• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے ٹی وی چینلز پر یہ خبر سنی اور اخبارات میں اس کی تفصیل پڑھی کہ بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض نے کراچی اور حیدرآباد میں دو یونیورسٹیوں کے قیام کا اعلان کیا ہے ۔ اس اعلان کا دونوں شہروں کے عوام اور وسیع تر حلقوں نے خیر مقدم کیا ہے۔میں بھی اس اعلان کو اس لیے قابل ستائش تصور کرتا ہوں کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ وسائل خرچ کرنیکی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جہاں تعلیم سمیت تمام سماجی شعبوں کو بہت نظر انداز کیا گیا ہے ۔ ملک ریاض صاحب سے میری زیادہ شناسائی نہیں ہے ۔ملک ریاض نے بڑا کام کیا ہے ، جسے سراہا جانا چاہئے ۔انھوں نے تعمیرات میں بڑے پروجیکٹ بنائے ہیں۔ جسکو ہم بین الاقوامی معیار کا کہہ سکتے ہیں۔ وہ Charityکا بہت کام کرتے ہیں۔ وہ دیگر سماجی شعبوں میں بھی کام کر رہے ہیں لیکن تعلیم کے شعبے کو ایسے مخیر حضرات کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے ۔ مذکورہ دونوں یونیورسٹیاں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے منسوب ہونگی ۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تعلیمی اداروں کے قیام کیلئے وسائل کون مہیا کر رہا ہے اور تعلیمی ادارے کس نام سے قائم کیے جا رہے ہیں ، یہ بات زیادہ اہم ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم ہو رہے ہیں۔ ان کا فائدہ نہ صرف پوری قوم کو ہو گا بلکہ آنیوالی نسلیں بھی فائدہ اٹھائیں گی۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے حکم پر وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے حیدر آباد میں یونیورسٹی کے قیام کیلئے حکومت کی طرف سے 50 ایکڑ زمین فراہم کرنیکا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ حیدر آباد میں یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ بہت دیرینہ تھا ۔ اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ حیدر آباد کے عوام کا یہ مطالبہ پورا ہونے والا ہے ۔
آج کی دنیا میں وہ قومیں ترقی کرتی ہیں ، جو سماجی شعبوں اور انسانی وسائل کی ترقی پر خرچ کرتی ہیں ۔ پاکستان میں سماجی شعبوں خصوصاً تعلیم پر بہت کم خرچ کیا جاتا ہے ۔ اگر دنیا کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو انتہائی افسوس ناک حقائق سامنے آتے ہیں ۔ اعداد و شمار سےیہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان کو ایک سکیورٹی اسٹیٹ بنایا جارہا ہے ، جہاں دفاع پر سماجی شعبوں سے زیادہ اخراجات ہوتے ہیں ۔ اگر مجموعی ملکی پیداوار ( جی ڈی پی ) کے تناسب سے تعلیم پر ہونیوالے اخراجات کا حساب لگایا جائے تو پاکستان دنیا کے180مالک میں سے 157 نمبر پر آتا ہے جبکہ جی ڈی پی کے تناسب سے دفاع پر ہونے والے اخراجات کے حوالے سے پاکستان پہلے 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے ۔ دنیا کی6ایٹمی طاقتوں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، چین ، جاپان اور بھارت جی ڈی پی کے تناسب سے دفاع کے مقابلے میں تعلیم پر زیادہ اخراجات کرتے ہیں ۔ امریکہ اپنے جی ڈی پی کا 5.5 فیصد تعلیم پر جبکہ تقریباً 4.7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے ۔ برطانیہ اپنے جی ڈی پی کا 5.5 فیصد تعلیم پر جبکہ2.5فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے ۔ فرانس تعلیم پر 5.6 فیصد اور دفاع پر 2.4 فیصد ، چین تعلیم پر 4.3فیصد اور دفاع پر2.1فیصد ، جاپان تعلیم پر3.5فیصد اور دفاع پر1.0فیصدجبکہ بھارت اپنے جی ڈی پی کا 3.1 ایک فیصد تعلیم پر اور 2.7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے ۔ ان ملکوں کی معیشت کا حجم بہت بڑا ہے ۔ پاکستان بھی ایک ایٹمی طاقت ہے ۔ یہاں کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے ۔ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا 2.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے (اس میں تعلیم پر صوبوں کے بجٹ بھی شامل ہیں ) جبکہ دفاع پر تقریباً 3.4 فیصد خرچ کرتا ہے ۔ بنگلہ دیش بھی تعلیم پر دفاع سے زیادہ خرچ کرتا ہے ۔ وہاں تعلیم پر 2.4 فیصد اور دفاع پر 1.5 فیصد خرچ ہوتے ہیں ۔ کچھ حیرت انگیز اعدادو شمار پیش کرنا بھی یہاں مناسب ہو گا ۔ خانہ جنگی کا شکار افریقی ملک اپنی تعلیم پر ڈی جی پی کا 4.1 فیصد اور دفاع پر 1.3 فیصد خرچ کرتا ہے ۔ لاطینی امریکہ کے ملک کیوبا کو خطے میں سب سے زیادہ سکیورٹی خطرات رہے ہیں ۔ وہاں تعلیم پر جی ڈی پی کا 13.6 فیصد اور دفاع پر 3.3 فیصد خرچ کیا جاتا ہے ۔ افریقی ملک ایتھوپیا کی لیڈر شپ کو بھی ہوش آ گیا ہے ۔ وہاں تعلیم پر جی ڈی پی کے 5.5فیصد اخراجات ہوتے ہیں جبکہ دفاعی اخراجات کا تناسب صرف 0.9فیصد ہے ۔ تنزانیہ جیسا افریقی ملک تعلیم پر 6.8 فیصد اور دفاع پر 1.2 فیصد خرچ کرتا ہے ۔ ہمارے ایشیاء کا ایک چھوٹا سا ملک مالدیپ تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا 11.2 فیصد خرچ کرتا ہے ۔ جن ملکوں کا صرف تعلیم کا بجٹ دفاع سے زیادہ ہو گا ، وہاں صحت اور دیگر شعبوں کے بجٹ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ کچھ آنکھیں کھول دینے والے اعداد و شمار بھی پیش کیے جا رہے ہیں ۔ جن ملکوں میں دفاع کا بجٹ تعلیم سے زیادہ ہے ، ان ملکوں میں زیادہ تر ایسے مسلمان ممالک شامل ہیں ، جو قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں یا جن میں بڑی معاشی طاقت بننے کی صلاحیت موجود ہے ۔ ان ملکوں کو اس طرح عالمی سیاست کے جال میں پھنسایا گیا ہے کہ وہ سیکورٹی اسٹیٹ بن گئے ہیں ۔ ان میں ایک ملک تو پاکستان ہے ۔ دوسرا ملک سعودی عرب ہے ، جہاں تعلیم پر جی ڈی پی کا 5.6 فیصد اور دفاع پر تقریباً 9 فیصد خرچ ہوتا ہے ۔ ایک اور ریاست متحدہ عرب امارات ( یو اے ای ) ہے ، جہاں تعلیم پر 1.2 اور دفاع پر تقریباً 6 فیصد خرچ ہوتا ہے ۔ افغانستان میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.9 فیصد اور دفاع پر 6.2 فیصد خرچ ہوتا ہے ۔ ایران ایسے ملکوں میں شامل نہیں ہے، جسے ہم سے زیادہ سکیورٹی خطرات ہیں ۔ وہاں تعلیم پر 4.7 اور دفاع پر 2.2 فیصد خرچ ہوتا ہے ۔ غیر مسلم ممالک میں اسرائیل واحد ملک ہے ، جہاں دفاع اور تعلیم کے اخراجات تقریباً یکساں ہیں ۔ وہاں تعلیم پر جی ڈی پی کا 5.9 فیصد اور دفاع پر تقریباً 6.0 فیصد خرچ کیا جاتا ہے ۔ ان اعداد وشمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دنیا تعلیم پر کس طرح خصوصی توجہ دے رہی ہے اور ہمیں کس طرح اسٹرٹیجک مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے ۔
ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ وہ قومیں آگے بڑھ رہی ہیں ، جو بہتر علم ، ٹیکنالوجی، ہنر اور جدید تجربات سے تسخیر کائنات کر رہی ہیں ۔ علم و ٹیکنالوجی کسی کی میراث نہیں ہیں ۔ یہ پوری انسانیت کا سرمایہ ہیں ۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اسے کون کتنا استعمال کرتا ہے ۔پاکستان ایک بڑا اسٹرٹیجک پوزیشن والا ملک ہے لیکن یہاں کی لیڈر شپ کا وژن نہیں ہے ۔70 ء کی دہائی تک تعلیم کا معیار ٹھیک تھا ۔ میں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو شہید کا بڑا شیدائی ہوں ، وہ عظیم لیڈر تھے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تعلیمی اداروں کی نیشنلائزیشن کا عمل درست نہیں تھا ۔ اس سے تعلیم میں انحطاط شروع ہوا اور آج انتہا یہ ہے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونیوالے بچوں میں لکھنے پڑھنے کی بنیادی صلاحیت بھی نہیں ہے ۔آج ہم گھوسٹ ٹیچرز اور گھوسٹ اسکولوں کی اصطلاحیں سن رہے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کی عمارتیں ڈیرے اور باڑے بنی ہوئی ہیں ۔ تعلیم کیلئے جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے ، اس میں زیادہ تر تنخواہوں میں چلا جاتا ہے اور تنخواہیں لینے والے بچوں کو پڑھاتے نہیں ہیں ۔ باقی بجٹ میں سے آدھا کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے ۔
ملک میں قدرتی آفات یا ہنگامی حالات کی صورت میں سماجی شعبوں کے بجٹ میں کٹوتی کرکے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں ۔ ہم تعلیم پر اخراجات اور تعلیم کے معیار کے حوالے سے افریقی ممالک سے بھی بہت پیچھے جا رہے ہیں ۔ پاکستان میں شرح خواندگی 69 فیصد ہے جبکہ کیوبا ، مالدیپ اور سری لنکا جیسے ملکوں میں 99 فیصد ہے ۔ تعلیم کے انحطاط کا مطلب یہ ہے کہ ہم سماجی ، تہذیبی اور ثقافتی طور پر بھی انحطاط کا شکار ہو رہے ہیں اور اس کا اندازہ لوگوں کے سماجی رویوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔ تعلیم میں انحطاط کی وجہ سے ہم انسانی وسائل کو بھی ترقی نہیں دے سکتے ۔ انسانی وسائل کی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمیں آئندہ 20سالوں میں کتنے ڈاکٹرز، انجینئرز ، وکلاء ، مکینکس ، ماہرین زراعت اور دیگر شعبوں کے لوگ چاہئیں ۔ آج کے دور میں تو اسپیشلائزیشن پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ ان حالات میں اگر ملک ریاض جیسے لوگ تعلیم کے شعبے میں آگے آتے ہیں تو ان کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے ۔ قبل ازیں حکیم سعید، آدم جی ، داؤد ، عبداللہ ہارون اور حبیب فیملی سمیت دیگر لوگوں نے تعلیم میں بہت خدمت کی ہے ۔ قیام پاکستان سے پہلے پارسیوں اور ہندؤوں نے اس شعبے میں بڑا کام کیا ہے ۔ ان کا کام آج بھی جاری ہے ۔ جو لوگ تعلیم کو کاروبار کی بجائے مشن کے طور پرچلاتے ہیں ۔ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے ۔ پاکستان میں تعلیم ، صحت اور دیگر سماجی شعبوں میں بہت زیادہ وسائل خرچ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ ’’ تعلیم سب سے زیادہ طاقت ور ہتھیار ہے ، جس سے آپ دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں ‘‘۔
تازہ ترین