• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کالم میں ہم نے بتایا تھا کہ باقاعدہ گوشوارے داخل کرنے والے ٹیکس گزاروں کی تعداد میں معقول اضافہ نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی لیڈر، حکمران اور قانون بنانے والے عوامی نمائندے ٹیکس ادا کرنے سے گریزاں ہیں اور ٹیکس قوانین صرف کمزور کاروباری طبقے اور متوسط طبقے اور وِدہولڈنگ ٹیکس کی صورت میں عوام سے وصول کئے جاتے ہیں جبکہ بڑی گاڑیوں اور بڑے بڑے محلات، کوٹھیوں، پلاٹوں اور ہزاروں ایکڑ اراضی کے مالکان سے معقول ٹیکس نہیں لیا جاتا۔ چھ سو سی سی یا 13 سو سی سی انجن والی گاڑی رکھنے والوں اور پانچ دس مرلے یا ایک کنال والے پلاٹوں اور گھر رکھنے والوں کو تو ٹیکس کے نوٹس جاتے ہیں مگر بڑے مگرمچھ سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو ’’چندہ‘‘ دیکر ہر طرح کے ٹیکس سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور انہیں کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ چند سال پہلے لاہور میں کئی ایکڑ پر پھیلے محل کے بارے میں ایف بی آر کے کسی افسر نے محل والوں سے پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ اس محل پر خرچ ہونیوالے پانچ ارب روپے پر کوئی ٹیکس دیا کہ نہیں اور کیا سپریم کورٹ کے نوٹس لینے پر ایساف کنٹینر اسکینڈل میں ملوث کسی ملزم کیخلاف ایف بی آر نے کوئی ٹھوس کارروائی کی؟ ایف بی آر کے ایک سابق چیئرمین کے ذریعے گاڑیوں کی ایمنسٹی اسکیم میں جو گھپلے ہوئے وفاقی ٹیکس محتسب نے مفصل تحقیق کر کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کا حکم دیا لیکن تاحال کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر وَن مین کمیشن کے ٹیکس ماہرین کے ذریعے ایک کاروباری شخصیت کے کاروبار کی مکمل چھان بین کی اور ان کی کمپنی کے ذمہ جو ایک کھرب روپے سے زائد کا ٹیکس بنتا تھا وہ ایف بی آر کے افسروں کی ملی بھگت اور نااہلی کی وجہ سے نہیں لیا گیا لیکن ایف بی آر نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی عملی اقدام بھی نہیں کیا۔ ایسے ہی بہت بااثر افراد جو آئے دن خیرات، صدقے اور مختلف لوگوں کی انفرادی بھلائی کے نام پر کروڑوں روپے کے اعلانات جاری کرتے ہیں اور ٹیکس کی مد میں بہت ہی قلیل رقم دیتے ہیں لیکن ایف بی آر کے اہلکار ان کے ٹیکس گوشواروں کی پڑتال کرنے کی بجائے ان ٹیکس گزاروں کا جینا حرام کر دیتے ہیں جو باقاعدگی سے اپنی آمدن کے مطابق ٹیکس ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایف بی آر کے بگڑے ہوئے نظام کی زد میں آنیوالے تنخواہ دار طبقے کے علاوہ وہ باقاعدہ ٹیکس گزار بھی ہیں جن کی آمدن پر زیادہ ٹیکس لگایا گیا ہے اور ان کو کم از کم ٹیکس کی ادائیگی کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جو ٹیکس گزار ریفنڈ کیلئے درخواست دیتے ہیں تو ان کے کیس دوبارہ کھول دئیے جاتے ہیں، ان پر بھاری ٹیکس لگا کر ان کا ریفنڈ ختم کر دیا جاتا ہے، یوں ٹیکس وصول کر کے انہیں اپیلوں کے چکر میں پھنسا دیا جاتا ہے جو کئی سال تک بھگتنا پڑتا ہے اسی وجہ سے کچھ بڑے ٹیکس گزار جن میں بیرونی سرمایہ کار بھی ہیں، بددل ہو کر دوسرے ملکوں میں سرمایہ کاری پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ہمارے ذرائع نے ہمیں بتایا ہے کہ ہر سال تقریباً 2کھرب سے زائد رقم کے ریفنڈ ایف بی آر کی طرف سے غیرقانونی طور پر روکے جاتے ہیں تاکہ بجٹ محصولات بڑھا کر دکھائے جائیں جو سراسر جعلی کارروائی ہے۔ اس وقت بھی دوکھرب روپے سے زائد کے ریفنڈ قابل ادائیگی ہیں لیکن ایف بی آر اور وزارت خزانہ کے ایما پر ٹیکس گزاروں کی رقوم روک کر انہیں مالی بحران میں مبتلا کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ نہ صرف ٹیکس دینے سے کتراتے ہیں بلکہ ٹیکس کیلئے رجسٹر ہونے سے بھی بچنے کی کوشش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملکی معیشت کا تقریباً نصف حصہ کالے دھن پر مشتمل ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال میں وزیر خزانہ نے ٹیکس افسروں کو حکم دیا تھا کہ اگر چھوٹے ٹیکس گزاروں کو ریفنڈ دینا پڑ جائے تو دس لاکھ روپے سے زائد کوئی ریفنڈ جاری نہ کیا جائے۔ گزشتہ دنوں ایف بی آر کے چیئرمین نے ٹیکس افسروں سے شکوہ بھی کیا کہ آئی ایم ایف ہم سے ناراض ہے کیونکہ آپ نے لوگوں پر ٹیکس نہیں لگایا۔ انہوں نے افسروں کو حکم دیا کہ جیسے بھی ہو، لوگوں کے گوشوارے کھول کر ٹیکس لگائیں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ چاہے قانونی ہو یا غیرقانونی طریقہ ہو، آئی ایم ایف کو دکھانے کیلئے ٹیکس ڈیمانڈ بڑھا دیں۔ ایسے اقدامات سراسر ناانصافی پر مبنی ہیں اور ٹیکس گزاروں کو اپیلوں کے جھنجٹ میں پھنسا کر اپنی کارکردگی دکھانے کا بھونڈا طریقہ ہے یعنی ایک طرف ٹیکس گزاروں کا اداکردہ زائد ٹیکس ریفنڈ کی صورت میں واپس نہ کیا جائے اور دوسری طرف ان پر ناجائز ٹیکس لگا کر بجٹ محصولات کے جعلی اعدادوشمار دکھا کر شاباش حاصل کی جائے‘ پھر کہا جاتا ہے کہ ہمیں ٹارگٹ پورا کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں 12.5 فیصد ٹیکس گزاروں کو سالانہ ٹوٹل آڈٹ کیلئے منتخب کیا جاتا ہے، پھر ان پر بھاری ٹیکس عائد کر دیا جاتا ہے یا رشوت لیکر معاف کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کے ریٹ بھی زیادہ ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے طاقتور حکمران صائب مشوروں کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔ ہم عرصہ دراز سے مسلسل انہیں باور کراتے چلے جا رہے ہیں کہ ہر گھر کی تقدیر اس کا کمائوپوت ہی سنوارا کرتا ہے اور مملکت پاکستان کا کمائو پوت ایف بی آر ہے۔ ایف بی آر 21-22 ہزار (تقریباً) ملازمین و افسران کی ایک ٹیم ہے۔
ملکی تقدیر کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کو نہ جانے یہ سہل بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ اس ٹیم پر بھرپور توجہ دینے سے اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کے حالاتِ زندگی یکسر بدلے جا سکتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہے۔ جہاں ایک طرف دیانتدار ٹیکس گزاروں کو مراعات، پروٹوکول اور عزت دینا ضروری ہے، وہیں دوسری طرف فرض شناس، محنتی اور ایماندار افسران و ملازمین کی حوصلہ افزائی بھی ازحد ضروری ہے۔ آپ ایف بی آر کو ایک خودمختار حکومتی ادارہ بنا کر یہ سارے اقدامات نہایت احسن اور بہتر طور سے سرانجام دے سکتے ہیں۔ ٹیکس ریکوری پر افسران و ملازمین کو انعامات دینے کا قانون کئی مغربی ممالک میں عرصہ دراز سے رائج ہے اور ٹیکس محصولات کے اضافے میں نمایاں کردار ادا کر چکا ہے‘ پاکستان میں بھی اسی قانون کو نافذ کر کے غیرمعمولی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر نے حال ہی میں آڈٹ کیلئے ٹیکس گزاروں کو چنا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایف بی آر کی آڈٹ کرنے کی استطاعت، قوت اور بساط سے کہیں زیادہ کیس آڈٹ کرنے کیلئے چن لئے گئے ہیں۔ اس پر مزید ستم یہ ہے کہ ان کیسوں کی تکمیل کیلئے افسروں کو تقریباً ناممکن ڈیڈلائن دی گئی ہے۔ بھگدڑ، ہڑبونگ، جلدی اور بھاگم دوڑ میں کئے گئے آڈٹ کی کوالٹی اور قانونی حیثیت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ٹیکس گزاروں کی غیرموجودگی اور غیرحاضری میں کئے گئے آڈٹ اپیلوں میں فوراً ختم کر دئیے جاتے ہیں اور ایف بی آر کے ہاتھ سوائے وقت کے ضیاع، پشیمانی اور پچھتاوے کے کچھ نہیں آتا، قومی خزانے کو فائدے کی بجائے الٹا نقصان پہنچتا ہے۔ آڈٹ کا بنیادی مقصد ٹیکس گزاروں کے دل میں قانون کا خوف اور ڈر جاگزیں کرنا ہے مگر سرعت اور تیزی میں کئے گئے اس آڈٹ سے قانون کا رہا سہا ڈر بھی ٹیکس گزاروں کے دل سے نکل جاتا ہے۔ ایف بی آر کو چاہئے کہ وہ آڈٹ کی سلیکشن کو معیاری بنائے اور ان کی تکمیل کیلئے مناسب اور ممکن وقت فراہم کرے۔ افسران کو اختیارات دئیے بغیر ان سے کارکردگی کی توقع محض دیوانے کا خواب ہے جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ایک مشین کے کل پرزوں کو اگر عضو ِ معطل بنا دیا جائے تو مشین اپنے اغراض و مقاصد کیسے حل کر پائے گی۔ مملکت ِ خداداد پاکستان کے شہریوں کے دل و دماغ سے قانون کا خوف عرضہ دراز ہوا اُٹھ چکا۔ علاقائی افسروں کو بااختیار بنا کر سزا کا خوف لوگوں کے دل میں پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ٹارگٹ صرف اسی صورت میں دئیے جا سکتے ہیں اگر ٹیکس افسران کو ان ٹارگٹ کو پورا کرنے کیلئے مکمل طور پر بااختیار اور صاحب فیصلہ بنا دیا جائے۔ عموماً اربابِ اختیار کے دلوں میں یہ اندیشہ اور خطرہ کلبلاتا رہتا ہے کہ بیوروکریسی کو اگر حد سے زیادہ خودمختار اور بااختیار بنا دیا جائے تو یہ شتر بے مہار بن جاتی ہے، چیک اینڈ بیلنس کا موثر اور معتبر نظام تشکیل دیکر افسروں کے صوابدیدی اختیارات کے ناجائز اور غیرقانونی استعمال کو روکا جا سکتا ہے۔
ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے حکمرانوں کو اس خطے کے عوام کی نفسیات کا ماہر ہونا پڑیگا۔ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ پاکستانی قوم فی سبیل اللہ خرچ کرنے، عطیات اور چندے دینے میں تو دُنیا میں سب سے پہلے نمبر پر ہے مگر ٹیکس دیتے وقت یہی قوم ہزارہا بہانے تراشنے لگتی ہے اور سینکڑوں قانونی، غیرقانونی طریقے اور ہتھکنڈے ایجاد کر لیتی ہے۔ ذرا سی بھی عقل و فہم رکھنے والا انسان اس سوال کا جواب یوں دے سکتا ہے کہ پاکستانی قوم کو اگر یقین دلا دیا جائے کہ اس کا دیا ہوا پیسہ حلال طریقے سے خرچ ہو گا اور حکمران طبقے کی شاہ خرچیوں، عیاشیوں اور بیرونِ ملک دوروں پر نہیں پھونک دیا جائیگا تو وہ یقینا ٹیکس دیگی۔ اب یہ حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ عوام الناس کے اعتماد و اعتبار کو کس طرح، کیسے، کیونکر اور کب حاصل کر پائیں گے۔ یقین کیجئے کہ یہ قوم اپنے اندر بے بہا امکانات اور بے شمار جوہر پوشیدہ رکھتی ہے، ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس قوم کے امکانات کو بھرپور، موثر اور مکمل انداز میں بروئے کار لایا جا سکے اور یہ کام خوش نیتی، خلوصِ دل اور بے لوث محنت کے بغیر ممکن نہیں۔ آخر میں ہزارہ کے شیراز محمود قریشی نے ایف بی آر کے بارے میں لکھے گئے کالم پر رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایف بی آر اور آئی ایم ایف کے سلسلے میں آپ کے گزشتہ کالم وزارتِ خزانہ کے حکام کی دُرست راہنمائی کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ سے بہتر کون جا نتا ہے کہ ملکی سیاست، قیادت، پرنٹ والیکٹرانک میڈیا پر ایک مخصوص لابی ومافیا کا قبضہ ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجود خوفناک مہنگائی، بیروزگاری، ظلم اور ناانصافی کے ستائے ہوئے عوام کی حقیقی آواز ہماری سول وفوجی بیوروکریسی کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔ تلخ زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے تمام تر دعوئوں کے باوجود آج بھی سو لی پر لٹکے ہوئے سولہ کروڑ عوام کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ آزادی کے 67سال گزرنے کے باوجود ہماری سابقہ وموجودہ ظالمانہ قیادتوں کی خوفناک کرپشن وبدانتظامی کے ہاتھوں آج وطن عزیز 70ارب ڈالر کا مقروض ہے اور ہر سال صوبائی و وفاقی بجٹ کے موقع پر مشاورت کے بغیر انتہائی ناقابل برداشت ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالا جاتاہے جبکہ دوسری طرف پرزور مطالبات کے باوجود نہ تو انگریز کی عطاکردہ جاگیریں ضبط ہوئیں اور نہ ہی بالائی طبقات کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانے کیلئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز ہوا۔ اس حقیقت کو کون نہیں جانتا کہ اِنصاف وٹیکس کا نظام وقوانین جتنے پیچیدہ اور مشکل ہونگے‘ رشوت وسفارش کی راہیں اتنی ہی وسیع ہوں گی‘ اس ضمن میں ہنگامی بنیادوں پر سیلز ٹیکس وانکم ٹیکس کے موجودہ نظام کو سہل اور آسان بنا کر کاروباری طبقہ اور عوام کیلئے اتنی جائز آسانیاں پیدا کی جائیں کہ ٹیکس گزار خوشی سے ٹیکس اداکریں۔ وہ ٹیکس صارفین جو کم ازکم پندرہ یا اُس سے زیادہ لوگوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کریں، ان کیلئے خصوصی رعایتی پیکیج دیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ملازمت کے مواقع میسر آسکیں‘ نیز جو کاروباری افراد پہلے سے سیلز ٹیکس وانکم ٹیکس کے نظام سے منسلک ہیں، اُن سے ایسا سلوک روا رکھا جائے کہ وہ ہر سال ایمانداری سے اپنا ٹیکس خوشی سے ادا کریں۔ ملٹی نیشنل کمپنیز سے منسلک ڈسٹری بیوٹرز کو بجٹ سے پہلے یا بجٹ کے بعد کسی بھی مشاورت میں شریک نہیں کیا گیا حالانکہ ہر ماہ ڈسٹری بیوٹرز کی اکثریت کروڑوں کا سیلز ٹیکس ادا کرتی ہے اور سالانہ انکم ٹیکس بھی ادا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
یہ حقیقت ایف بی آر کو تسلیم کرنا ہو گی کہ ملٹی نیشنل کمپنیز کے ڈسٹری بیوٹرز آج بھی ایک فیصد سے لیکر 5فیصد تک کمیشن، مارجن پر کام کرتے ہیں لہٰذا ڈسٹری بیوٹر ز کی سالانہ سیلز کے بجائے مارجن اور اخراجات کو مدنظر رکھ کر جائز ٹیکس عائد کیا جائے۔ جو ڈسٹری بیوٹرز پچھلے سال کے مقابلہ میں دس سے پندرہ فیصد زائد ٹیکس ادا کریں‘ اُنہیں آڈٹ سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ ڈسٹری بیوٹرز، اسٹاکسٹوںکی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہے‘ لاعلمی کی وجہ سے جو ڈسٹری بیوٹرز گزشتہ سالوں میں ودِ ہولڈنگ ٹیکس کے گوشوارے بروقت جمع نہیں کروا سکے، اُنہیں خصوصی رعایت دیکر جرمانہ کے بغیر ودِ ہولڈنگ ٹیکس کے گوشوارے داخل کرنے کی اجازت دی جائے۔ حکمران ٹیکس صارفین کی سہولت کیلئے وفاقی ٹیکس محتسب کو ہدایت کریں کہ وہ ہر ماہ باقاعدگی سے چاروں صوبوں میں وقتاً فوقتاً دورہ کریں تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ ٹیکس صارفین کی حقیقی مشکلات کیا ہیں‘ ا س ضمن میں ٹیکس محتسب کے ادارے کو مزید فعال بنایا جائے۔ گزشتہ سالوں میں منی لانڈرنگ میں ملوث بااثر شخصیات، ملک کے طول وعرض میں بڑے بڑے پلازوں، ہائوسنگ سوسائٹیوں، پرتعیش ہوٹلوں، اعلیٰ نجی ہسپتالوں، نجی تعلیمی اداروں کو مضبوط ٹیکس نیٹ ورک میں لا کر قومی آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔ آخر میں حکمرانوں اور ٹیکس حکام کو باور کرانا چاہتا ہوں کہ ملک میں امن عا مہ کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر بڑے کاروباری ادارے اور اُن سے وابستہ مالکان بیرونِ ملک منتقل ہو چکے ہیں‘ اس ضمن میں حکومت کو سوچنا ہوگاکہ کس طرح کاروباری طبقہ کا ااعتماد بحال کر کے ملک کے معاشی بحران کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین