• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذاتی طور پر راقم کو اہل سیاست اور ارکان پارلیمنٹ سے بے پناہ ہمدردی ہے۔ کبھی کبھی تو بے چارے باقاعدہ مظلوم دکھائی دیتے ہیں، بالخصوص ناموافق ٹی وی اینکرزکے سامنے۔ پھر بے چاروں کی پارٹی میں قدر نہ پارلیمنٹ میں، آبائی علاقوں اور صوبوں میں شاید کچھ ٹور ہو مگر وفاقی دارالحکومت میں تو غریب نیویں، نیویں سے ہی پھرتے ہیں۔ وہ دن ہوا ہوئے کہ ارکان اسمبلی پارٹی کے ماتھے کا جھومر ہوا کرتے تھے۔ قیادت بلائیں لیتی نہیں تھکتی تھی۔ اب تو عالم یہ ہے کہ جناب وزیراعظم کو اکثر کے نام تک یاد نہیں۔ سامنے آنے پر شک سا گزرتا ہے کہ شکل دیکھی دیکھی سی لگتی ہے۔ اگر کبھی نصیب کی دیوی دیال ہوجائے اور باقاعدہ ملاقات کا قرعہ نکل آئے تو ایک اہلکار کی باقاعدہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ چپکےسےاسم گرامی اورتصویر والاکارڈجناب وزیراعظم کے سامنے رکھ دے، تاکہ ممکنہ بدمزگی سے بچا جاسکے اور چوہدری صاحب،رانا صاحب کے ساتھ گڈمڈ نہ ہوجائیں۔ ان کے معاملہ میں تو کیپٹل پولیس بھی باقاعدہ بدلحاظ واقع ہوئی ہے۔سب سے یکساں سلوک کے نشے میں میں دھت قانون سازوں اور عام عوام میں تفریق کی روا دار نہیں۔ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر بیٹھیں، تو چالان پر اصرار اور ادھر سے انکار، کہ انا آڑے آتی ہے۔ دو وارداتیں تو کم و بیش ہمارے سامنے کی ہیں۔پچھلی حکومت میں ایک نے ٹریفک اشارہ توڑا اورتڑی لگادی کہ چالان، جرمانے کی بات کی، تو کینٹ سے ہی نہیں پارلیمنٹ سے بھی مستعفی ہوجائیں گے۔ جناب اسپیکر کی ہدایت پر اسمبلی سیکریٹریٹ کا عملہ بیچ میں پڑا اور معاملہ رفع دفع کروا دیا۔دوسرے ہمارےجاننے والے ہیں۔سیونتھ ایونیو پراوور اسپیڈنگ کی اور گھات میں بیٹھے ٹریفک والے کے ہتھے چڑھ گئے۔ تعارف کرایا تو اہلکار ادب سے بولا کہ جناب کا مقام و مرتبہ سر آنکھوں پر،مگر آئی جی صاحب کا حکم ہےکہ چھوڑناکسی کو نہیں۔حکم عدولی کی تو میری پیٹی اتر جائے گی۔حسن اتفاق دیکھئے کہ ادھر سے اصرار اور ادھر سے انکار والی کیفیت جاری تھی کہ ہم بھی موقع پر پہنچ گئے اور جانی پہچانی گاڑی دیکھ کر رک گئے۔ جلد ہی معاملہ سمجھ میں آگیا کہ ضد دونوں جانب سے برابرکی ہے۔ سو معاملہ چکتا دکھائی نہیں دیتا۔ اپنا ڈرائیونگ لائسنس پیش کیا کہ ان کی جگہ ہمارا چالان کردیا جائے۔ پولیس والا نرم پڑگیا اور دونوں کو جانے دیا۔ اس نیکی کے سبب ایک پیٹی بھی یقیناً بچ گئی ہوگی۔ کوئی دو برس بیتے کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کی شاہراتی مہمات کی خبریں تواتر سے آیا کرتی تھیں۔کبھی گاڑی پکڑی جاتی تو کبھی موٹر سائیکل، کیونکہ ہیوی بائیک موصوف کا شوق تھا اور پچھلے ہی ہفتے چار معزز ارکان اسمبلی کو اسلام آباد کے ایک رہائشی مکان میں ہونے والی باربی کیو پارٹی کتنی مہنگی پڑی تھی۔ اس کی صدائے بازگشت تو کیپٹل کی فضاؤں میں ہنوز موجود ہے۔
مگر بعض دوستوں کو میری اس سوچ سے شدید اختلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جناب اسلام آباد کے جزیرے میں رہتے ہیں۔ ابھی آپ کسی کے ہاتھ نہیں لگے۔ کیونکہ ’’ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ‘‘ والا معاملہ ہے۔ اور پھر بعض واقعات اس تسلسل کے ساتھ ہوئے کہ راقم کو دوستوں کی دانش کا معترف ہونا پڑا۔ عقدہ کھلا کہ اہل سیاست اتنے بیچارے بھی نہیں۔ آئی پہ آجائیں، تو کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ مٹی کو سونا اور سونے کو مٹی بناسکتے ہیں۔ سیاہ سفید کی تمیز ختم کرسکتے ہیں۔ کسی ایک صوبے کو کیا پورے ملک کو ذاتی جاگیر کی طرز پر چلاسکتے ہیں۔ بہت دنوں سے افواہیں اڑ رہی تھیں کہ سندھ حکومت گریڈسولہ اور سترہ کی اسامیوں کوصوبائی پبلک کمیشن کے دائرہ اختیار سے نکالنے جارہی ہے اور بھرتی کا اختیار محکمانہ سلیکشن کمیٹیوں کو دینے کی تجویز ہے۔ مگر یقین نہیں آرہا تھا کہ میرٹ کو اس قدر بے رحمی سے بھی ذبح کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ انہونی ہوچکی۔ وزیراعلیٰ متعلقہ سمری پر دستخط کرچکے اور اب پورے سندھ میں ’’سیاں بنے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘‘ والی کیفیت ہوگی۔ اس فیصلہ کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کا وجود اگر ختم نہیں، تو دائرہ کار بے حد محدود ضرور ہوجائے گا۔ کیونکہ کمیشن کی وساطت سے زیادہ تر بھرتیاں سولہویں اور سترہویں گریڈ میں ہی ہوتی ہیں۔ اب اسسٹنٹ کمشنر، ڈی ایس پی، لیکچرر، ڈاکٹر، انجینئرز، ٹیکنیشن افسر اور مختار کار وغیرہ کی پرکشش اسامیاں سرکار دربار کے تعلق داروں کیلئے مخصوص ہوکر رہ جائیں گی اور اگر کوئی آسامی بچ بھی گئی تو بولی کروڑوں میں جائے گی۔
سندھ کے حالات تو آج بھی قابل رشک نہیں۔ ذرا اس سندھ کا تصور کیجئے جسے کمیٹی سسٹم کے تحت بھرتی کئے گئے افسر چلا رہے ہونگے۔ اور پھر ان کروڑوں لاوارث سندھیوں کا کیا قصور ہے، جن کے پاس زندگی میں آگے بڑھنے کا ایک ہی ہتھیار ہے۔ محنت اور میرٹ۔ کیا ان پر اچھی ملازمتوں کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہوجائیں گے؟ اور کیا محض چند سو بااثر وڈیروں اور جاگیرداروں کی خوشنودی کی خاطر پورے صوبے کو بھینٹ چڑھا دیں گے؟ یہ فیصلہ ظالمانہ ہی نہیں، اہل سندھ کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کے مترادف بھی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ایسی خود غرض اور کم بصری کی اجازت ہرگز نہیں دی جانا چاہئے۔ خاص طور پر جب سپریم کورٹ اس ضمن میں واضح گائیڈ لائن دےچکی ہے کہ سرکاری/نیم سرکاری بھرتیوں میں حد درجہ شفافیت ہونا چاہئے۔ اسامی مستقل ہو یا ایڈہاک، اس کی مناسب تشہیر ہونا چاہئے۔ میرٹ کا بہرصورت خیال رکھا جائے اور چور دروازوں سے ملازمت کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ عدالت نے تو ایڈہاک بھرتیوں کو مستقل بنانے کے عمل کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی واضح کردیا کہ اس گائیڈ لائن کی خلاف ورزی فی الحقیقت آئین میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ماناکہ وزیراعلیٰ کو بعض صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں۔ مگر ان کے بارے میں بھی سپریم کورٹ کے احکامات بہت واضح ہیں کہ انہیں آئین و قانون کی روح کے منافی ہرگز استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
سندھ پر ہی کیا موقوف، نوکریوں کے حوالے سے عوامی نمائندوں کی حد سے بڑھی ہوئی حرص و ہوس کی باقی صوبوں میں بھی یہی کیفیت ہے۔ بلوچستان، خیبر پختوانخوا اور پنجاب کے قانون ساز بھی چھوٹی موٹی ملازمتوں کی بندربانٹ کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ زیادہ دن نہیں ہوئے کہ جنوبی پنجاب کے ایک ضلع کے محکمہ صحت میں سیکورٹی گارڈ کی چھ اسامیاں نکلیں۔ متعلقہ رکن صوبائی اسمبلی نے افسر انچارج کو اپنے چھ بندوں کے نام بھجوادیئے کہ ان کا تقرر کردیا جائے۔ ڈرے سہمے اور سسٹم کے مارے ’’افسر‘‘ نے پانچ کو تو فوری اپائمنٹ لیٹر جاری کردیئے۔ البتہ چھٹے کے بارے میں یہ کہہ کر معذرت کردی کہ معیار کو چھو کر بھی نہیں گزرتا۔ جواب آیا۔ کہاں کا میرٹ اور کون سا معیار؟ صاف کیوں نہیں کہتے کہ کسی اور سے پیسے پکڑ رکھے ہیں۔ ہمیں نہ سننے کی عادت نہیں، چھٹے کے آرڈر بھی شام سے پہلےپہلے نکل جانا چاہئے۔ مگر موصوف کی بدنصیبی کہ حکم کی تعمیل نہ کرسکا اور عوامی نمائندہ اگلی صبح لاؤ لشکر سمیت اسپتال پر حملہ آور ہوا اور حکم عدولی کے مرتکب ڈاکٹر کو اس کے عملے کے سامنے نشان عبرت بنادیا۔ عقاب صفت وزیراعلیٰ نے یقیناً اس سانحہ کا نوٹس لیا ہوگا، انکوائری ہوئی ہوگی اور کچھ گول مول سا نتیجہ بھی نکل چکا ہوگا۔ بہت ہوچکی جناب! اب یہ تماشہ ختم ہوجانا چاہئے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ تقرر رکن اسمبلی کی دھونس سے ہو۔ کہیں بولی لگے اور کہیں چیلے چاٹے مستفید ہوں۔ جو تنخواہ تو سرکار سے لیتے ہیں اور خدمت کسی اور سرکار کی کرتے ہیں۔
اس بدعنوانی کی راہ کیونکر روکی جائے؟ اس کے لئے لازم ہے کہ وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمشنوں کے دائرہ اختیار کو محدود کرنے کی بجائے وسعت دی جائے۔ سرکاری/نیم سرکاری محکموں اور کارپوریشنوں کے گریڈ گیارہ تا بائیس تک کی بھرتی صرف اور صرف وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں کے ذریعے ہو۔ گریڈ ایک تا دس کیلئے ضلعی پبلک سروس کمیشن کا اہتمام کیا جائے جن کی سربراہی ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کو سونپی جاسکتی ہے۔ مجوزہ محکمانہ کمیٹیوں کی قطعاً ضرورت نہیں جو رشوت، سفارش اور میرٹ کے قتل کے علاوہ کچھ نہیں کرپائیں گی۔ جبکہ میرٹ کا بول بالا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم میرٹ دشمن واقع ہوئے ہیں، اور حق دار کو حق نہیں دیتے۔ نکمے، نالائق، نیم خواندہ سفارشی اہلکاروں کی بھرمار نے سسٹم کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ نظام کی اصلاح تو دور کی بات، انہیں تو روٹین کا کام بھی نہیں آتا۔ اس کے لئے بھی کارندے رکھے ہوئے ہیں۔ گویا کہ سرکار کو ٹھیکے پر اٹھا رکھا ہے۔
تازہ ترین