• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت خوش کن اقدام ہے۔ ضرورت بھی تھی اور دیرینہ مطالبہ بھی۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہر، حیدرآباد میں یونیورسٹی قائم کرنے کے اعلان کا سب نے ہی خیر مقدم کیا۔ کرنا بھی چاہئے تھا۔اس بھولے بسرے شہر کے باسیوں کا ایک یونیورسٹی کے قیا م کا مطالبہ انگریزی محاورے کے مطابق بہرے کانوں پر گرتا رہا تھا۔ سننے والا کوئی نہیں تھا۔ نظرانداز کرنے والے وہ سب جو صاحبان اقتدارو اختیار ہیں۔ کسی کا ارشاد تھا کہ یونیورسٹی ان کی لاش پر ہی بن سکتی ہے۔ تعلیم سے اتنا بغض، اور اس کا بے محابہ اظہار، ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے۔ ایسے میں یہ اعلان ہواکہ حیدرآباد میں یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔ بہت سے دلوں میں امید کی کونپلیں پھوٹیں، بہت سے دل جلوں کے ارمانوں پہ اوس پڑ گئی۔
مگر . . .بات اتنی سادہ اور سیدھی نہیں ہے۔ کپ سے ہونٹوں تک کافی فاصلہ ہے۔ اس میں کئی مشکل مقام آتے ہیں، اور کئی گفتہ اور ناگفتہ باتیں بھی۔ حیدرآباد کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ وہاں ایک سرکاری یونیورسٹی قائم کی جائے، جس طرح کبھی یہاں سندھ یونیورسٹی تھی، جو دوسرے ضلع جامشورو منتقل کردی گئی، اور جس طرح سندھ کے بعض دوسرے شہروں میں یہ اچھا کام کیا گیا کہ وہاں یونیورسٹیاں قائم کردی گئیں۔ نجی شعبہ میں یہاں کئی یونیورسٹیاں قائم ہیں، یا یونیورسٹیوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ کے کچھ ادارے قائم ہیں۔ جب سے تعلیمی اداروں کی ’’لوٹ سیل‘‘ لگی ہے، جس کی انٹی میں چند روپے ہوں وہ نام نہاد انگلش میڈیم اسکول کھول لیتا ہے۔ اور جن کی ہوس زیادہ ہے وہ کالج اور یونیورسٹی کا ڈول ڈالتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا ہے نہیں۔ نگرانی کے کوئی اصول، ضابطے نہیں ہیں۔ جس کا جو جی چاہے کرے۔ اسکول والے چھوٹے چھوٹے بچوں کی کمر پر ان کی استعداد سے کہیں زیادہ بوجھ لاددیں تو کسے پرواء۔ اس بوجھ میں زیادہ وزن ان کتابوں، کاپیوں کا ہے جو اسی اسکول نے ان بچوں کے والدین کو زبردستی فروخت کی ہیں۔ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ ان کے اسکول میں پڑھانا ہے تو ان کے اسکول سے ہی کاپیاں اور کتابیں خریدنی ہوں گی۔ اور انہیں بچوں کی کمر پہ لادنا ہوگا۔ پچھلی صدی میں اس تجویز پر بات ہوئی تھی کہ نچلی کلاسوں کے طلبہ کے لئے بس ایک دو کتابیں ہونگی۔ اس تجویز کا پتہ نہیں کیا ہوا۔ کسے فرصت کہ اس پر غور کرے۔ ان کے اپنے بچے تو ویسے ہی اعلیٰ اسکولوں میں پڑھتے ہیں ، ان کی دنیا الگ، ان کے معاملات کا عام آدمی کی مشکلات سے کیا تعلق۔ یونیورسٹیوں میں ، یعنی نجی شعبے میں قائم یونیورسٹیوں میں بس ڈگریاں بانٹی جاتی ہیں، خاصی بڑی رقم کے عوض۔ تعلیم کے نام پر ان کے یہاں بس وقت گزاری ہے۔ بعض شعبوں کے سربراہ’ اساتذہ‘ کا صحیح تلفظ بھی ادا نہیں کرسکتے، حالانکہ وہ جس شعبے سے وابستہ ہیں وہ ابلاغ کا شعبہ ہے۔ سرکار نے جس طرح اپنے بہت سے بنیادی کام چھوڑ دیئے ہیں تعلیم سے بھی اسے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایسی بھی یونیورسٹیوں کو چارٹر عطا کردیا جاتا ہے جو صرف چندکمروں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ متعلقہ افسران کی ’ہتھیلی پر گریس‘ لگادیں چارٹر ہاتھ میں اور لوٹ کھسوٹ کی کھلی چھوٹ۔
اسی لئے مطالبہ سرکاری یونیورسٹی قائم کرنے کا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر کسی نے حیدرآباد میں یونیورسٹی قائم کرنے کا اعلان کیا تو یہ خوش آئند بات ہے ۔ مگر کئی معاملات ابھی ہی طے کر لئے جانے چاہئیں۔ پہلی بات یہ کہ ساری زمین یونیورسٹی کے لئے استعمال ہونی چاہئے۔ کراچی یونیورسٹی کی زمین پر بلڈر مافیا نے قبضہ کرلیا تھا۔ بہت دنوں تک تو پتہ ہی نہیں چلا، نقشے ہی موجود نہیں تھے۔ جب پتہ چلا تو وہاں پلازے کھڑے ہو چکے تھے، چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔ یہاں ایسا نہ ہو تو اچھا ہے، شاید نہ ہو، مگر دل میں وسوسے اور اندیشوں کے اژدھے، بوجوہ سر اٹھاتے رہتے ہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تابناک ماضی کے حامل اس شہر میں ایک سرکاری یونیورسٹی قائم کرے۔ نجی شعبہ کی یونیورسٹی سے معاملہ بس کسی حد تک ہی حل ہو سکتا ہے۔ کوئی بھی شخص، خواہ وہ بحریہ ٹائون کے ملک ریاض ہی کیوں نہ ہوں، کب تک ایک یونیورسٹی کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں۔ کسی نہ کسی مرحلے پر، بالآخر سرکاری امداد کی ضرورت پڑے گی۔ سرکاری امداد صرف سرکاری شعبہ میں قائم یونیورسٹیوں ہی کو دی جاتی ہے۔ اُس کا ایک نظام ہے۔ نجی شعبہ اُ س سے فیضیاب نہیں ہوتا، نہ اسے ہونا چاہئے۔ پھر معاملہ ایک یونیورسٹی کا نہیں۔ یہاں میڈیکل یونیورسٹی بھی نہیں ہے اور انجینئرنگ یونیورسٹی بھی جامشورو میں ہی ہے۔ وہ بھی تو آخر اس شہر کی ضرورت ہیں۔ وہ کون بنائے گا؟ کہا تو یہ گیا ہے کہ اس یونیورسٹی کی فیس سرکار ی شعبے سے کم ہوگی۔ یہ ایک مشکل کام ہے۔ یونیورسٹی کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے بتایا کہ نذیرحسین یونیورسٹی پر وہ چالیس کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں مگر یونیورسٹی چل نہیں پا رہی۔ الف اعلان نے جو تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی ایک این جی او ہے، انہیں مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ذرا تھوڑا سا ماضی میں جا کر دیکھیں تو جنرل ضیاء الحق نے ایک اسپتال کوتیس سال پہلے تیس کروڑ روپے کی سرکاری زمین مفت دیدی تھی (اب یہ زمین اربوں روپے کی ہے)۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ غریبوں کو مفت علاج فراہم کیا جائے گا۔ ایسا ہوا نہیں۔ اس اسپتال نے مزید زمین پر قبضہ کرلیا، معاملہ عدالت میں گیا، مگر اب تک لٹکا ہوا ہے۔ رہا غریبوں کا مفت علاج، تو پتہ نہیں وہ کون سے غریب ہیں جو اس اسپتال سے مفت علاج کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ مفت علاج کی شرائط کیا ہیں کیا آپ کو علم ہے؟ کسی کو علم ہے؟ جس بات کا علم ہے وہ یہ کہ وہاں دونوں ہاتھوں سے لوگوں سے مال بٹورا جاتا ہے، ان کی کھال اتاری جاتی ہے۔ وہاں کے ایک کمرے کا کرایہ کسی بھی پانچ ستارہ ہوٹل کے ایک کمرے کے کرائے سے زیادہ ہے، جبکہ اس کمرے کی سہولت، کسی بھی تیسرے درجے کے ہوٹل سے زیادہ نہیں ہے۔ مریض مر جائے تو رقم لئے بغیر لاش بھی نہیں دیتے۔ مرنے والا ہو تو ventilator تجویز تو کردیاجاتا ہے، مگر فراہم نہیں کیا جاتا۔ آپ اپنے مریض کو، اس بری حالت میں، کہیں اور لے جائیں۔ ان کا ریکارڈ خراب نہ ہو۔
ضروری نہیں کہ حکومت الطاف حسین یونیورسٹی کے لئے جو پچاس ایکڑ زمین دے رہی ہے وہاں قائم یونیورسٹی بھی اس اسپتال کے نقشِ قدم پر چلے۔ ممکن ہے، اور یہ امید رکھنے میں کوئی حرج نہیں، کہ نجی شعبہ کی یہ یونیورسٹی ایک مثالی ادارہ بن جائے۔ مگر ذاتی اطلاع کی بنیاد پر عرض ہے کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی بنانے کے لئے، کور کمانڈر نے گورنر سندھ، ڈاکٹر عشرت العباد کو زمین دینے کی پیش کش کی تھی۔ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ چارٹر لے لیں، زمین انہیں فراہم کردی جائے گی۔ ابھی یہ اندازہ نہیں کہ سندھ حکومت الطاف حسین یونیورسٹی کے لئے جو زمین دے رہی ہے وہ کہاں ہے اور یہ وہی زمین تو نہیں جو کور کمانڈر گورنر سندھ کو فراہم کر رہے تھے۔ اگر ایسا ہے تو یہ کوئی بہت دانشمندانہ کام نہیں۔ کور کمانڈر اپنے وعدے کے مطابق زمین گورنر سندھ کو فراہم کریں، اور گورنر سندھ یونیورسٹی کا چارٹر لیں اور سرکاری شعبہ میں یونیورسٹی کے قیام کے منصوبے کو آگے بڑھائیں۔ حکومتوں کو اپنے قوتِ بازو پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ خاص خاص حالات میں ، نجی شعبہ کا تعاون مفید ثابت ہو تا ہے۔ مگر اس طرح حکومت اپنی ذمہ داری سے جان نہیں چھڑاسکتی۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ حیدرآباد میں سرکاری یونیورسٹی کے قیام کے لئے جدوجہد جاری رکھنی چاہیئے۔ الطاف بھائی بھی اپنی آواز بلند کرتے رہیں، مقصد کے حصول تک۔
تازہ ترین