• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل چارلس ڈیگال کا کہنا ہے ۔۔۔’’ ایک رہنما نگاہ بلند، ارفع عزم اور جانچ کی بہترین صلاحیتیں رکھتے ہوئے محدود سوچ کے مالک عوام الناس سے کہیں ممتاز ہوتا ہے ۔ ‘‘میرا خیال ہے ، اور ممکن ہے میں غلطی پر ہوں اور اگر ایسا ہواتو پھر غلطی کی معافی مانگنے سیہون شریف جانا پڑے گا، کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ کا سب سے اہم واقعہ نومبرکے بعد پیش آئے گا جب جنرل راحیل شریف کے عہدے کی مدت تمام ہوگی اور اُن کا جانشین عہدہ سنبھالے گا۔ میں شرطیہ طور پر کہہ سکتا ہوں کہ جب اُن کی تقریب الوداعی جی ایچ کیو میں منعقد ہوگی اور وہ قواعد کے مطابق کمان سے دستبردار ہوں گے تو اُن کے چہر ے پر ویسی اداسی اور بے کلی دکھائی نہیں دے گی جیسی جنرل مشرف کے چہرے پر تھی جب وہ کمان جنرل کیانی کے سپرد کررہے تھے ۔ مشرف اپنے شاندار ماضی کو یاد کررہے تھے ، لیکن اُن کی نظر اپنے غیر یقینی مستقبل پر بھی تھی۔ اور ہوا بھی یہی ، کہ اُن کے اپنے نامزدکردہ جنرل کیانی اُن کے حق میں ایک طرح کے بروٹس ثابت ہوئے ۔
جنرل راحیل شریف کو کسی ایسے مسئلے کا سامنا نہیں، اُن کے حالات کلی طور پر مختلف ہیں۔ بطور ایک آرمی چیف ماضی کی کامیابی اُن کے پیچھے ہے، لیکن ایک شاندار مستقبل بھی اُن کے سامنے ہوگا۔ وہ وردی اتار چکے ہوں گے ۔ تاہم پاکستان کے معروضی حالات اور جنرل صاحب کی عوامی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے شاید جلد ہی کوئی موقع، یا ترغیب سامنے آئے اور پاکستانی سیاست کے گدلے پانی میں قدم رکھ دیں۔ ملک کے بہت سے حلقے اُنہیں ایک قومی ہیروگردانتے ہیںکیونکہ اُنھوں نے مشکل ترین چیلنجز کا سامنے آکر مقابلہ کیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل راحیل شریف قابل ِ رشک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ کسی آرمی چیف کو قوم نے اتنی پذیرائی نہیں دی جتنی جنرل راحیل شریف کو۔ ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے، کہ آرمی چیفس کی خوشامد کی جاتی ہے اور جب وہ اپنے عہدے پرہوتے ہیں تو اُن سے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی دیکھنے میں آتی ہے ،لیکن جیسے ہی وہ اپنے عہدے سے فارغ ہوتے ہیں تو اگر اُن کی کردار کشی نہ کی جائے تو بھی اُنہیں فراموش کردیا جاتا ہے ۔ لیکن جنرل راحیل کا شمار ان میں نہیں ہوتا۔ اُن کو اس قدر عوامی حمایت اس لئے ملی کیونکہ اُنھوں نے فاٹااورکراچی میں بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، اور ہر سانحے پر وہاں پہنچے ۔ چنانچہ یہ بات بلاجھجھک کہی جاسکتی ہے کہ جب اُن کے عہدے کے مدت تمام ہوگی تو وہ عوامی حافظے سے ہرگز نہیں اتریں گے ، بلکہ اُن کا امیج مزید طاقتور ہوگا۔
اس کی کچھ وجوہ ہیں، جیسا کہ (1)ملک میں قیادت کا خلا، (2)جذباتی سوچ رکھنے والا ملک ہمیشہ کسی نجات دہندہ اور فعالیت دکھانے والے رہنما کا منتظر رہتا ہے ، اور (3)کوئی بھی جنرل راحیل شریف سے بڑھ کر قوم کا نجات دہندہ دکھائی نہیں دیتا۔ گزشتہ تین سال تک، جبکہ وہ آرمی چیف رہے ، یہ تاثر تقویت پاتا گیا۔ اس کے علاوہ قسمت کی دیوی بھی اُن پر مہربان رہی ۔ وہ بھی ناکامی سے دوچار ہو سکتے تھے ، اگر سازشی عناصر کامیاب ہوجاتے اور وہ 2014 ء کے دھرنوں کے دوران اقتدار پر قبضہ کرلیتے تو یہ اقدام سیاسی طور پر اُن کی ساکھ کے لئے مہلک ہوتا ۔ نہ تو فاٹا کے معاملات درست ہوپاتے اور نہ ہی کراچی کے حالات سدھرتے ، اور کراچی پر سابق باس کا ہی سکہ چلتا، اور اقتدار پر قابض سیاسی اشرافیہ ، جس کے ختم ہونے کا فی الحال کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا، ایک مرتبہ پھر شہید بن کر جمہوریت کی چیمپئن بن کر ابھرتی، بالکل جیسے مشرف کے شب خون کے بعد ہوا تھا۔ اور پاکستان مزید ایک عشرے کے لئے واپسی کی راہ پرچل دیتا۔ جنرل صاحب کے سامنے ایک پرکشش ترغیب ضرور تھی اور کوئی بھی عام انسان اس کا شکار ہوجاتا۔ دوسری کشش مدت ِ ملازمت میں توسیع تھی۔ اگر جنرل راحیل شریف بدعنوان اشرافیہ کے ہاتھوں کسی قسم کی توسیع قبول کرلیتے ، چاہے یہ تین ماہ کی ہوتی یا تین سال کی، تو وہ اپنی ساکھ اپنے ہاتھوں تباہ کر لیتے ۔اور یہاں اُن کی عظمت کا سفر اختتام پذیر ہوتا۔ دولت مند اشرافیہ ہنستے مسکراتے اپنے بنکوں کی طرف دیکھتی جہاں اُن کے اربوں روپے محفوظ ہیں، اُن کے پریشان چہرے ہشاش بشاش ہوجاتے ۔
ایک فیلڈ مارشل کا عہدہ حاصل کرنے کی کوشش، اور یہ شوشہ بھی سازش کی تھیوریاں تخلیق کرنے والوں نے ہی چھوڑا تھا، بھی ان کے حق میں زہر کا پیالہ ثابت ہوتی ۔ فیلڈ مارشل کا baton ہاتھ میں اٹھائے ، رومیل اور مینسٹینز کی نقل کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف ہمالیہ سے لے کر بحیرہ عرب تک خود کو مذاق کا نشانہ بنا لیتے ۔ لاہور ی اُن پر اتنے جملے کستے کہ وہ پریشان ہو کر سوچنے لگتے کہ اب وہ اپنے اس baton کو چھپائیں تو کہاں۔ شبیر شریف شہید کی وراثت، ستارہ جرات، نشان ِ حیدر، ہمیشہ کے لئے آلودہ ہوجاتی۔ اشرافیہ دل کھول کر قہقہے لگاتی ۔ جنرل راحیل شریف کے لئے ایک تیسرا پھندا بھی لگایا گیا تھا جس میں وہ پھنس سکتے تھے ۔ جب اُنھوں نے گزشتہ جنوری کو اعلان کیا کہ وہ مدت ِ ملازمت میں توسیع لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے ، اور نہ ہی وہ ایسا کریں گے ، تو خدشہ تھا کہ اس اعلان کے بعد وہ آرام سے کرسی پر بیٹھ کر وقت گزارتے ہوئے غیر فعال نہ ہوجائیں، لیکن خدا کا شکر ہے ایسا نہ ہوا۔ وہ ہمہ وقت فعال اور متحرک دکھائی دئیے ۔ اشرافیہ پریشان کن نظر وں سے اُنہیں سامنے آکر جنگ کی قیادت کرتے دیکھتی اور اپنا خون جلاتی رہی ۔ اُن کی ڈیفنس ڈے پر جی ایچ کیو میں تقریر کسی آرمی چیف کی تقریر نہ تھی، یہ پورے قومی منظر نامے کا ایک جائزہ تھاجو مسلح افواج کی کارکردگی کا احاطہ کرتا تھا کہ کس طرح اُنھوں نے بے مثال قربانیاں دے کرد ہشت گردوں کے چنگل سے قومی خود مختاری کو واپس چھینا۔ اس میں حکومت کے کردار کا ہلکا سا ذکر بھی نہ تھا، اور شاید یہ بات درست تھی کیونکہ دہشت گردوں سے ریاستی عملداری واپس لینے میں حکومت کا کردار صفر تھا۔ جمہوریت کے نام نہادچیمپئن اس خطاب پر برافروختہ ہوئے ہوں گے۔ ایک قوم کے لیڈر کے ہونٹوں پر یہی الفاظ جچتے تھے۔
آج پاکستان میں سب سے بڑی حقیقت یہی ہے ۔ سیاسی اشرافیہ نے اُس چیز پر قبضہ کیا ہوا ہے جو آسانی سے اُن کے ہاتھ لگ سکتی تھی، جو کہ دولت ہے ۔ اُنھوں نے خفیہ ڈیل سازی کو ایک فن کا درجہ دے دیا ہے ، جبکہ مشکل فیصلے کرنے کا فریضہ فوج کے سپرد کرکے اس سے بے نیاز ہوگئے ہیں۔ چنانچہ آرمی چیف کا خطاب ایساتھا جیسے سیزر اپنے افسروں سے مخاطب ہو اور وہ رومن سینٹ اور سیاست دانوں پر مطلق توجہ نہ دے ۔ ماضی کی مثال شاید مستقبل پر روشنی ڈالنے میں معاون ثابت ہو۔ جب بھٹو صاحب 1966 میں وزیر ِ خارجہ کے منصب سے دستبردار ہوئے تو اُنہیں راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر الوداع کہنے صرف مٹھی بھر خیر خواہ ہی موجود تھے ، لیکن اگلی صبح لاہور ریلوے اسٹیشن پراُن کا جو استقبال ہونے والا تھا ، وہ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ وہاں پلیٹ فارم، اوورہیڈ برج، ہر طرف جذباتی ہجوم تھا۔ بھٹو نواب آف کالا باغ کے ساتھ لنچ کرنے گورنر ہائوس گئے ، جبکہ گاڑی اُن کا انتظار کرتی رہی ۔ جب وہ لنچ کے بعد واپس آئے تو ہجوم ابھی تک پلیٹ فارم پر ہی تھا ۔ وہ اپنے سیلون میں داخل ہوئے ، کچھ دیر تک دروازے پر کھڑے رہے ، عوام کا والہانہ پن دیکھ کر فرط ِ جذبات سے آنکھیں بھر آئیں، اُنھوں نے رومال سے آنکھیں صاف کرکے اُسے عوام کی طرف اچھالا۔عقیدت سے مغلوب جذباتی عوام نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تو بہت سے ہاتھوں میں تار تار ہوگیا۔ ایک سال بعد بھٹو صاحب نے پی پی پی کی بنیاد رکھ دی۔
یہ میرے احساسات ہیں، یا میں چشم ِ تصور سے دیکھ رہا ہوں کہ جب جنرل راحیل شریف آرمی چیف نہیں ہوں گے تو ایسا ہی استقبال اُن کا بھی انتظار کررہا ہے ۔ اس وقت یہ قوم پیسے کے پجاری اور بے سمت سیاست دانوں کی گرفت میں ہے ۔ اس کے سامنے نہ کوئی منزل ہے ، نہ مقصد۔ پاکستان کو بچا لیا گیا، دہشت گردی کی طاقتوں کو شکست ہوگئی، اس کی خود مختاری بحال کردی گئی ، لیکن قیادت کا خلا باقی ہے ۔ بدعنوان رہنما قوم کا بیڑا غرق کردیتے ہیں، جس طرح بدعنوان سیاست دانوں نے سوویت یونین جیسی عقربی سپرپاور کو تباہ کردیا ۔ طاقتور رہنما قوم کو سربلند کردیتے ہیں، جس طرح ولادیمر پیوٹن نے روس کی کھوئی ہوئی عظمت لوٹادی ۔ پاکستان بھی اپنے کسی ’’پیوٹن ‘‘ کا انتظار کررہا ہے جو آگے بڑھے اور اس کے گراوٹ کے سفر کو روک دے ، اسے مقصد اور منزل سے آشنا کردے ۔ پاکستان کو اس لمحے کا انتظار ہے ۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہ جنگ آزما فوج اب کسی ضیا الدین بٹ کو برداشت نہیں کرے گی۔ یہ فیصلہ فوج کی طرف سے آئے گا، دولت مند سیاسی اشرافیہ کی طرف سے نہیں، کہ جنرل راحیل شریف کی وارثت کو کون آگے بڑھائے گا۔

.
تازہ ترین