• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ادھر میں لاہور میں عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ایک تقریب منا کر لوٹی اور بے پناہ خوش تھی کہ 10؍دسمبر کو میں جا کر ملالہ کو تقریب میں دیکھوں گی، ابھی ان جذباتی لمحوں میں مبتلا تھی، سوچ رہی تھی کیا ان بھٹہ مزدوروں کا احوال لکھوں جن کے پیروں میں جوتی نہیں تھی مگر وہ ڈھول کی تھاپ پہ ناچ رہے تھے، کیا لیبر یونین کے مزدوروں کے نعرے مارنے کا جوش بیان کروں اور یہ بھی سوچ رہی تھی کہ طبیعت خراب ہونے کے باوجود عابد منٹو کی مدلّل تقریر آپ کو سنائوں یا عاصمہ کا یہ کہنا بیان کروں کہ اس ملک میں جمہوریت کے نام پر اب بھی وڈیرے اور جاگیردار مسلّط ہیں۔ خوشی کے مارے کبھی میں دیکھتی تھی کہ ان جانے دوست بھی گلے لگ رہے تھے،ننھی ننھی بچیاں پھولوں کے گل دستے ہاتھ میں لئے عاصمہ کی جانب بڑھ رہی تھیں۔سارا انتظام کرتی تنویر جہاں ایسی بھاگی پھر رہی تھی جیسے برات کا استقبال کر رہی ہو۔ رحمٰن صاحب کی آنکھیں بھی خوشی کے مارے چھلکی پڑ رہی تھیں۔ میں اور طاہرہ عبداللہ اسلام آباد واپس لوٹ رہے تھے اور پورے راستے ان خوبصورت لمحات کو یاد کر رہے تھے۔
ابھی میں اسی سرشاری میں مبتلا تھی اور دوستوں کو ٹیلیفون پر بتا رہی تھی کہ لاہور میں کن کن دوستوں سے ملاقات رہی کہ ضیاء کھوکھر کا فون آیا، میں سن ہو کر رہ گئی۔ میرے گھر جو اخبار آئے تھے ان میں یہ جانکاہ خبر نہیں تھی۔ یہ کیا، میں تو دسمبر کے مہینے سے ویسے ہی ڈرتی ہوں۔ استاد دامن بھی اسی مہینے میں گئے تھے اور اب سوبھو گیان چندانی نے رخصت چاہی۔ بقول ان کی بہو کے، وہ برآمدے میں کرسی پر بیٹھے تھے، وہ چائے بنا کر لائی تو پھر سوبھو صاحب نہیں تھے۔ 95؍برس تک کی زندگی میں لذتیں نہیں تھیں۔ہرچند جب بھی میں لاڑکانہ جاتی تھی، میرے لئے لازمی تھا کہ میں سوبھو صاحب کے گھر ضرور جائوں۔چھوٹا بیٹا اور بہو ساتھ رہتے تھے۔ بڑے بیٹے کی موت کے سانحے سے وہ دل برداشتہ اور خاندانی جھگڑوں کے باعث بہت آزردہ رہتے تھے۔عمر کے آخری لمحے تک وکالت نہیں چھوڑی۔ جو بھی آتا چاہے بے نظیر ہوں کہ آصف زرداری یا فریال تالپور لاڑکانہ آئیں تو ان سے ملنے ضرور آتے تھے۔ یہ الگ بات کہ ان کی نصیحتوں پر عمل نہیں کرتے تھے۔ سوبھو صاحب کو اس پر ملال بھی بہت ہوتا تھا۔ وہ بھی میری طرح مرتضیٰ کو بہت یاد کرتے تھے اور اس کی ذہانت کی باتیں دہرایا کرتے تھے۔ ان کا اپنا گھر تقسیم ہو گیا تھا اوردیواریں بہت اونچی ہو گئی تھیں۔ اس موضوع پر بہت کم بات کرنا چاہتے تھے۔ ویسے تو ہر شام دو، چار دیوانے نوجوان ان کے گھر آ کر سیاسی اور سماجی موضوعات پر باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بیٹھ کر یہ لوگ چلے جایا کرتے تھے۔
سوبھو صاحب دراز قد آدمی تھے۔ سارا شہر ان کو اپنا رہنما مانتا تھا۔ لاڑکانہ بار میں بھی سب لوگ فخر کرتے تھے کہ سوبھو صاحب کے باعث ان کے شہر کا نام اونچا ہے۔بیگم عباسی اور صفدر عباسی بھی بہت نازاں تھے کہ سوبھو صاحب کے باعث سماجیات میں شہر کا نام پہچانا جاتا ہے۔
میں کلکتہ گئی تو دو دن کیلئے شانتی نکیتن بھی گئی۔ سوبھو صاحب بھی وہاں رہ کر آئے تھے۔ ہم دونوں آپس میں وہ یادیں ضروردہراتے تھے۔ انہیں بھی میری طرح ٹیگور،انسانیت کا نمائندہ شاعر لگتا تھا۔ میں نے انہیں بتایا کہ اختر حمید خان بھی شانتی نکیتن کی طرز پر کومیلا کو بنانا چاہتے تھے مگر نہ وقت نے ساتھ دیا اور نہ سیاست نے۔ اسی طرز پر وہ بھی پشاور رورل اکیڈمی کو ڈھالنا چاہتے تھے اور بعدازاں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ میں کام کرتے ہوئے رخصت ہوئے۔
اسلام آباد کے سارے سوشل ورکر اوایکٹوسٹ پریس کلب کے باہر اکٹھے ہوئے اور سوبھو صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا۔ سب پریشان تھے کہ ایک زمانے میں شیخ ایاز آواز اٹھاتے تھے پھر سوبھو صاحب، بوری میں بند لاشوں اور اغواء شدہ لوگوں کی بازیابی کیلئے بار کونسل اور اخبارات میں احتجاج ریکارڈ کرواتے تھے۔ جب انہیں اکیڈمی نے انعام دیا تھا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ کون سے ادیب تھے، حالانکہ ان کی سندھی کہانیوں کا اردو ترجمہ اسلم راحیل مرزا نے کیا۔ انہوں نے جنرل مشرف کے ہاتھ سے پرائیڈ آف پرفارمنس لینے سے انکار کیا اور یہ اعزاز افتخار عارف کو حاصل ہوا کہ انہوں نے لاڑکانہ جا کر ان کو رقم اور اعزاز ان کے گھر میں جا کر دیا۔ وہ کمیونسٹ بابا سندھی قلندر کہلاتا تھا۔
اس ملال کو کم کرنے کیلئے میرے سامنے میری کیا پورے عالم کی بیٹی ٹیلی ویژن پر سامنے نظر آئی۔ پشتو گیت گاتے ٹکر صاحب کو دیکھ کر مطلب نہ سمجھنے کے باوجود ان کا ذوق و شوق اور وارفتگی نے نہال کر دیا۔ بالکل اسی طرح ایک نئی ترنگ میں راحت فتح علی خان نظر آئے۔ لگتا تھا کہ سب لوگ فخر و مسرت سے معمور اپنی پیاری بیٹی کو وہ سرخرو اعزاز ملتا دیکھ رہے ہیں جو کہ نہ کبھی تاریخ میں ہوا اور نہ کبھی شاید ہو۔ معصوم بچی جس کی آنکھوں کی روشنی میرے دل پر پڑ رہی تھی، ساری دنیا کی نگاہیں اسے معلوم تھا کہ اسے دیکھ رہی ہیں مگر وہ حوصلے کے ساتھ بولتی بھی رہی اور کھڑی بھی رہی۔ مجھے معلوم ہے میرے قائد کیلئے یہ کتنا پرسکون دن ہو گا۔ وہ ہر روز عورتوں کے قتل، اغواء اور تیزاب پھینکنے کے تشدد آمیز واقعات سنتے رہتے ہیں۔ آج میرے قائد کو عالمی اعزاز پر فخر محسوس ہو رہا ہو گا۔ میرے بیٹے نے اسپین سے کہا ’’امّی! آج غریبوں کو کھانا کھلایئے۔ آج مجھے بھی پاکستان کا نام سن کر خوشی ہو رہی ہے۔‘‘ یہ بیٹا 25؍برس سے ملک سے باہر ہے مگر خوشی کی خبر مدت بعد سن کر ہم سب لوگوں کی طرح خوش ہوا ہے۔ میری بیٹی ملالہ کو ابھی یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میں پاکستان کی وزیراعظم بنوں گی۔ ایسے سوچنا اس عمر میں غلط ہے۔ پہلے علم حاصل کرے، پاکستان کی ناپخت سیاست کو سمجھے، لوگوں میں پھیلے ہوئے مذہبی جنونیت کے جذبات کو تبدیل کر کے فلاحی اور انسانیت سے بھرپور وہ آئین اور سماجیات مرتب کریں کہ ہمیں انسانی حقوق کے علاوہ دوسرے ملکوں خاص کر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بنیادی سماجیات کو سمجھنا آ جائے۔ ابھی تو بلاول کا سیاست میں کودنا مناسب نہیں معلوم دے رہا ہے۔ ملالہ ابھی خواب مت دیکھو، بنا خواب دیکھے تمہیں اتنا بڑااعزاز ملا ہے، اللہ کرے تم یوں ہی آگے بڑھتی رہو۔
تازہ ترین