• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمی پبلک اسکول پشاور کے یہ معصوم بچے‘ میرے چمن کے یہ ننھے پھول اور معصوم کلیاں‘ ان کے دلوں میں کیا کیا ارمان تھے‘ میں بڑا ہو کر کیا بنوں گا‘ اپنے ملک و قوم کی کس طرح خدمت کروں گا‘ دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے گا ہر طرف مِرے چمکنے سے اجالا ہو جائے گا…ان کی مائوں نے 16دسمبر کی صبح کس مامتا کے ساتھ اپنے ان نو نہالوں، اپنے جگر کے ٹکڑوں کو حصولِ تعلیم کیلئے رخصت کیا ہو گا۔ سوچتا ہوں کہ پھر اسی شام اپنے لاڈلوں کی لاشوں کے ٹکڑے وصول کرتے ہوئے ان کا سینہ کیسے چھلنی ہوا ہو گا…شب بھر مجھے ان دمکتے چہرے والے معصوموں کی چیخیں، آہیں اور سسکیاں سنائی دیتی رہیں وہ اپنے پیاروں کو پکار رہے تھے کوئی ہے جو ہماری مدد کو آئے۔ گولیوں سے چھلنی تڑپتے نحیف جسموں کو کیسے دیکھا جا سکتا تھا جب وہ اپنی لڑکھڑاتی زبان سے یہ کہہ رہے تھے ’’ماں میں مر رہا ہوں مجھے بچا لے‘‘ اور پھر Inboxمیں میرے دوست وقاص لیاقت کا میسج لکھا ملا ’’ماں میرے یونیفارم پر سیاہی گر گئی ہے ڈانٹنا مت‘‘ …’’ماں میرا یونیفارم میرے لہو سے لال ہو گیا ہے لیکن تم رونا مت…‘‘ اور یہ بیچاری دکھیاری مامتا کی ماری آنسووں اور آہوں کے ساتھ پاگلوں کی طرح کبھی آرمی پبلک اسکول اور کبھی لیڈی ریڈنگ اسپتال بھاگتی پھر رہی ہے۔ ’’ہائے میرے لعل آواز دے تو کہاں ہے…؟ ہائے میری معصوم کلی تجھے کس ظالم نے مسل دیا ہے۔ آج جب یہ مائیں فریادیں کر رہی ہیں کہ ان کے جگر گوشوں کو کس جرم میں قتل کیا گیا ہے؟ تو وطن عزیز کا کوئی صحافی، کوئی دانشور، کوئی سیاستدان، کوئی جزل، کوئی اسکالر انہیں جواب دے کہ آخر اس اندوھناک سانحہ کا کارن کیا ہے؟ یہ قیامت کیوں ٹوٹی؟ یہ کہ ’’آپریشن ضرب عضب کا رد عمل ہے‘‘آپریشن ضرب عضب کی نوبت کیوں آئی؟ ’’یہ کہ دہشت گردی بے قابو ہو گئی تھی‘‘ دہشت گردی شروع ہی کیوںہوئی؟ ’’اس لئے کہ مسلمانوں کے ساتھ نا انصافیاں ہو رہی تھیں‘‘ بہت خوب آپ مسلمانوںکے ساتھ نا انصافیوں کا خوب بدلہ لے رہے ہیں… ہم پوچھتے ہیں آرمی پبلک اسکول پشاور کے ان ننھے منے بچوں اور بچیوں نے کونسی نا انصافیاں کی تھیں جن کے بدلے اتارے جا رہے ہیں اور جو ناانصافیاں آپ لوگ کر رہے ہیں ان کے بدلے کس سے اتارے جائیں؟
میڈیا جائزے پیش کرنے والے ذرا اپنی میڈیا رپورٹس تو ملاحظہ فرمائیں۔ حملے کی ذمہ داری قبول فرمانے والے ان کے طالبان بھائی کیا فر ما رہے ہیں… ’’جب تک قبائلی علاقوں میں بمباری جاری ہے اس وقت تک ہمارے حملے بھی جاری رہیں گے‘‘ نامعلوم مقام سے صحافیوں کو ٹیلی فون کرتے ہوئے امیر یوسف رضا مجاہد صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’آرمی پبلک اسکول پر حملہ طالبان کمانڈر عدنان الشکری کے قتل کا بدلہ ہے اور قبائلی علاقوں پر حملے بند نہ کئے گئے تو ملک بھر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا‘‘ دوسری طرف تحریک طالبان کے مرکزی ترجمان محمد عمر خراسانی نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ ہم نے تو اپنے چھ مجاہدین کو یہ ہدایت کی تھی کہ سکول میں بڑی عمر کے بچوں کو مارنا ہے یہ نہیں کہا تھا کہ چھوٹی عمر کے بچوں کو بھی مارڈالا جائے اس سلسلے میں اگر ان جنگجووں سے غلطی ہوئی ہے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے اصل قصور تو ان کا ہے جو شمالی وزیرستان میں ضرب عضب اور خیبر ایجنسی میں آپریشن خیبرون کر رہے ہیں‘‘۔جناب امیر خالد خراسانی نے اور بھی بہت کچھ فرمایا ہے جو یہاں لکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا جواب چھاپا جا سکتا ہے ان سے بھی زیادہ مومنانہ و مجاہدانہ بیان ہمارے لشکر طیبہ کے امیر کا ہے جسے تقریباً تمام قومی اخبارات نے اہتمام کے ساتھ شائع فرمایا ہے حضرت کا فرمانا ہے کہ ’’یہ سب را کا کیا دھرا ہے سانحہ سقوط ڈھاکہ کی طرح سانحہ پشاور میں بھی انڈیا ملوث ہے جس نے منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی کیلئے سقوط ڈھاکہ کے دن کا انتخاب کیا ہے لہٰذاایسی کاروائیوں کو جہاد اور مجاہدین کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے‘‘۔
اس سے ہماری قوم میں موجود کنفیوژن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ ایک نظر بد نصیب سکول کے زخمی ہونے والے بچوں کے بیانات پر ڈالی جا سکتی ہے: ’’دہشت گرد اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے دروازے توڑ کر کلاسوں میں داخل ہوئے ہم کرسیوں کے نیچے چھپ گئے دہشت گردوں کی بڑی بڑی داڑھیاں تھیں اور وہ عربی بول رہے تھے انہوں نے بھاگنے والوں کو بھی نشانہ بنایا سر اور ٹانگوں میں گولیاں ماریں سب سے پہلے انہوں نے ہماری میڈم کو جلا دیا جو بچہ ہلتا حملہ آور اسے مار دیتے ایک کلاس روم میں بچوں کو جمع کیا اور دھماکے سے اڑا دیا… ریسکیو کے بعد جب ہم باہر نکلے تو ہمیں اپنے دوستوں کی لاشیں ملیں کچھ دوست زخمی ملے کسی کو سر میں گولی لگی تو کسی کو بازو میں اور کسی کو سینے میں۔ یہ حملہ فل پلاننگ کے تحت کیا گیا تھا کیونکہ دہشت گردوں میں سے کوئی ہال میں گھسا تو کوئی کمرے میں کوئی کہیں اور…‘‘ یہ جو بھی تھے جتنے بھی تھے لاریب یہ تھے تو ہمارے مسلمان بھائی، میڈیا میں ان کی جو تصاویر شائع ہوئی ہیں ان کے چہروں پر ایک نوع کا اطمینان محسوس کیا جا سکتا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ کوئی جرائم پیشہ چور ڈکیٹ نہیں بلکہ اپنے تئیں ایک بڑے مشن کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں جسے وہ عالمی خلافت اسلامیہ کا قیام قرار دیتے ہیں یہ مشن محض طالبان کا نہیں ہے، القاعدہ،حماس، جماعہ الاسلامیہ اخوان، داعش اور بوکو حرام جیسی تمام راسخ العقیدہ اسلامی تنظیمیں اسی نوع کے مقاصد رکھتی ہیں نائن الیون کے بعد بلاشبہ 16دسمبر کا یہ سانحہ پاکستان کا نائن الیون ہے۔ ہم اپنے اہل وطن سے درد مندانہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ گھٹن کی شکار اس اسلامی سوسائٹی میں آزادی اظہار کو آنے دیں جس طرح ان جہادی تنظیموں سے وابستہ تمام مذہبی اسلامی تحریکوں کو اپنے خیالات و نظریات کے اظہار کی آزادی ہے اس طرح ہم جیسے لبرل سیکولر مسلمانوں کو بھی یہ حق دے دیا جائے کہ وہ بھی اپنا مافی ضمیر بیان کر سکیں۔
اسلام کا ایک فہم وہ ہے جو حضرت مولانا صاحب رکھتے ہیں اور دوسرا فہم وہ ہے جو میرے جیسا لبرل سیکولر مسلمان رکھتا ہے۔ انہوں نے بھی زندگی بھر اس کو سمجھا ہے اور میں نے بھی زندگی بھر اسی پر ریسرچ کی ہے مسلم سوسائٹی ان کو ابلاغ کا جو حق دے رہی ہے آخر اظہار کا وہی حق مجھے کیوں نہیں دیا جا رہا جس کے بعد میں سلامتی کے ساتھ اپنے گھر واپس آسکوں؟ اگر بات بات پر اُن کے جذبات مجروح ہوتے ہیں تو ٹھیس ہمارے احساسات کو بھی لگتی ہے لیکن ہم نے تو کبھی یہ نہیں کہا کہ تمام شدت پسندوں کو مارڈالو سوائے انکے کہ جنہیں قانون کی اعلیٰ ترین عدالتیں سزا کامستوجب قرار دے چکی ہیں آخر ان عدالتی فیصلوں پر کیوں عمل درآمد نہیں ہونے دیا جا رہا؟ وہ ہم میں سے جس کو چاہتے ہیں مار ڈالتے ہیں آج انہوں نے ہمارے بچوں کو جس سفاکی سے مارا ہے اس کے بعد کیا سوسائٹی کے غیرجانبدار طبقات کی آنکھیں کھل نہیں جانی چاہیں؟ کیا اب بھی ہمارے تعلیمی نصاب پر نظر ثانی نہیں ہونی چاہئے؟
تازہ ترین