیں ہو سکا۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سال سے اس ادارے کے سربراہ ہیں مگر اصلاح تو درکنار، وہ محکمہ میں اس تنزلی کا عمل بھی نہیں روک سکے جو کئی سال سے جاری ہے۔ ہم ان کی دیانتداری کے معترف ہیں لیکن کسی ادارے کو چلانے کیلئے محض دیانتداری ہی کافی نہیں ہوتی۔ یہ سچ ہے کہ ایف بی آر ایک بہت بڑا ادارہ ہے اور باجوہ صاحب نے اس قدر بڑے ادارے کی سربراہی اس سے پہلے نہیں کی، تاہم ان کے تجربے سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، وہ بدرجہ اتم ادھوری رہی ہیں۔ ان سے پہلی غلطی تو اپنی ٹیم کے انتخاب میں ہوئی۔ آئی آر ایس جو ایف بی آر کے محصولات میں انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی مد میں 75فیصد سے زیادہ حصہ رکھتا ہے، اس کا سربراہ ایک ایسے ممبر کو لگایا گیا ہے جو انکم ٹیکس سروس سے نہیں بلکہ کسٹم سروس سے ہیں۔ تاثر یہ ہے کہ انکم ٹیکس کے افسران نے انہیں دِل سے قبول ہی نہیں کیا اور حقیقی تعاون کی بجائے محض ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ باجوہ صاحب نے انہیں اپنا بیج میٹ اور ذاتی دوست ہونے پر اس پوسٹ کیلئے منتخب تو کر لیا مگر اب اس کا نقصان ہورہا ہے۔ایف بی آر کی ایک اور ناکامی ہر سال گوشوارے کا فارم کا بدلنا ہے۔ ہر سال کوئی سورما نئے خیالات کے ساتھ ایک فارم تشکیل دیتا ہے، اگست کے مہینہ تک وہ فارم مکمل نہیں ہو پاتا اور اس طرح ایف بی آر کو ہر بار گوشوارے جمع کروانے کی آخری تاریخ بڑھانا پڑتی ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس بار بھی فارم اتنا مشکل ہے کہ عام ٹیکس گزار اپنے کمپیوٹر کے محدود علم کے ساتھ اس کو نہیں بھر سکتا، نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکس بارز اور ایوان صنعت و تجارت کے احتجاج پر گوشوارے داخل کرنے کی آخری تاریخ تیسری بار بڑھا دی گئی ہے۔ کسی ادارے کیلئے کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ہر بار اس کا ترجمان اخباری بیان جاری کرے کہ آخری تاریخ نہیں بڑھائی جائے گی اور ہر بار تاریخ بڑھا دی جائے۔ اس سے نہ صرف محکمے کی ساکھ میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ وہ ٹیکس گزاروں کا اعتماد بھی کھو بیٹھا ہے۔ اس ساری توڑپھوڑ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جو کام ہو رہا تھا اب وہ بھی نہیں ہو رہا اور زبوں حالی چارسُو پھیلی ہے۔ محکمہ کے کچھ افسران تو دیہاڑی لگانے میں مصروف ہیں تو کچھ ڈیپوٹیشن لے کر دیگر اداروں میں جا بیٹھے ہیں۔ کسٹم سائیڈ کا حال بھی کچھ اچھا نہیں۔ اسمگلنگ عروج پر ہے، درآمد ہونیوالی اشیاء پر ڈیوٹی پیسے لے کر لگائی جاتی ہے۔ کنٹینرز جو کراچی سے آتے آتے گم گئے تھے اور کسی زمانے میں وفاقی ٹیکس محتسب اور سپریم کورٹ کے نوٹس لئے جانے پر اس کیس کا بہت چرچا ہوا تھا، اس کا کوئی نتیجہ عوام کی نظر سے نہیں گزرا۔ بغیر کسٹم پیڈ گاڑیاں سڑکوں پر گھومتی پھرتی ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہم حیران ہیں کہ اگر صوبائی محکمہ ایکسائز سڑک پر گاڑیوں کو روک کر ٹوکن ٹیکس چیک کر سکتا ہے تو کسٹم حکام کو ایسا کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ کیا ان کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ ایئرپورٹ پر آتے جاتے چیئرمین کو سیلوٹ کریں اور اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالے رکھیں۔ گاڑیوں کے حوالے سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایف بی آر نے نئی گاڑیوں کے مالکان کو نوٹس دینے شروع کر رکھے ہیں۔ اگرچہ اصولاً یہ ایک ضروری قدم ہے تاہم محکمہ کے افسران اپنی کارکردگی بنانے کی خاطر ان لوگوں کو بھی ٹیکس لگا رہے ہیں جنہوں نے یہ گاڑیاں اپنی زرعی آمدن یا باہر سے آنے والے روپے سے خریدی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ایف بی آر کسی ایک بنیاد پر کارروائی کرنے کی بجائے کسی شخص بارے تمام معلومات پر کچھ کام کر کے یہ کام متعلقہ افسران کے ذمہ لگائے، مثلاً اگر کسی شخص نے کوئی گاڑی خریدی ہے تو صرف اس کی گاڑی کی بنیاد پر نوٹس دینے کی بجائے اگر یہ چیک کر لیا جائے کہ اس کے کتنے بینک اکائونٹ ہیں اور کیا حالیہ سالوں میں اس نے کوئی پراپرٹی اپنے نام رجسٹر کروائی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ایک کاغذی کارروائی کی بجائے ایک حقیقی کارروائی بن سکتی ہے۔
گزشتہ کالم میں ہم نے یہ بھی بتایا تھا کہ کس طرح آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ان کی شرائط پر اصلاحات کی گئیں جس سے ملکی مجموعی پیداوار کے حوالے سے ٹیکس کی شرح انتہائی کم یعنی ساڑھے آٹھ فیصد پر آ گئی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک اسی طرح کے طریقے ہمارے دوسرے اداروں پر بھی آزماتے ہیں۔ بجلی کے ہوش رُبا نرخوں میں جو تیزی ہے وہ اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ قرضے دینے کیلئے ہر سال مطالبہ کیا جاتا ہے بلکہ کہ بجلی پر سبسڈی ختم کر کے بجلی کے ریٹ بڑھائے جائیں‘ یہی وجہ ہے کہ بجلی کے بل دیکھ کر عوام کی چیخیں نکل گئیں‘ فیکٹریاں بند ہو گئیں اور لاکھوں لوگ بیروزگار ہو گئے۔ یہی بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا مقصد ہے اور جس طرح ہمارے وزیر خزانہ ان کی شرائط پوری کرنے کیلئے وِدہولڈنگ ٹیکس لگوا رہے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے واپڈا کو بھی حکم دیا کہ حکومت کو کم از کم ایک کھرب روپے کے بجلی کے بلوں کی صورت میں محصولات چاہئیں اور واپڈا نے عوام پر بجلی گرا دی۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ ہماری پوری معیشت کس طرح قرض دینے والوں کے شکنجے میں دے دی گئی ہے۔ چونکہ ٹیکس محصولات جمع کرنے کا سب سے بڑا ادارہ ایف بی آر ہے اس لئےاصلاحات کے نام پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی نظر اس ادارے پر بھی ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ دوسرے ملکوں کے تجربات سے اپنے مخصوص حالات اور ملکی معیشت کا مقامی زمینی حالات کی روشنی میں تجزیہ کر کے استفادہ کیا جائے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے برعکس ہماری معیشت اور کاروبار کیش اکانومی پر مبنی ہے لہٰذا ہمیں اپنے نظام کو اپنے حالات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس کے نظام میں آر ٹی او اور ایل ٹی یو کے ساتھ فنکشنل ڈویژن کا نظام محض ایک نقالی ہے اور آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں جو اقدامات اور ٹیکس کے نظام کا جو ڈھانچہ تجویز کیا گیا تھا وہ بغیر کسی تبدیلی کے ہوبہو اسی طرح بنا دیا گیا۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء بھی ایک ایسے باہر سے آنے والے ماہر کا بنایا ہوا ہے جسے لاگو کرنے کے ایک مہینے کے اندر تقریباً چارسو ترامیم کرنا پڑیں اور اب تک تین ہزار کے لگ بھگ ترامیم ہو چکی ہیں جبکہ بھارت میں ٹیکس کے قوانین کو 1962ء میں لاگو کیا گیا اور اب تک اس میں تقریباً پانچ سو ترامیم ہوئی ہیں۔ ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہمارے اہم ترین ادارے غیرمعمولی کامیابی حاصل کرنے کی بجائے تیزی سے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔
تازہ ترین