• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مشکل تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں جس کی زبان ذرا تیز چلتی ہے اور شومئی قسمت سے اسے کوئی فورم بھی میسر آگیا ہے، تو عقل کل ہونے کے ناطے زیر آسمان ہر موضوع پر طبع آزمائی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ پچھلے دنوں نیو کلیئر سپلائرز گروپ (NSG) کا غلغلہ اٹھا، تو ان گنہگار آنکھوں نے چینلز پر ایسے ایسے بقراط بھی دیکھے جنہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ NSG کس چیز کا مخفف ہے۔ وہ اسے نیو کلیئر سیفٹی گروپ کہہ رہے تھے۔ ایسے ’’ماہرین‘‘ کو جان لینا چاہئے کہ ہر شعبہ ہر کسی کے لئے نہیں ہوتا، اور ہر موضوع پر طبع آزمائی سبکی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ اور پھر جوہری معاملات تو اس قدر پیچیدہ ہیں کہ سینئر سفارت کاروں کے بھی پر جلتے ہیں۔ اسی لئے تو ویانا، جینوا اور نیویارک کے مشنز میں تقرر کے لئے اہل سفارت کاروں کا کال پڑا رہتا ہے۔ یہی حال فارن آفس میں ڈس آرمامنٹ ڈویژن کا بھی ہے جہاں تقرر کے لئے برائٹ اور نیو کلیئر ڈپلومیسی کو سمجھنے والے اہلکار بھی وافر تعداد میں میسر نہیں ہوتے۔
یہ NSG یعنی نیو کلیئر سپلائرز گروپ ہے کیا؟ یہ جوہری مواد سپلائی کرنے والے ممالک کا 48رکنی گروپ ہے۔ جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے لئے استعمال ہونے والے مواد، آلات اور ٹیکنالوجی کی برآمد کو کنٹرول کرکے ایٹمی پھیلائو کو روکنا ہے۔ ضرورت اس کی یوں محسوس ہوئی کہ بھارت ایک عرصے سے پرامن استعمال کے بہانے جوہری مواد جمع کرتا آیا تھا اور اس کی بنیاد پر مئی 1974ء میں جوہری ٹیسٹ کرلیا۔ جس پر عالمی طاقتوں کے کان کھڑے ہوئے اور جوہری پھیلائو کی پیش بندی کا اہتمام ضروری سمجھا گیا۔ ابتدائی ارکان میں مغربی جرمنی، فرانس، جاپان، سوویت یونین اور امریکہ شامل تھے۔ چین نے اس تنظیم کی رکنیت 2004ء میں حاصل کی۔ NSG کا بنیادی رکن ہونے کے باوجود امریکہ نے سول نیو کلیئر ٹریڈ کے حوالے سے بھارت کے معاملے میں ہاتھ ہولا رکھا اور جانبدارانہ رویے کا مرتکب ہوا۔ جس پر گروپ کے رکن ممالک نے پہلے تو واویلا کیا اور پھر امریکی دبائو پر بھارت کو کھلی چھٹی دے دی کہ NPT پر دستخط نہ کرنے کے باوجود جہاں سے جی چاہے جوہری مواد، آلات اور ٹیکنالوجی درآمد کرسکتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جس NSG کی تخلیق ہی بھارت کی ایک شرارت کے ردعمل کے طور پر ہوئی تھی، اس کے ارکان اسی بھارت کی بلائیں لیتے نہیں تھکتے اور اسے گروپ کا رکن بنانے کے لئے بے چین ہیں۔ اس قبیلے کا سرخیل امریکہ ہے۔ اور صدر اوباما نے اظہار شوق کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ انڈیا کے اپنے دونوں دوروں (2010ء اور 2015ء) کے دوران موصوف نے NSG کی رکنیت کے لئے امریکی سپورٹ کا اعلان ببانگ دہل کیا۔ جون 2016ء میں نریندر مودی واشنگٹن پدھارے، تو تب بھی اوباما صاحب نے اپنی اس کمٹمنٹ کو بالالتزام دہرایا۔
تمام تر عالمی دبائو کے باوجود 1998ء میں پاکستان نے بھارت کے چھ جوہری دھماکوں کا جواب سات دھماکوں سے دیا، تو ردعمل سخت تھا۔ مگر پاکستان، امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کو بڑی حد تک باور کرانے میں کامیاب رہا تھا کہ یہ ’’جرم‘‘ پہلے بھارت نے کیا تھا اور اپنی سلامتی کی خاطر پاکستان کے پاس مناسب جواب دئیے بغیر کوئی چارا نہ تھا۔ آنے والے برسوں میں امریکہ نے بھی یہی تاثر دینے کی کوشش کی کہ جوہری معاملات میں وہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں سلوک کررہا ہے۔ مشکل اس وقت پیدا ہوئی جب 2008ء میں امریکہ۔ انڈیا سیف گارڈ ایگریمنٹ IAEA (انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی) بورڈ کی منظوری کے لئے پیش ہوا۔جہاں پاکستان معالےکو ٹھیک طور پر ہینڈل نہ کرسکا اور جس کی صدائے بازگشت پچھلے دنوں میڈیا کے علاوہ مختلف فورمز پر بھی سنی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ویانا میں اس وقت کے سفیر پاکستان جناب شہباز (مرحوم) نے IAEA بورڈ میں مذکورہ معاہدے پر اعتراضات داخل کئے تھے۔ مگر انہیں فالواپ سے روک دیا گیا تھا، اور یہ حکومت کی ہدایت پر ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کے یورپی ہیڈ کوارٹرز جینوا میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب ضمیر اکرم کا کہنا ہے کہ پی پی سرکار نے یہ فیصلہ واشنگٹن میں اپنے سفیر حسین حقانی کے مشورے سے کیا تھا۔ جنہوں نے بورڈ کے اجلاس سے پہلے ہی اسلام آباد کو معاہدے کی مخالفت کے سنگین نتائج سے اس حد تک ڈرایا تھا کہ پاکستان نے گھٹنے ٹیک دئیے۔ اور IAEA کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں ووٹنگ نہ کرانے اور مذکورہ معاہدے کی راہ نہ روکنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد تو بھارت کے لئے جوہری مواد، آلات اور ٹیکنالوجی کی درآمد کوئی مسئلہ ہی نہ رہی۔ اور NPT پر دستخط کئے بغیر اور NSG کا رکن بنے بغیر ہی عملی طور پر وہ جملہ فوائد حاصل کررہا ہے۔ ایسے میں NSG کی رکنیت اس کے لئے تکنیکی معاملےسے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ حسین حقانی کا اس سلسلے میں موقف یہ ہے کہ ووٹنگ کا مطالبہ نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے پاس مطلوبہ ووٹ نہیں تھے اور ووٹنگ پر اصرار سبکی کا باعث بنتا۔
ہر معامے پر چین کی جانب دیکھنے کی پاکستانی سائیکی NSG کی رکنیت کے حوالے سے بھی کارفرما ہےاور ہماری اسٹرٹیجی کی سب راہیں غالباً بیجنگ سے ہوکر نکلتی ہیں۔ اس حوالے سے بھارت بھی چوکس ہے۔ NSG کی رکنیت کے حوالے سے چین کے دو ٹوک موقف کے باجود بھارت مایوس نہیں ہوا، اور چین کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ وزیر خارجہ شوشماجی کا ماننا یہ ہے کہ سیاست اور سفارت کاری میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ ناممکن کو ممکنہ بنانا ہی سفارت کاری کی معراج ہے۔ ایک بار کا انکار سدا کا انکار نہیں ہوتا۔ چین نے اگر ایک بار نو کہہ دیا، تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہوگئے۔ ایسے میں پاکستان کے مقتدر سفارتی حلقے خبر دے رہے ہیںکہ سال ختم ہونے سے پہلے امریکہ بھارت کو NSG کی رکنیت دلانے کی ایک اور بھرپور کوشش کرے گا۔ جس کے لئے موزوں وقت غالباً اکتوبر کا ہے۔ جب NSG کے مشاورتی گروپ کا اجلاس ہونے جارہا ہے۔ امریکہ کو غالباً اس لئے بھی جلدی ہے کہ نومبر میں صدارتی انتخابات ہورہے ہیں اور صدراوباما کی خواہش ہوگی کہ وہائٹ ہائوس چھوڑنے سے پہلے بھارت سے کیا گیا وعدہ ایفا کرسکیں۔ مگر قرآئن بتا رہے ہیں کہ معاملہ اس قدر جلد نمٹنے والا نہیں۔ کم از کم ایک برس تک تو ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں۔ یہ وقفہ پاکستان کے لئے نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ اس دوران اسلام آباد کو اپنی تمام تر توانائیاں اس ایک نکتے پر مرکوز کرنا ہوں گی کہ NSG کی رکنیت پر جتنا حق بھارت کا ہے، اتنا ہی پاکستان کا بھی ہے۔ اگر اب بھی چوک گئے، تو راہ شاید کچھ زیادہ ہی طویل ہوجائے۔

.
تازہ ترین