• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماں ! یونیفارم پر سیاہی گر گئی ہے ، ڈانٹنا مت ۔ اسکول سے گھر آنے والا ہر بچہ معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنی ماں کو پہلے سے مطلع کر دیتا ہے تاکہ وہ ڈانٹ سے بچ سکے لیکن 16دسمبر 2014ء کا دن ان ماؤں کو کبھی نہیں بھولے گا ، جن کے بچے گھر تو آئے مگراس حالت میں کہ وہ بول نہیں سکتے تھے اور پھر بھی یہ کہہ رہے تھے ’’ ماں ! یونیفارم تھوڑا سا لال ہو گیا ہے ، رونا مت ۔ ‘‘ ماں تو ماں ہوتی ہے ۔ اسے رونے سے کون روک سکتا ہے ۔ پشاور میں معصوم بچوں کے قتل عام پر تو پوری قوم رو رہی ہے ۔
یوں تو ہر 16 دسمبر کا سورج جب بھی طلوع ہوتا ہے ، پاکستان کی سرزمین پر ندامت اور دکھ کی کرنیں بکھیر دیتا ہے اور ہمارے قومی ضمیر پر جمی ہوئی برف کی دبیز تہہ کو تھوڑا سا پگھلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس مرتبہ منگل 16 دسمبر 2014 ء کا سورج قیامت صغریٰ بن کر طلوع ہوا ۔ خون سورج کی کرنوں سے زیادہ گرم تھا ۔ صبح تقریباً 10 بجے آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے کی خبریں جب ٹی وی چینلز پر آنے لگیں تو ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ قیامت برپا ہونے جا رہی ہے ۔ جس کسی کو بھی پتہ چلا کہ اسکول پر حملہ ہو گیا ہے ، اس کے منہ سے یہی دعا نکلی ’’ اے اللہ ہمارے بچے سلامت رہیں ‘‘ ۔ تھوڑی دیر بعد یہ خبریں آنے لگیں کہ اسکول سے تین معصوم بچوں کی لاشیں ملی ہیں ۔ یہ خبر سنتے ہی دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور ذہن کو وسوسوں نے گھیر لیا ۔ پھر لاشے ملنے کی تعداد بڑھتی گئی ۔ فضا سوگوار ہوتی گئی ، سڑکیں ویران ہونے لگیں اور ہر طرف سے یہ صدائیں آنے لگیں کہ یا اللہ رحم کر ۔ جب شام کو ٹی وی چینلز پر یہ خبریں آنے لگیں کہ پانچواں دہشت گرد مارا جا چکا ہے لیکن ایک سو سے زائد بچے بھی شہید ہو چکے ہیں تو خوف زدہ دل کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ایک عظیم المیہ رونما ہو چکا ہے ۔ یہ وہی وقت تھا ، جب 43 سال پہلے یعنی 16 دسمبر 1971ء کو ’’ رمنا ریس کورس ‘‘ گراؤنڈ ڈھاکا میں بھی پاکستانی قوم کے لیے ایک عظیم المیہ رونما ہوا تھا ۔ اس گراؤنڈ میں شام 4 بجکر 31 منٹ پر ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط ہوئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی سقوط ڈھاکا بھی ہو گیا تھا ۔ 16 دسمبر 1971ء اور 16 دسمبر 2014ء میں بہت گہرا تعلق ہے اور ان دونوں دنوں میں رونما ہونے والے عظیم المیوں کے اسباب بھی یکساں ہیں ۔ اگر ہم 16 دسمبر 1971ء کے عظیم المیہ سے سبق سیکھتے تو آج ہمیں اپنے معصوم بچوں کی لاشوں پر ماتم نہ کرنا پڑتا ۔ ہماری بے بسی دیکھیں، قاتل یہ اعلان کر رہے ہیں کہ انہوں نے ہمارے بچوں کے یونیفارم لہو سے سرخ کر دیے ہیں ، اس کے باوجود ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ ہم آج بھی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرنا چاہتے ۔ ہم نے بنگلہ دیش میں معصوم بچوں کے ہونے والے قتل عام پر احتجاج کیا ہوتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔ مصلحت اور خوف نے ہمیں بے بسی کی منزل تک پہنچا دیا ہے ۔ اس وقت ڈھاکا میں تعینات امریکی قونصل جنرل ’’ آرچر کینٹ بلڈ ‘‘ ( Archer Kent Blood ) بنگلہ دیش میں بے گناہ لوگو ں کے قتل عام پر چیخ پڑا تھا اور ہم خاموش تھے ۔ بلڈ نے تاریخ میں اپنا انوکھا احتجاج ریکارڈ کرایا ۔انہوں نے 6 اپریل1971کوامریکی وزارت خارجہ کے29 افسروں کے دستخط سے اپنی حکومت کو ایک ٹیلی گرام بھیجا ، جس میں انہوں نے امریکی حکومت کی پالیسی پر سخت تنقید کی اور کہا کہ بے گناہ لوگوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رکوانے میں امریکی حکومت ناکام رہی ہے ۔ یہ پالیسی خود امریکا کے لیے نقصان دہ ہے ۔ ’’ بلڈ ٹیلی گرام ‘‘ کو آج بھی ایک عظیم تاریخی دستاویز تصور کیا جاتا ہے۔ آرچر بلڈ کا ستمبر 2004ء میں انتقال ہوا تھا ۔ نائن الیون کا واقعہ بھی ان کی زندگی میں رونما ہوا تھا اور انہیں یہ کہنے کا موقع مل گیا تھا کہ امریکی پالیسیوں کا یہی نتیجہ نکلنا تھا ۔ جو بات آرچر بلڈ نے کہی ، وہ ہم چار عشروں تک کھل کر نہ کہہ سکے ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی لیڈر بھی اصل بات اپنے ملک کے حقیقی حکمرانوں کو نہ کہہ سکیں ۔ یہ بات انہوں نے بھی امریکی صدر سے جا کر کہی ۔ 1989 ء میں صدر جارج بش سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اپنی ملاقات میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجاہدین کے انتہا پسند گروہوں کی سرپرستی کے حوالے سے صدر بش کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ جناب صدر ! مجھے ڈر ہے کہ ہم نے ایک فرینکنسٹائن ( Frankenstein ) تخلیق کر ڈالا ہے ، جو ہمیں تنگ کرنے کے لیے واپس آئے گا ۔ ‘‘ فرینکنسٹائن عہد جدید کا ایک عفریت ہے ، جو لوگ خود پیدا کرتے ہیں اور خود ہی اس کے عذاب کا شکار ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں آزادی کے فوراً بعد ہی مذہبی انتہا پسندی کا فرینکنسٹائن تخلیق کر لیا گیا تھا، جس کی طاقت نسل پرستانہ عزائم تھے اور پاکستان کے نئے اقلیتی حکمرانوں نے اسے پاکستان کے عوام کی تاریخی ، تہذیبی اور ثقافتی شناخت کو مٹانے اور ان کے قومی جمہوری جوہر کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا ۔ اس فرینکنسٹائن نے بنگلہ دیش ( سابقہ مشرقی پاکستان ) میں البدر اور الشمس کا روپ دھارا ۔ سقوط ڈھاکا کے بعد پی این اے کی تحریک کی صورت میں ظاہر ہوا ۔ اسی نے بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا ۔ اس فرینکنسٹائن کو امریکی صحافی اسٹیو کوائل ( Steve Coil ) کی کتاب ’’ گھوسٹ وارز ‘‘ کے مطابق پاکستان کی حکمران اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اسٹرٹیجک پارٹنرز کے طور پر انڈیا اور افغانستان میں ’’ پراکسی وار ‘‘ کے لیے استعمال کیا ۔ اسی فرینکنسٹائن کو بعض نام نہاد سیاسی قوتوں نے اپنا نظریاتی اتحادی قرار دیا ۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں امریکا نے اسی فرینکنسٹائن کو طالبان اور القاعدہ کی صورت میں استعمال کیا اور اسی حوالے سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے صدر جارج بش کو متنبہ کیا تھا ۔ اسی فرینکنسٹائن نے ایم آر ڈی کی تحریک کے بعد کراچی سے شروع ہو کر پورے ملک میں پھیلنے والی دہشت گردی کے ذریعہ ہزاروں معصوم پاکستانیوں کا خون پیا ۔ اسی فرینکنسٹائن کو نائن الیون کے واقعہ کے بعد جب ہمارے دشمنوں نے استعمال کرنا شروع کیا تو اچھے اور برے طالبان کی تفریق پیدا ہوئی لیکن ہم یہ بھول گئے کہ جو فرینکنسٹائن ہمارے لیے برا ہے ، وہ کسی دوسرے کے لیے اچھا ہو سکتا ہے ۔ اسی فرینکنسٹائن نے نائن الیون کے بعد پشاور میں شہید ہونے والے ہمارے معصوم بچوں سمیت 60 ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہایا ۔ ان میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیںاور ہماری مسلح افواج ، نیم فوجی اداروں ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور جوان بھی شامل تھے ۔ ۔ اسی فرینکنسٹائن نے 2013ء کے عام انتخابات میں مرکز ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومتیں بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ یاد رہے کہ یہ وہی فرینکنسٹائن ہے ، جو پاکستان کے لوگوں کی شناخت مٹانے ، قومی جمہوری تحریکوں کو کچلنے اور پاکستان کو ایک نظریاتی مذہبی ریاست بنانے کے لیے مذہبی انتہا پسندی کی صورت میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے تخلیق کیا تھا ۔ یہ اس وقت سے اپنی شکلیں بدل رہا ہے اور زندہ لوگوں کا خون بہا رہا ہے ۔ پشاور میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کے بے گناہ خون کا واسطہ ہے کہ اس فرینکنسٹائن سے جان چھڑائی جائے ۔ اس کے لیے ان نظریات سے توبہ کرنی ہو گی ، جو پاکستان کو ایک فطری اور قومی ریاست بنانے کے بجائے نظریاتی ریاست بنانے کے لیے دلالت کرتے ہیں۔ ورنہ 16 دسمبر بار بار رونما ہوتے رہیں گے ۔
تازہ ترین