• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہو رمیں ’’پرامن احتجاج‘‘ اور حلقہ 125 کی جانچ پڑتال

کس’’ہائی مَورل پیڈسٹل ‘‘ پر کھڑے ہوکر چیئرمین تحریکِ انصاف کا کہنا تھا :’’ہمارا احتجاج پُرامن ہے۔ کوئی تشدد، کوئی زورزبردستی نہیں ہوگی۔ آپ تبدیلی چاہتے ہیں، تو صرف ایک دن کی قربانی دیجئے، جو موجودہ حکومت سے مطمئن ہے، وہ دُکان کھولے جو نیا پاکستان چاہتا ہے، وہ دکان بند رکھے‘‘۔ لاہور کی تاجر برادری نے اپنا ردعمل دینے میں تاخیر نہ کی۔ شہر کی تمام مارکیٹوں ، بازاروں اور تجارتی مراکز کی ایسوسی ایشنز نے کپتان کی اپیل مسترد کر دی تھی۔ پریس کانفرنس کے علاوہ انہوں نے بینرزکے ذریعے بھی اپنے عزم کا اظہار کردیا تھا۔ ٹرانسپورٹرز کا ردعمل بھی مختلف نہیں تھا۔ لاہور، کپتان کے پلان سی کا نہایت اہم مرحلہ تھا جسے اس نے اپنی سیاسی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ ہم سوموار کی صبح پونے آٹھ بجے واپڈا ٹاؤن سے شہر کے لئے روانہ ہوئے۔ واپڈا ٹاؤن اور پی آئی اے سوسائٹی کے سنگم پر راؤنڈ اباؤٹ سے شوکت خانم ، یہاں سے جوہر ٹاؤن کے کھوکھر چوک، پھر ڈاکٹر زاسپتال کا پُل عبور کرکے کینال روڈپر۔مال روڈ کے انڈرپاس تک زندگی معمول سے زیادہ تیز رفتار تھی۔ راستے میں بچے اسکولوں کو جاتے نظر آئے۔ لوگ موٹر سائیکلوں پر، سائیکلوں پر ، رکشوں پر ،ویگنوں اور گاڑیوں پر شہر کی جانب رواں دواں تھے۔ کہیں احتجاج کا نام و نشان نہ تھا۔ مال روڈ انڈر پاس پر کوئی دو درجن کے قریب ’’ٹائیگرز‘‘ ٹائروں کو آگ لگا کر محوِ رقص تھے۔ ان کے قریب ہی پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ ہم کلب روڈ والے چوک سے ڈیوس روڈ اور یہاں سے ایمپریس روڈ پر اپنے دفتر بخیروعافیت پہنچ گئے تھے۔ اس راستے پر سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی طرف سے اپنے کارکنوں کو گھروں میں بیٹھ رہنے کی تلقین قابلِ قدر تھی۔ خادمِ پنجاب نے عوام سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ احتجاجیوں کی اشتعال انگیز تقاریر ، حرکات اور اقدامات پر کسی ردعمل کا اظہار نہ کریں، تحمل و برداشت سے کام لیں اور پُرامن رہیں لیکن اسی اعلان میں انہوں نے یہ بھی فرمایا تھا کہ امنِ عامہ کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے جسے ہم ہر صورت پورا کریں گے۔ظاہر ہے، یہ آئینی و قانونی ذمہ داری انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے پورا کرنا تھی لیکن وہ تو خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ ٹی وی چینلز، خصوصاً ’’جیو‘‘ تصویر کے دونوں رُخ دکھا رہا تھا۔ بلوائیوں کی کارروائیاں بھی اور شہریوں کی اس خواہش کا اظہار بھی کہ وہ اپنی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ شب ’’خبرناک‘‘ میں انعام اللہ نیازی کہہ رہے تھے، اپنی طویل سیاسی زندگی میں انہوں نے کئی احتجاجی ہڑتالیں دیکھیں، وہ خود بھی اس احتجاج کا اہم کردار ہوتے تھے۔ بھٹو کے خلاف پی این اے کی ہڑتالیں اور پہیہ جام توبہت پرانی بات ہوچکی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کے خلاف نوازشریف کی ہڑتالیں تو کل کی باتیں لگتی ہیں۔تب صرف ہڑتال کا اعلان ہی کافی ہوتا تھا، باقی سب کچھ پُرامن ہوتا۔ تجارتی مراکز، مارکیٹیں اور بازار رضاکارانہ بند ہوتے۔ محترمہ کے دوسرے دور میں میاں صاحب نے ’’پہیہ جام‘‘ کی اپیل کی تو واقعی پہیہ جام ہوگیا۔ تب وٹو صاحب وزیراعلیٰ تھے۔ پہیہ جام کی ناکامی کا تاثر دینے کے لئے انہوں نے سرکاری اربن ٹرانسپورٹ کی مزدور یونین کی خدمات حاصل کیں۔اربن ٹرانسپورٹ کی سروس عرصۂ دراز سے اللہ کو پیاری ہوچکی تھی۔ اس کی ورکشاپس بسوں کے قبرستان بن چکے تھے۔ یہاں سے آٹھ ، دس کھٹارا بسوں کو مرمت کر کے حرکت کے قابل بنایا گیا۔ اس کے لئے وٹو صاحب نے یونین والوں کو چالیس لاکھ ادا کئے۔ شام کو پارٹی کے جیالے بھی چند بسوں پر سوار سڑکوں پر آئے۔ جیل روڈ کا انڈر پاس عبور کرتے ہوئے، بس کی چھت پر سوار کارکن زخمی بھی ہوئے جن میں سے چند اللہ کو پیارے ہوگئے۔
پُرامن اور رضاکارانہ شٹرڈاؤن کے ساتھ، کارکن احتجاجی جلسے کے لئے ریگل چوک میں جمع ہونے کی کوشش کرتے تویہاں پولیس سے مڈبھیڑ ہوجاتی۔ لاٹھی چارج اور پتھراؤ۔ اِدھر شام کے سائے پھیلتے ، اُدھر احتجاج سمٹنے لگتا۔
انعام اللہ نیازی کی بات درست تھی، ’’نئے پاکستان‘‘ کے علمبرداروں کا طرزِ احتجاج بھی نیا ہے۔ کپتان ایک طرف احتجاجی مہم کے پرامن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، ’’جس کی مرضی دکان کھولے ، جس کی مرضی نہ کھولے،جو چاہے دفتر جائے، جو چاہے نہ جائے‘‘ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی موجودگی میں، لاہور کے 18مقامات کا اعلان کیا جاتا ہے جہاں عمران ٹائیگرز’’دھرنا‘‘ دیں گے اور یوں سارے شہر کو بند کردیں گے۔ہفتے کی سہ پہر اعجاز چودھری اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے مال روڈ سمیت شہر کے اہم تجارتی مراکز میں تاجروں سے رابطہ کیا اور ہر جگہ سے انہیں کورا جواب ملا۔سوموار کی صبح’’پرامن احتجاج‘‘ کا آغاز میٹرو بس پر حملے سے ہوا۔ ’’جیو‘‘ لبرٹی چوک کا ایک منظر دکھا رہا ہے۔ ایک کار، ’’پرامن‘‘ ٹائیگرز کے نرغے میں ہے اور ڈرائیونگ سیٹ پر موجود شخص ان کے گھونسوں اور مکوں کی زد میں۔ زور، زبردستی ، دھونس اور تشدد کے یہ مناظر جا بجا ہیں۔ کپتان کا کہنا تھا، وہ اہلِ لاہور کو ان کے حقوق دلانے کے لئے آرہا ہے لیکن اس کے ’’ٹائیگرز‘‘ لاہور والوں کا یہ حق تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ وہ اپنی دکانیں کھول سکیں، اپنے دفاتر کو جاسکیں، شہر میں نقل و حرکت کر سکیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکیں، اپنے بچوں کو اسکول بھجوا سکیں ۔
اور اب کچھ ذکر ، لاہور کے حلقہ این اے 125کے حوالے سے نادرا رپورٹ کا۔ یہ ان چار حلقوں میں سے تھا کپتان نے ابتداء ہی میں جن کے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہاں خواجہ سعد رفیق نے 1,23,416اور تحریکِ انصاف کے حامد خاں نے 84,495ووٹ حاصل کئے تھے (تقریباً 39 ہزار کا مارجن)۔ یہ لاہور کے اہم ترین حلقوں میں شمار ہوتا تھاچنانچہ غیر جانبدار مبصرین ، میڈیا اور خود تحریک انصاف والوں کے لئے خصوصی اہمیت اور توجہ کا مرکز تھا۔ تحریکِ انصاف کا ’’اسٹرانگ ہولڈ‘‘ ڈیفنس بھی اسی حلقے میں تھا لیکن اس حلقے کے کل رجسٹرڈ ووٹوں 4,29,485 میں سے، ڈیفنس کے ووٹ صرف 50ہزار کے لگ بھگ تھے۔ ان میں سے 21ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے۔ ساڑھے تیرہ ہزار حامد خاں نے اور ساڑھے سات ہزار خواجہ سعد رفیق نے حاصل کئے ۔ اس حلقے میں تقریباً ڈھائی سو پولنگ اسٹیشن اور 700کے لگ بھگ پولنگ بوتھ تھے۔ کپتان کے بقول اس نے دھاندلی کے سدباب کے لئے اپنے ٹائیگرز کی خصوصی تربیت کا اہتمام کیا تھا، ’’ون بوتھ، ٹین یوتھ‘‘۔ پولنگ کے 8گھنٹوں کے دوران اور اس کے بعد بھی 40گھنٹے تک حامد خاں کی طرف سے کسی سطح پر کوئی تحریری (یا میڈیا کے روبرو کوئی زبانی) شکایت سامنے نہ آئی۔ (انہوں نے الیکشن ٹربیونل کے سامنے بھی یہ بات تسلیم کی) پولنگ کے دوران اور اس کے بعد بھی کوئی ایک ووٹ چیلنج نہ ہوا۔ حامد خاں الیکشن ٹربیونل میں گئے تو وہاں تاخیری حربے شروع کردیئے۔ الیکشن ٹربیونل جسٹس(ر) کاظم علی ملک پر مشتمل تھا۔ ایک مرحلے پر خان صاحب کے وکلا جج صاحب کی توہین پر اُتر آئے جس پر انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس کیس سے دستبرداری اختیار کرلی کہ اپنے پورے عدالتی کیریئر کے دوران انہیں دباؤ کے ایسے حربوں کا سامنا نہیں ہوا۔ چیف الیکشن کمشنر کے حکم پر یہ کیس فیصل آباد ٹربیونل میں منتقل ہوگیا۔ خواجہ سعد رفیق یاد دلاتے ہیں کہ ٹربیونل کی کارروائی کے دوران یہ حامد خان اور ان کے وکلا تھے جنہوں نے دوتہائی سے زائد ایڈجرنمنٹس لیں۔ فیصل آباد ٹربیونل نے اس حلقے کے پانچ پولنگ اسٹیشنوں پر ڈالے گئے ووٹوں کی جانچ پڑتال کا معاملہ نادرا کو ریفر کردیاگیا ۔ ہفتے کی شام کچھ ٹی وی چینلز پر ہاہا کار مچ گئی جیسے خواجہ سعد رفیق کی نااہلی کا فیصلہ صادر ہوگیاہو۔ 125 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں صرف 4صفحات ان پانچ پولنگ اسٹیشنز کی جانچ پڑتال کے حوالے سے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ ان پانچوں پولنگ اسٹیشنز پر حامد خاں جیتے تھے۔(کل 7,163میں سے 4,172ووٹ کاسٹ ہوئے، حامد خاں کو 2,785اور 1,335 خواجہ سعد رفیق کو حاصل ہوئے)۔کچھ ووٹ ، ایک سے زائد بار ڈالے گئے تھے۔ بعض انگوٹھوں کی شناخت نہ ہوسکی(لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ووٹ، پولنگ بوتھ پر ووٹرز کی شناخت کے بغیر ڈال دیئے گئے تھے)۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے، ایک سے زائد ووٹ ڈالنے والے ووٹرز کا سراغ لگا کر انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گااور یہ بھی کہ دھاندلی کا فائدہ تو جیتنے والے کو ہوتا ہے، یہ کیسی دھاندلی تھی جو کی تو خواجہ سعد رفیق نے، اور ان پولنگ اسٹیشنز پر جیت اُن کے حریف کی ہوئی؟
تازہ ترین