• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات کے حوالے سے مسلسل خبریں شائع ہو رہی ہیں ۔ ان خبروں میں پیپلز پارٹی کے اندر دھڑے بندیوں کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی اپنے والد آصف علی زرداری کے ساتھ اختلافات کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں ۔ کیا ان خبروں میں کوئی صداقت ہے یا صرف کچھ مخصوص حالات کی وجہ سے خبر نگاروں کو قیاس آرائیاں کرنے کا موقع ملا ہے ؟ جہاں تک پیپلز پارٹی میں اندرونی دھڑے بندیوں یا کچھ رہنماؤں کے قیادت کے ساتھ اختلافات کی بات ہے ، اس کی تصدیق پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے لاہور کے بلاول ہاؤس میں منعقدہ پارٹی کے یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خود کر دی ہے ۔ انہوں نے پارٹی کے رہنماؤں کو سختی سے کہا ہے کہ وہ اپنی دھڑے بندیاں ختم کر دیں ۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ جو پارٹی چھوڑ کر جانا چاہتا ہے ، وہ فوراً چلا جائے ۔ آصف علی زرداری کی اس بات کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ جنوبی پنجاب سے پیپلز پارٹی کے تین اہم رہنما سیف الدین کھوسہ ، نیاز جکھڑ اور بہادر خان سیہڑ پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ پنجاب ، خیبر پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان میں بھی پارٹی کے اندر دھڑے بندیوں کی خبریں سامنے آ رہی ہیں ۔ جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کی اپنے والد سے اختلافات کی خبروں کا تعلق ہے ، ان کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہو گا ۔ بعض حلقے آصف علی زرداری کے اس بیان سے اپنی مرضی کا مفہوم نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ بلاول ابھی بچہ ہے ، وہ جلد ناراض ہو جاتا ہے ‘‘ ۔ یوم تاسیس کی تقریبات میں بلاول بھٹو کی عدم شرکت پر بھی مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں ۔ اس پر بھی آصف علی زرداری کے بیان کا حوالہ دیا جا رہا ہے ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’بلاول اگر یوم تاسیس کے اجتماع سے خطاب کرتے تو کچھ اور لوگ ناراض ہو جاتے ‘‘ ۔ اس بیان سے کچھ حلقے یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ باپ اور بیٹے کے درمیان پالیسی ایشوز پر اختلافات ہیں اور آصف علی زرداری یہ نہیں چاہتے کہ بلاول بھٹو زرداری بعض ایشوز پر سخت موقف اختیار کریں ، جو ان حلقوں کے خیال میں مفاہمتی پالیسی کے خلاف ہو ۔ ان باتوں کے باوجود باپ اور بیٹے کے درمیان اختلافات کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ۔ اصل حقائق کو سمجھنے کے لیے ہمیں دنیا خصوصاً اس خطے کے سیاسی خانوادوں ( Political Dynasties ) کی تاریخ اور پیپلز پارٹی کی اپنی تاریخ کا مختصر جائزہ لینا ہو گا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ صرف تیسری دنیا ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں بھی ’’ Political Dynasties ‘‘ موجود ہوتی ہیں ۔ مثلاً سرد جنگ کے زمانے میں امریکی صدر آئزن ہاور کی کابینہ میں وزیر خارجہ جان فوسٹر ڈولاس تھے ۔ ان کے سگے بھائی ایلن فوسٹر ڈولاس سی آئی اے کے چیف تھے ۔ یہ دونوں بھائی سرد جنگ کے معمار تصور کیے جاتے ہیں ۔ ان کے سگے ماموں پہلی جنگ عظیم میں وزیر خارجہ تھے اور ان کے دادا 19 ویں صدی میں وزیر خارجہ تھے ۔ بش ڈائنیسٹی اب تک چل رہی ہے ۔ ہمارے خطے میں بھارت میں نہرو ڈائنیسٹی ، سری لنکا میں بندرا نائیکے ڈائنیسٹی ، فلپائن میں اکینو ڈائنیسٹی اور بنگلہ دیش میں مجیب ڈائنیسٹی کا نہ صرف اپنے اپنے ملکوں بلکہ دنیا کی سیاست میں اہم کردار ہے ۔ جب ایک ڈائنیسٹی کسی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے تو اس طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ بھارت میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نہرو ڈائنیسٹی کا وارث اپنے بیٹے سنجے گاندھی کو تصور کرتی تھیں لیکن سنجے ایک حادثے میں چل بسے اور یہ ڈائنیسٹی راجیو گاندھی کے پاس چلی گئی ۔ سنجے گاندھی کی بیوہ مانیکا اور بیٹا ارون گاندھی کی کوششوں کے باوجود راجیو گاندھی اور ان کی اولاد کی جگہ نہ لے سکے ۔ سری لنکا میں بندرا نائیکے کی بیٹی چندریکا کمار تنگا اور ان کے بیٹے انورا بندرا نائیکے کے درمیان پارٹی کو چلانے کے لیے کشمکش رہی ہے ۔ ان سیاسی خانوادوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بہن بھائیوں اور کزنز کے درمیان تو پارٹی یا سیاسی ورثے کو چلانے پر اختلافات رہے ہیں ۔ جیسا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کے درمیان اختلافات رہے ہیں لیکن یہ اختلافات دشمنی نہیں ہوتے ہیں ۔ سیاسی خانوادوں کی تاریخ میں باپ اور بیٹے کے درمیان یا باپ اور بیٹی کے درمیان کبھی ایسے اختلافات نہیں رہے ہیں ۔ فلپائن کے مقبول لیڈر بے نگنو اکینو کا صرف ایک ہی بیٹا تھا ۔ لہذا ان میں کبھی کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا ۔ شیخ مجیب الرحمن کی دو صاحبزادیاں تھیں ۔ حسینہ واجد اور ریحانہ شیخ ۔ شیخ مجیب نے حسینہ واجد کو اپنے وارث کے طور پر تیار نہیںکیا تھا بلکہ وہ اپنے بیٹے کمال اور جمال کو آگے لاناچاہتے تھے۔چنانچہ ریحانہ واجد کبھی بہن کے مقابلے میں نہیں آئیں ۔ لہذا بنگلہ دیش میں اس ڈائنیسٹی میں کوئی اختلافات پیدا نہیں ہوئے ۔ اسی طرح سونیا گاندھی کے اپنے بیٹے راہول گاندھی کے ساتھ کبھی اختلافات پیدا نہیں ہوئے ۔ سری لنکا میں بندرا نائیکے ڈائنیسٹی ختم ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے کیونکہ چندریکا کمارا تنگا اپنے بچوں کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں ۔ ڈائنیسٹیز میں باپ اور بیٹے کے درمیان اختلافات کی کوئی مثال نہیں ہے ۔ پاکستان میں بھی بھٹو ڈائنیسٹی کے نئے وارث بلاول بھٹو زرداری کے اپنے والد کے ساتھ اختلافات کا کوئی نہ تو جواز نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی بات ہو سکتی ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھٹو ڈائنیسٹی کو چلانے کی تمام تر ذمہ داری آصف علی زرداری کے کندھوں پر آن پڑی تھی ۔ انتہائی غیر معمولی صورت حال میں پیپلز پارٹی کی قیادت مجبوراً تبدیل ہوئی ۔ جس طرح ہر ڈائنیسٹی میں قیادت تبدیل ہونے پر کچھ مسائل پیدا ہوتے ہیں ، اسی طرح پیپلز پارٹی میں بھی مسائل پیدا ہوئے ۔ آصف علی زرداری اپنی نئی ٹیم لے کر آئے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جو ٹیم تھی ، اس کی پارٹی امور میں مداخلت کم یا ختم ہو گئی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے آخری دنوں میں یہ محسوس کر لیا تھا کہ پیپلز پارٹی میں کچھ لوگ اسٹیبلشمنٹ کے لیے کام کر رہے ہیں اور انہوں نے اس ضمن میں ’’ چار کے ٹولے ‘‘ کی بھی نشاندہی کی تھی ۔ وہ اس ٹولے کو ’’ آب پارہ کے لوگ ‘‘ کہتی تھیں ۔ انہوں نے پارٹی میں تطہیر کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن ان کی شہادت کی وجہ سے یہ کام ادھورا رہ گیا ۔ اگرچہ آصف علی زرداری نے بھی ان لوگوں سے دور رہنے کی کوشش کی لیکن وہ ان لوگوں کو اپنے قریب نہ لا سکے ، جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے بہت قریب تھے ۔ اس مختصر کالم میں صرف اتنا ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں پارٹی کا صفایا کرنے کی سازشوں کا مقابلہ نہ کیا جا سکا ۔ اب جب کہ بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کی قیادت سونپی گئی ہے، پارٹی کے پرانے لوگوں نے دوبارہ اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ ان کی اس کوشش کا کچھ حلقوں کی طرف سے ردعمل بھی سامنے آیا ہے ، جس کی وجہ سے دھڑے بندیاں واضح ہونے لگی ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ کی طرح اپنے موقف کو پیش کرنے میں سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں لیکن میرے خیال میں آصف علی زرداری کے لیے یہ بات کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ پارٹی میں نرم گرم چلتا رہتا ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں پارٹی کے بعض لوگ امریکا کے حق میں بات کرتے تھے اور بعض لوگ بڑھ چڑھ کر امریکا کی مخالفت کرتے تھے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی کے سینئر اور نظریاتی کارکن مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ کچھ عرصے سے پارٹی میں انہیں مناسب جگہ اور کردار نہیں مل سکا ہے ۔ اگر بلاول بھٹو زرداری انہیں پارٹی میں جگہ دے رہے ہیں تو ان کے خلاف پارٹی کے کچھ حلقوں کی مزاحمت کو بہت احتیاط سے کنٹرول کرنا چاہئے ۔ تیسری دنیا کی تمام پولیٹیکل ڈائنیسٹیز واپس نظریاتی سیاست کی طرف آ رہی ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ عوام دشمن اور سامراج نواز قوتوں نے اپنے پنجے سیاست میں مضبوطی سے گاڑھ لیے ہیں اور وہ بہت طاقتور ہو چکے ہیں ۔ ان کا مقابلہ وسائل اور عسکری محاذ پر نہیں کیا جا سکتا ۔ صرف نظریاتی سیاست سے ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین