• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کو درپیش بنیادی چیلنجوںمیں ، عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کو شکست دینا، معیشت کی بحالی، توانائی بحران کو حل کرنا، بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا اور ہماری آبادی میں نوجوانوں کی کثرت کو جذب کرنے کے لئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرناشامل ہیں تاکہ آبادیاتی تباہی کے منڈلاتے خطرے سے بچا جاسکے۔ قومی سلامتی پر ان مسائل کے مضمرات واضح ہیں جن سے صرف نظر کرنے کے نتیجے میں شدید خطرہ پیش آسکتا ہے۔لہٰذا پاکستان کے مستقبل کے لئے زیادہ نتیجہ خیز اسٹریٹیجک چوائسز کا تعلق ان اندرونی چیلنجوں سے ہے۔ تاہم اندرونی چیلنج کئی طریقوں سے پاکستان کے بیرونی ماحول سے بھی منسلک ہیں، اس لئے کہ ایک پرامن پڑوس پاکستان کے لئے انتہائی ضروری ہے تاکہ گہری جڑیں بنائے ہوئے ملکی مسائل کو بلارکاوٹ اور یکسوئی کے ساتھ حل کرنے پر توجہ دی جاسکے۔بدقسمتی سے، محل وقوع کے ظلم یعنی انتشار کا شکار پڑوس اور جغرافیائی سیاست کی مرکزی فالٹ لائنز اور تاریخ کے بوجھ کی وجہ سے پاکستان کے قومی ایجنڈے میں سلامتی کا مسئلہ مسلسل سرفہرست رہا ہے۔ یہ صورتحال آج بھی جوں کی توں ہے۔
پاکستان کو آج متعدد رسمی اور غیر یکساں، روایتی اور غیر روایتی چیلنجوں،سخت اورنرم خطرات کا سامنا ہے۔بیرونی طور پر پاکستان کے جڑواں چیلنج اس کے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات ہیں۔ دونوں محاذ پائیدار سیکورٹی مخمصوں کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان کئی سال سے دو محاذوں پر الجھنے سے بچنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔اس سیکورٹی مخمصے کا تازہ ترین مظہر لائن آف کنٹرول پرموجودہ کشیدگیاں اور پوری ورکنگ باؤنڈری پر ہونے والی فائرنگ ہے جو ایسے وقت ہورہی ہے جب پاکستانی فوج مغربی محاذ پر الجھی ہوئی ہے اور اپنی سرحدوں میں عسکریت پسندی سے جنگ میں مصروف ہے۔ان دونوں تعلقات پر بات کرنے سے قبل عالمی ماحول کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ ماحول عدم استحکام کا شکار اور تغیر پذیر ہے، جس کے ساتھ عالمی طاقت کی منتقلی دنیا بھر میں تعلقات کو دوبارہ ترتیب دے رہی ہے۔ غالب رجحان تعاون کی بجائے مقابلے بازی کا ہے۔
عظیم طاقت کی جغرافیائی سیاست دوبارہ سے سر اٹھارہی ہے، جس کا اشارہ بڑی طاقتوں کے مابین بڑھتی ہوئی مقابلے بازی سے ہوتا ہے۔ درحقیقت بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگیوں نے عالمی عدم استحکام کا خطرہ بہت بڑھا دیاہے۔ہمارے وقت کے تین بڑے عالمی اسٹرٹیجک معاملات پاکستان کی سلامتی کیلئے براہ راست اثرات کے حامل ہیں۔ اول، مشرق وسطیٰ میں پھیلتا ہوا بحران جو عرب دنیا میں جنگ عظیم کے مابعد نظام کی تباہی کے بعدگہرا ہوگیا؛ دوم، چین کا عروج اور ایشیا کے گرد امریکی محور جس کی وجہ سے اس براعظم میں ایک نیا گریٹ گیم شروع ہوگیا؛ اور سوم، سرکش روس اور مغرب میں نئی کشیدگیاں جنھیں زیادہ تر لوگ ایک نئی سرد جنگ قرار دے رہے ہیں۔دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کے عسکریت پسندوں سے لاحق خطرے اور ہمارے خطے میں اپنے اتحادی اور جنگجو تلاش کرنے کی اس کی کوششوں کو پاکستان کے سیکورٹی منصوبہ سازوں نے نہایت سنجیدگی سے لیا ہے، اگرچہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن اور ملک کے دیگر حصوں میں کارروائیوں کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کے لئے گنجائش مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔امریکی محور بھی پاکستان کے سیکورٹی چیلنجوں کے لئے کافی نتیجہ خیز ہے۔ یہاں اور ایشیا میں دیگر جگہوں پر تصور موجود ہے کہ اس محور کا مقصد چین کے عروج کی روک تھام کرنا ہے، حالانکہ امریکہ نے بیک وقت بیجنگ کے ساتھ معاشی سلسلہ جنبانی کوبھی جاری رکھا ہوا ہے۔اگر اس پالیسی میں چین کا توڑ کرنے کے لئے بھارت کو کھڑا کرنے کی کاوش بھی شامل ہے تو اس کے جنوبی ایشیاء کے استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارت کو جدید ہتھیار اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے امریکی منصوبوں کی وجہ سے پاکستان اور بھارت میں بڑھتے ہوئے روایتی اور اسٹرٹیجک عدم تناسب میں مزید اضافہ ہوگا اور کمزور علاقائی توازن مزید بگڑ جائے گا۔سوم، یورپ میں نئی کشیدگیوں کی وجہ سے روس اور چین میں قربتیں پہلے ہی بڑھ چکی ہیں۔ ماسکو جنوبی ایشیا میں ایک زیادہ متوازن رویہ اختیار کرے گا، اور مختلف معاملات پر پاکستان کے ساتھ تعاون کے امکانات وا کرے گا جن میں افغانستان، انسداد دہشت گردی، دفاع و سلامتی کے امور شامل ہیں۔
یہ چیز دونوں ممالک کے مابین بڑھتی ہوئی سفارتی مشغولیت میں نظر بھی آرہی ہے۔ روسی وزیر دفاع کے حالیہ دورہ پاکستان نیز دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے فوجی و اقتصادی سمجھوتوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے۔پاکستان کو سیکورٹی چیلنجوں کی بھرمار کا سامنا ہے یعنی دہشت گردی اور عسکریت پسندی، روایتی خطرات اور اپنی نیوکلیر ڈیٹرنس (سد جارحیت) کی ساکھ کو یقینی بنانے کی ذمہ داری، جو بھارت سے مخصوص ہے۔بلاشبہ، دہشت گردی اور روایتی چیلنجوںکے اجتماع کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی افواج کو بیک وقت دو میدانوں میں کام کرنا پڑا ہے، یعنی بیرونی چیلنج سےنمٹنا اور اندرونی سلامتی کا بندوبست کرنا۔ یہ دہری مشغولیت اور تعیناتی نظریہ جامع جواب کے ارتقاء میں جھلکتی ہے۔ تاہم خطرے کی بدلتی ہوئی نوعیت کی وجہ سے اسے عملی جامہ پہنانے میں مشکل چوائسز اور حکمت عملی کی مستقل نظر ثانی درپیش رہے گی۔
عسکریت پسندی اور پرتشدد انتہا پسندی کا سدباب کرنا ملک کا اولین سیکورٹی ہدف رہے گا۔ شمالی وزیرستان میں موجودہ فوجی آپریشن سے پہلے جنوبی وزیرستان اور سوات میں دو موثر آپریشن ہوچکے ہیں، تاہم ان دونوں میں تنازع کے بعد استحکام کا مرحلہ مکمل نہیں ہوا ہے۔ضرب عضب کا مقصد فاٹا میں مختلف عسکریت پسندوں کےآخری مرکزکا خاتمہ تھا۔ اس آپریشن کے ذریعے دہشت گرد نیٹ ورک کو منتشر، اس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کو تباہ، پناہ گاہوں کا خاتمہ اور کلیئرکرائے گئے علاقے میں ریاستی اختیار قائم کیا جاچکا ہے۔ تاہم یہ آپریشن ابھی مکمل نہیں ہوا ہے اور آگے مشکل چیلنج درپیش ہے یعنی وادی شوال کو کلیئر کرکے اس کا کنٹرول حاصل کرنا۔اس کے ساتھ ہی ملک بھر کے شہروں میں انٹیلی جنس کی زیر قیادت زیادہ شور شرابا کیے بغیر تقریباً 2400 کریک ڈاؤن کیے گئے، اس طرح انسداد دہشت گردی کی اس مہم کے سبب عسکریت پسند راہ فرار اختیار کرچکے ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ لیکن عسکری تنظیموں کے سینڈیکیٹ بالخصوص فرقہ وارانہ گروپوں سے لاحق خطرے کو ختم کرنے کے لئے ابھی کافی کوششیں درکار ہیں۔قبائلی علاقہ جات میں ہونے والی پیش رفت کو سیاسی اصلاحات اور اقتصادی ترقی کے ذریعے تعمیر و منتقلی کے مراحل سے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ مغربی سرحد کے اس پار پناہ لئے ہوئے تحریک طالبان پاکستان اور ان کے رفقاء کے خلاف افغانستان کی انسداد دہشت گردی کی متعاون کارروائیوں پر بھی بہت کچھ منحصر ہوگا۔
پاکستان کے ردعمل میں ضروری ہوگا پولیس اور انٹیلی جنس کی صلاحیتوں کو بڑھانا اور اچھی طرح تیار کی گئی انسداد شورش کی حکمت عملی نافذ کرنا جس میں حرکی اور غیر حرکی دونوں جہتیں شامل ہوں۔ انسداد عسکریت پسندی کی حکمت عملی اور مربوط انسداد بیانیوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی اجزاء کا بھی اظہار کرنا ہوگا تاکہ ماحول میں تبدیلیوں سے مقابلہ کیا جاسکے۔جغرافیہ، تاریخ، آبادیات، مذہب اور ثقافت نے پاکستان اور افغانستان کو ہم زیست رشتے میں باندھ رکھا ہے۔ 30 سال سے افغانستان میں جنگ و جدل کے اثرات پاکستان نے سہے ہیں۔ آج بھی ہمارے ملک میں 20 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں جو کہ ہنوز دنیا کے کسی بھی ملک میں پناہ گزینوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ لہٰذا پاکستان ایک پرامن، مستحکم اور متحد افغانستان کو اپنے بہترین مفاد میں دیکھتا ہے۔کابل میں نئی قومی اتحادی حکومت کے قیام نے پاکستان اور افغانستان کے روایتی قریبی تعلقات کو بحال کرنے کا ایک نیا موقع فراہم کیا ہے۔ اس مقصد کیلئے پاکستان نے کابل کو افغانستان کے 2014 کے بعد کی اہم ترین سلامتی، معاشی اور سیاسی منتقلیوں میں مدد دینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔
صدر اشرف غنی کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران سیکورٹی اور معاشی تعاون کی بحالی کا قابل ذکر مثبت آغاز ہوگیا ہے۔ سیاسی فضا ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوئی ہے اور سیکورٹی، تجارت اور ترقیاتی تعاون کے امور کے ایک سلسلے پر تیزی سے سمجھوتے ہوئے ہیں۔سیکورٹی مکالمے کا ایک کلیدی عنصر یہ سمجھوتہ تھا کہ دونوں ممالک اپنی اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اس میں شامل تھی پاکستان کی یقین دہانی کہ شمالی وزیرستان میں اس کے جاری آپریشن کے اندر عسکریت پسند گروہوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جائے گا اور افغانستان کا وعدہ کہ کنڑ میں پناہ لئے ہوئے پاکستانی طالبان جنگجوؤں کو وہاں سے نکالنے کے لئے مہم شروع کی جائے گی۔مسلح اپوزیشن کے ساتھ امن مذاکرات کے ذریعے بین الافغان مفاہمت کے حصول کی کوششیں افغانستان کے استحکام کیلئے بہت اہم ہوں گی۔ صدر غنی نے اسے اپنی ترجیح بنایا ہے اور پاکستان اس میں افغان زیر قیادت و افغان زیر ملکیت عمل کے ذریعے معنی خیز تعاون کرسکتا ہے۔پاکستان افغانستان میں اقتدار پر بزور طاقت قبضے کی مخالفت کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بین الافغان امن عمل کا جلد آغاز تشدد کو بڑھنے سے روکنے کا واحد طریقہ ہے۔ پاکستان اس کام میں مدد کے لئے بھی تیار ہے جب اور جس طرح کی افغانستان اس سے مدد مانگے گا۔اسلام آباد کو امید ہے کہ کابل اس کے بدلے میں پاکستان کو لاحق افغان سرزمین سے آنے والے دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خطرات کے خاتمے میں مدد کرے گا۔ صدر غنی کے مثبت جواب سے اسلام آباد کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں بھارت کے فوجی کردار سے متعلق پاکستان کے خدشات کو بھی سمجھا، اس سے بھی بہت حوصلہ ہوا ہے۔اگرچہ پاکستان افغانستان تعلقات کو بہتر راہ پر گامزن کرنے کے لئے حوصلہ افزاء ابتدا ہوچکی ہے، تاہم اس راہ میں آگے لازماً بارودی سرنگیں بچھی ہوں گی جن سے بچ کر نکلنا ہوگا اور وزیراعظم نواز شریف کے دونوں ممالک کے درمیان جامع اور پائیدار شراکت داری کے تصور کو پورا کرنے کے لئے بہت اعتماد پیدا کرنا ہوگا۔
تازہ ترین