• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’آپریشن ضرب عضب‘‘ قومی سلامتی کی ایک فیصلہ کن جنگ ہے ۔ ہمارے لئے کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس آپریشن کے نتیجے میں وطن عزیز دہشت گردی سے نجات حاصل کرئے، بے گھر ہو جانے والے لاکھوں افراد اپنے گھروں کو پہنچیں اور ملک میں چار سُو امن کا راج ہو۔مسلح افواج بڑی بہادری کے ساتھ یہ جنگ لڑ رہی ہیں اور اب وہ مرحلہ آ گیا ہے کہ بے گھر افراد کی اپنے گھروں کو واپسی کا عمل شروع ہو سکے۔جون 2014 کے وسط میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا۔ پوری قوم دیکھ رہی تھی کہ مذاکرات کے لئے حکومت کی سنجیدہ کوششیں کامیاب نہ ہوئیں بلکہ مذاکرات کے دوران بھی دہشت گردی کی کاروائیاں جاری رہیں۔ فوج نے بھی بڑے حوصلے سے کام لیتے ہوئے مذاکراتی عمل کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا تو پوری قوم نے اس کے حق میں آواز اُٹھائی۔ وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان مذاکرات کے حامی تھے لیکن جب واضح ہو گیا کہ دوسرا فریق با مقصد مذاکرات نہیں چاہتا تو وزیراعظم نے آرمی چیف سے ملاقات میںآپریشن کی اجازت دے دی۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عمران خان بھی اس صورت حال کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیتے ہوئے پوری طرح آپریشن ضرب عضب کی حمایت کر دیتے لیکن وہ کھلے بندوںاس کے خلاف باتیں کرتے رہے۔ قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ دہشت گردی سے ہمارے ملک کو کتنا نقصان پہنچا۔ فوج، رینجرز، پولیس اور سرکاری اہلکاروں سمیت پچاس ہزار سے زائد پاکستانی اسکی بھینٹ چڑھ گئے۔ ملکی معیشت کو تقریباً 100ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ بیرونِ ملک پاکستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ آج نہ کوئی سیاح ادھر راغب ہوتا ہے، نہ کھلاڑی کھیلنے کے لئے آتے ہیں اور نہ کوہ پیما ہمارے خوبصورت پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ دہشت گردی کی اُس لہر کی وجہ سے ہوا جو پچھلے دس گیارہ سال سے جاری ہے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ پوری قوم یک جان ہو کر اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جاتی اور اس آپریشن کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کرتی۔
آج یہ سب کچھ اس لئے بڑی شدت کے ساتھ محسوس ہو رہا ہے کہ ’’سیاسی جنگ‘‘ نے آپریشن ضرب عضب کو بڑی حد تک پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ اس طرح کی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ بے شک ہمارے بہادر فوجی زبردست کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ اُن کی شہادت کی خبریں بھی مسلسل آتی رہتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں آئی۔ایس۔پی۔آر کے ذریعے پتہ چلتا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ میڈیا نے بھی اس آپریشن میں اپنا بھرپور حصہ نہیں ڈالا۔ سب سے بڑا ستم یہ ہوا کہ تحریک انصاف نے سیاسی احتجاج اوردھرنوں کے لئے عین یہی وقت چناجب آپریشن ضربِ عضب فیصلہ کن مرحلے میں تھا۔ اِدھر دھرنے ، جلسے اور ہنگامے پورے عروج پر چلے گئےاور ہم یہ بھول ہی گئے کہ ہماری مسلح افواج کتنے بڑے امتحان سے دوچار ہیں۔ سار ی توجہ اسلام آباد کے ڈی۔چوک میں رکھے کنٹینروں پر مرکوز ہو گئی۔ چینلوں کی گشتی گاڑیاں مستقل طور پر وہاں کھڑی کر دی گئیں۔ ایسی تقریریں گھنٹوں سنائی جانے لگیں جن میں آپریشن ضرب عضب یا مسلح افواج کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک لفظ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ایسا سیاسی طوفان اُٹھا کہ پاکستانی قوم افواج پاکستان کی بے مثال قربانیوں کو بھول ہی گئی۔
یہی بے گھر ہو جانے والے لاکھوں محبِ وطن پاکستانیوںکے ساتھ ہوا ،جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کیمپوں میں پڑے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ہماری قوم میںبڑا جذبہ خیر ہے ۔یہ کھلے دل سے فلاحی کاموں میںحصہ لینے اور خیرات کرنے والی قوم ہے ۔ لیکن سیاسی دنگل نے آئی۔ڈی۔ پیز کی مشکلات اور مسائل کو بھی سامنے نہ آنے دیا۔ دھرنوں، جلسوں، جلوسوں اور ہنگاموں کی کوریج تو کئی کئی گھنٹے جاری رہی لیکن ٹی ۔وی کیمروںنے آئی۔ڈی۔پیز کے خستہ حال خیموں کا رُخ نہ کیا۔
آج کہا جا رہا ہے کہ آزادی اور انقلاب مارچ کے باعث ملک کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ بڑی مشکل سے سنبھلنے والی معیشت پھر سے مسائل کا شکار ہونے لگی ہے۔ باہر کے ملکوں سے آنے والے سرمایہ کار ہچکچانے لگے ہیں۔ کئی ممالک کے سربراہوں نے پاکستان کے دورے ملتوی یا منسوخ کر دئیے۔ یہ سب کچھ واقعی قومی نقصان ہے لیکن میرے خیال میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سیاست کے کھیل نے آپریشن ضرب عضب کی اہمیت کو پوری طرح اجاگر نہیں ہونے دیا اور قوم کوآئی ۔ڈی۔پیز کی بھرپور حمایت اور امداد میں پوری طرح سرگرم بھی نہ ہونے دیا۔ عمران خان صاحب کوآزادی مارچ اور طاہر القادری کو اپنے انقلاب مارچ کے لئے وہی وقت کیوں پسند آیا جب مسلح افواج آپریشن ضرب عضب میں اپنی جانیں لڑا رہی تھیں؟ یہ راز شاید کبھی نہ کھل سکے کہ دہشت گردی کے خلاف اس فیصلہ کن جنگ میں قوم کو یک سُو کیوں نہ ہونے دیا گیا؟ آئی۔ڈی۔ پیز کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ایسا سیاسی تھیٹر کیوں لگا دیا گیا جس نے دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے کو مجروح کیا؟
عمران خان صاحب نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ ہوتے تو کسی صورت میں فوج کو قبائلی علاقوں میںنہ بھیجتے۔ اس فیصلے پر تنقید کرنے والے لوگوں کی تعداد کم نہیں۔ یہ فیصلہ پرویز مشرف کے دور میںہوا تھا جب وہ قومی جذبات کی پرواء کئے بغیر امریکی کروسیڈ کا حصہ بن گئے تھے۔ اس فیصلے کو اب بارہ سال ہو گئے ہیں۔ ان بارہ سالوں کے دوران قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے کئی اڈے بن گئے۔ ان اڈوں کے خاتمے کے لئے کسی اور کو نہیں فوج ہی کو آپریشن کرنا تھا۔ ممکن ہے بارہ سال پہلے مشرف کا فیصلہ غلط ہو لیکن کیا آج بھی فوج کو وہاں نہیں جانا چاہئے تھا؟ اور پھر اس طرح کا بیان عین اُس وقت دینے کی ضرورت سمجھ سے بالاتر ہے جب فوج، دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے۔
انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا نہیں،اس کا فیصلہ ملکی آئین و قانون کے تحت کوئی باقاعدہ فورم ہی کرے گا۔ آئندہ انتخابات کو ہر قسم کی دھاندلی سے پاک رکھنے کے لئے ضروری اصلاحات بھی طے شدہ آئینی طریقہ کار کے تحت ہوں گی جس کا پلیٹ فارم عوام کی منتخب پارلیمنٹ ہے۔ تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے؟ تین ماہ سے ملک کے استحکام کو کیوں بے یقینی کی سولی پر لٹکادیا گیا ہے۔ شہروں کو بند کرنے سے کیا ملے گا؟ اگر تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں جاری نہ رہیں گی، اگرمحنت کش اپنے روزگار کو نہ جا سکیں گے، اگر دیہاڑی دار مزدوروں کے گھر فاقے پڑیں گے تو اس سے قوم و وطن کی کیا خدمت ہو گی؟ ساری دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ جلائو گھیرائو، مارو، مر جائو، والی تقاریراب عملی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ لیڈروں کے بچے تو ملک سے باہر بیٹھے ہیں اور یہاں غریب کارکنوں کے بچوں کو آگ میں جھونکا جا رہا ہے؟ اس طرح کون سی تبدیلی آئے گی؟
مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالنا ہی جمہوریت کی روح ہے۔ تحریک انصاف کے دونوں بنیادی مطالبات مانے جا چکے ہیں۔سپریم کورٹ کے ذریعے تحقیقات کا بھی اور انتخابی اصلاحات کا بھی۔ اس کے بعد محض معمولی جزئیات باقی رہ جاتی ہیں۔ ان جزئیات کے لئے ایسی ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار کرنا ناقابلِ فہم ہے جس سے خانہ جنگی بھڑک اُٹھنے یا فتنہ و فساد کا خطرہ ہو۔ یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ ایک طرف آپ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور دوسری طرف شہروں کا امن تباہ کرنے کے لئے اُسی حکومت کو چیلنج کرتے پھریں۔
تحریک انصاف نے آپریشن ضرب عضب اور آئی۔ڈی۔ پیز کے مفاد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اب وہ مذاکرات کا سنجیدہ راستہ اختیار کرے اور ایجی ٹیشن کو ملتوی کر دے۔ دوسری طرف حکومت کو بھی چاہئےکہ وہ اپنے خول سے نکلے۔ جلتی پر تیل ڈالنا حکومتوں کا کام نہیں ہوتا۔ مسلم لیگ (ن) اپنے کارکنوں کو سختی سے روکے کہ وہ سڑکوں پہ نہ آئیںاور وزرا کو بھی بیان بازی سے منع کرنا چاہئے۔حکومت مذاکرات کے لئے اچھا ماحول بنانے کی خاطر خود پیش قدمی کرے۔ اب یہ معاملہ حل ہو ہی جانا چاہیے تا کہ اصل مسائل پر توجہ دی جاسکے۔ خاص طور پر آپریشن ضرب عضب کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکے اور آئی۔ ڈی۔پیز اپنے گھروں کو واپس جا کر معمول کی زندگی گزار سکیں۔
تازہ ترین