• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی قیادت سے اسی ذمہ دارانہ رویے کی توقع تھی۔ وزیراعظم نے سنگین قومی سانحہ کی اطلاع پاتے ہی پہلے سے طے شدہ تمام مصروفیات ترک کیں اور پشاور پہنچ گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ریپڈ ایکشن فورس تو تشکیل نہیں پاسکی تھی، البتہ وزیراعظم نے ریپڈ ایکشن میں لمحہ بھر تاخیر نہ کی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی شتابی سے پہنچے۔ عمران خاں بھی صرف پانچ گھنٹے بعد بنی گالہ سے روانہ ہوگئے۔وزیراعظم نے قومی سلامتی کو درپیش سنگین ترین چیلنج کے لیے سیاسی قیادت سے مشاورت کا فیصلہ کیا۔ تباہ حال معیشت کے ساتھ دہشت گردی کی جنگ بھی انہیں ورثے میں ملی تھی جس کے لیے انہوں نے گزشتہ سال 9ستمبر کو پارلیمنٹ میں موجودہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت سے مشاورت کا اہتمام کیا۔ قومی سلامتی کانفرنس نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ سے قبل امن کو موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ مذاکرات کی حکمتِ عملی کامیاب نہ ہوسکی لیکن اس کے نتیجے میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کے لیے قوم میں یکسوئی اور یکجہتی پیدا ہوگئی اور یہ معمولی اچیومنٹ نہیں تھی۔ دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی کے لیے قومی یکجہتی بنیادی ضرورت تھی۔مذاکرات کے ساتھ ساتھ، دہشت گردی بھی جاری تھی۔کراچی ایئرپورٹ پر حملہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ اتمامِ حجت ہوگیا تھا۔ 15جون کو شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز ہوگیا۔ آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر جنرل اطہر عباس کے بقول جسے سابق آرمی چیف جنرل کیانی ٹالتے رہے تھے(ظاہر ہے، جنرل موصوف کے پاس اس کے لیے اپنے دلائل تھے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل راحیل شریف شروع ہی سے مختلف نقطۂ نظر رکھتے تھے ۔ وہ اِن جرنیلوں میں سے تھے جو کورکمانڈرز کانفرنس میں شمالی وزیرستان میں آپریشن پر زور دیتے رہے تھے)۔
دہشت گردی کی یہ جنگ، 1965 اور 1971 کی ’’روایتی‘‘ جنگوں سے مختلف بھی ہے، پیچیدہ بھی اور وسیع تر بھی۔ اس میں کامیابی کے اپنے تقاضے ہیں ، جن میں قومی اتحاد و یکجہتی اور سیاسی قیادت میں مکمل اتفاقِ رائے کم اہم نہیں۔ 15جون کا آپریشن ضربِ عضب اپنے ساتھ (فطری طور پر) جو مسائل لایا، اِن میں 10لاکھ سے زائد آئی ڈی پیز بھی تھے۔ دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے لیے، اِن کے دل جیتنا بھی ضروری تھا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت ، سیاسی جماعتوں اور میڈیا سمیت تمام طبقات کا فوکس ، آپریشن ضربِ عضب اور آئی ڈی پیز پر ہوتالیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔
قوم میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے یہ تاثر ضروری تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے فیصلہ کن مرحلے میں حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں لیکن ہمارے بعض دوستوں کو(جن میں ’’ریٹائرڈ‘‘ عسکری ماہرین بھی شامل تھے) یہ دعویٰ کرنے میں کوئی باک نہ تھا کہ حکومت متذبذب تھی، آپریشن کا فیصلہ دراصل فوجی قیادت کا تھا، حکومت تومجبوراً اسکی تائید پر آمادہ ہوئی۔عام انتخابات سے قبل ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے دینے اور وزیرستان کے عوام کی حمایت میں لانگ مارچ کرنے والے لیڈر کا کہنا تھا، آئی ڈی پیز کو سنبھالنا، ہماری(صوبائی ) حکومت کی نہیں، وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔14اگست کے ’’آزادی ‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنوں نے آپریشن ضربِ عضب اور آئی ڈی پیز کو قومی سطح پربھولی بسری داستان بنادیا تھا۔ پنجاب میں بدترین سیلاب بھی دھرنے والوں کی توجہ حاصل نہ کر پایا۔ قائدِ انقلاب72دِنوں بعد اپنا دھرنا سمیٹ کر رخصت ہوگئے۔ ’’نئے پاکستان‘‘ والے پلان اے اور بی کی ناکامی کے بعد پلان سی پر عمل پیرا تھے کہ پشاور میں ایک اور ’’سولہ دسمبر‘‘ ہوگیا۔ کھٹمنڈو کی حالیہ سارک کانفرنس میں نواز، مودی ملاقات کا امکان اہم ترین سوال بن گیا تھا، آخری مرحلے پر دو منٹ کی ملاقات میں دونوں کی باڈی لینگوئج تبصروں اور تجزیوں کا موضوع بنی رہی۔ وزیراعظم نوازشریف نے سانحۂ پشاور پر قومی کانفرنس طلب کی تو ہر جگہ یہ سوال زیرِ بحث تھا کہ کیا تحریکِ انصاف اس میں شریک ہوگی اور یہ بھی کہ کیا عمران خاںخود اس کانفرنس میں شریک ہوں گے یا اپنے کسی نمائندے کو بھیج دیں گے اور یہ بھی کہ کیا عقلِ سلیم بروئے کار آئے گی اور کپتان پلان سی کا باقی ماندہ حصہ(18 دسمبر کو پورے ملک کوبند کرنے کا اعلان) ملتوی کرکے دھرنے کا پاندان بھی اُٹھا لے گا۔15 دسمبر کو لاہور کو زبردستی ’’بند‘‘ کرانے پر کپتان کو عوام اور میڈیا کے بڑے حصے کے شدید ناقدانہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسلام آباد کا دھرنا بھی سکڑ سمٹ چکا تھا۔ شدید سردی میں اسے جاری رکھنا ایک سوالیہ نشان تھا۔
بہت اچھا ہوا کہ کپتان نے وزیراعظم کی طلب کردہ قومی کانفرنس میں خود شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔ تمام قابلِ ذکر سیاسی قیادت کی موجودگی نے اِسے بلاشبہ قوم کی نمائندہ کانفرنس بنا دیا تھا۔ (راولپنڈی کا شیخ اس میں موجود نہیں تھا اور کپتان نے اپنے سیاسی حلیف کی موجودگی پر اصرار بھی نہیں کیا تھا)۔
کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا بھی فیصلہ کیا گیاجو ایک ہفتے کے اندر ایکشن پلان تیار کرے گی۔ تحریکِ انصاف کے استعفے ابھی منظور نہیں ہوئے۔ چنانچہ پارلیمانی کمیٹی میں اس کی نمائندگی بھی موجود ہے(پہلے شاہ محمود قریشی کا نام آیا، بعد میں ان کی جگہ شیریں مزاری آگئیں)۔ کپتان نے 18دسمبر کو پاکستان بند کرنے کا پروگرام واپس لینے کے علاوہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ چند روز پہلے اس کا کہنا تھا، جوڈیشل کمیشن کی طرف سے مئی کے انتخابات کو منصفانہ قرار دیئے جانے پر بھی وہ اسمبلیوں میں واپس جانے کی بجائے نئے انتخابات کی تیاری کرے گا(اور ظاہر ہے اس کے لیے تحریک چلائے گا) لیکن اب اس کا کہنا ہے ، جوڈیشل کمیشن کی طرف سے مئی کے انتخابات کے حق میں رپورٹ آنے پر وہ اسمبلیوں میں واپسی پر غور کرے گا۔
17دسمبر کی پشاور کانفرنس میں، مبصرین کی توجہ نوازشریف اور عمران خاں کی ملاقات میں دونوں کی باڈی لینگوئج پر بھی تھی۔ یوں لگا، ابتدا میں دونوں کچھ لئے دیئے سے رہے۔ پھر کھل گئے۔ آخری مرحلے پر پریس بریفنگ میں عمران کی نشست وزیراعظم کے ساتھ تھی۔ آخر میں اس نے وزیراعظم سے مصافحہ بھی کیا۔ اس کا کہنا تھا، اس نے یہاں سے سیدھا دھرنے میں جانا ہے۔ وزیراعظم نے ہنستے ہوئے کہا، میں بھی دھرنے میں آپ کے ساتھ چلتا لیکن مجھے اسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے لیے جانا ہے۔ باہر بلا کی سردی تھی، لیکن اندر برف قدرے پگھل گئی تھی۔ عمران نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنے سے آخری خطاب کیا۔ سیاسی تاریخ کا ایک باب بنداور نیا باب آغاز ہوگیااور قارئین آخر میں نسیم سحر کی تازہ نظم
سانحۂ پشاور
پھولوں کو جو دفن کرکے آئے
خوشبو کو نہ ساتھ لاسکے ہم
اب دل یہ سوال کررہا ہے
ہم کیسے رہیں گے اس چمن میں
ہرسمت اُگے ہیں جس میں کانٹے
پھولوں کو تو دفن کرچکے ہم
اب کچھ بھی نہیں ہے زندگی میں
کانٹوں میں بسر کریں گے کب تک؟
صدمے سے یہ حال ہوگیا ہے
جینا ہی محال ہوگیا ہے
مرجائیں گے ہم بھی روتے روتے
اے کاش کہ ہم بھی ساتھ اُن کے
خوشبو کے کفن میں دفن ہوتے
آرام کی نیند ہم بھی سوتے
ایسے تو نہ ہم اکیلے ہوتے!
تازہ ترین