• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اکتوبر 2014ء میں امور خارجہ کیلئے وزیراعظم کے مشیر جناب سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کے نام ایک خط میں کشمیر کے تنازع کے پرامن حل کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کی درخواست کی تھی۔ جس کا موصوف نے براہ راست جواب تو نہیں دیا، البتہ بھارتی میڈیا کو ایک حالیہ انٹرویو میں پاکستان کے موقف کی بھرپور تائید کی ہے۔ تعطل کا شکار مذاکرات کی بحالی اور ان میں کشمیریوں کی شرکت پر زور دیا ہے تاکہ کم و بیش سات دہائیوں سے لٹکتے چلے آرہے تنازع کا کوئی آبرومندانہ حل نکل سکے، جو اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ کشمیر خطے میں شدید کشیدگی کا باعث ہے اور اس کے کارن پاکستان اور بھارت میں چار خوں ریز جنگیں ہوچکی ہیں اور نیو کلیرفلیش پوائنٹ ہونے کے سبب مستقبل کیلئے خطرات کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ لامحالہ عالمی برادری جنوبی ایشیا کی ان دو جوہری طاقتوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی خواہش مند ہے جو تنازع کشمیر کے منصفانہ اور آبرومندانہ حل کے بغیر ممکن نہیں، جس کا اعادہ وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ میں اپنی اس برس کی تقریرمیں بھی کرچکے ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ بھارت مسئلہ کا حل اپنی شرائط پر چاہتا ہے اور اب تو جموں اور کشمیر کو بھارت کا باقاعدہ صوبہ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں جس کا آسان ترین طریقہ یہ تجویز کیا جارہا ہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم کیا گیا ہے، منسوخ کردیا جائے۔
اس حوالے سے بھارت میں آج کل تندوتیز بحث جاری ہے۔ میڈیا ، اہل سیاست ، دانشور ،حتیٰ کہ دفاعی مبصرین بھی اس میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ اس امر پر تقریباً سبھی متفق ہیں کہ مذکورہ آرٹیکل بلا ضرورت تھا اور اسے بھارت کے آئین کا حصہ بنانے والوں نے دانشمندی سے کام نہیں لیا۔ جواہر لال نہرو تک کو کوسنے دیئے جارہے ہیں کہ اس قدر اہم فیصلہ کرتے ہوئے انہوں نے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ موصوف پر الزام دھرا جارہاہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت جموں اور کشمیر کو اسپیشل اسٹیٹس کا فیصلہ انہوں نے اپنے پرانے دوست شیخ عبداللہ کو نوازنے کیلئے کیا، جو اس وقت تک ریاست کے وزیراعظم بن چکے تھے، اور مہاراجہ کو فارغ کرکے انڈی پینڈنٹ کشمیر کے حکمراں بننا چاہتے تھے۔ دوسرا ظلم یہ کیا کہ الحاق کی دستاویز میں حق خودارادیت کو شامل کردیا، بھارتی افواج حملہ آوروں کو وادی سے نکال باہر کرنے سے روک دیا، اور پھر آخری وائسرائے مائونٹ بیٹن کے چکر میں آکر کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گئے اور ایک سیدھے سادے معاملہ کو خواہ مخواہ پر پیچ بنادیا۔ خاص طور پر جب وہ ان کا سبجیکٹ ہی نہیں تھا۔ مقامی ریاستیں اور راجواڑ سے وزیر داخلہ سردارولبھ بھائی پٹیل کی ذمہ داری تھے۔ اور جب انہوں نے چھ سو کے لگ بھگ ریاستوں کا معاملہ بطریق احسن نمٹا دیا تھا، تو کشمیر کو بھی بخوبی سنبھال سکتے تھے۔ کشمیر کے ساتھ خصوصی برتائو کی حکمت سمجھ میں نہیں آتی۔ آرٹیکل 370 کے حوالے سے ایک شدید زیادتی یہ بھی ہوئی ہے،کہ بھارتی پارلیمینٹ چاہے بھی تو اس میں ترمیم و اضافہ نہیں کرسکتی۔ اس کے لئے جموں کشمیر اسمبلی کی رضامندی ضروری ہے۔ گو کہ بھارتی پارلیمینٹ کشمیر اسمبلی کی تابع مہمل بن کر رہ گئی ہے ۔ اور 125کروڑ بھارتیوں کو مٹھی بھر کشمیریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
ایک اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں کہ یہ ایک عارضی انتظام ہے۔ مگر سات دہائیاں ہونے کو آئیں، بھارت سرکار اس سے نجات حاصل کرنے سے قاصر رہی ہے۔ اور کامیابی کے امکانات پر آنے والے دن کے ساتھ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں پارلیمینٹ کا فرض بنتا ہے کہ مزید وقت ضائع کئے بغیر آرٹیکل370کی تنسیخ کے معاملہ کو ترجیحی بنیادوں پر لے ۔‘‘
پچھلے دنوں دہلی میں ہونے والے ایک سیمینار میں بھی آرٹیکل 370کے عوامل و عواقب پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ اور شرکاء اس امر پہ متفق تھے کہ مذکورہ آرٹیکل کے حوالے سے غیر سرکاری فورمز میں بہت بحث ہو چکی۔ اب حکومت اور پارلیمینٹ کا فرض بنتا ہے کہ اس میں مزید دیر نہ کرے ۔ہمیں خاص طور پر ان احمقوں کو سمجھانا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ آرٹیکل 370کی تنسیخ سے کشمیریوں کے حقوق پر زد پڑے گی۔ ہمارے بڑوں کی عقل پر نہ جانے کیسا پردہ پڑ گیا تھا کہ اس قسم کا ااحمقانہ فیصلہ کر بیٹھے جس نے سوا ارب کے ملک اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو مٹھی بھر کشمیریوں کے ہاتھوں یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے۔ نہ جانے حکمرانوں کو آرٹیکل370کی تباہ کاریاں کیوں دکھائی نہیں دیں ؟ہم کشمیر کو لاکھ اٹوٹ انگ کہتے رہیں،مگر حقیقت یہی ہے کہ وہاں علیحدگی کی تحریک مسلح بغاوت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جہاں متنازعہ علاقہ ہونے کے سبب پاکستان کو ہمیشہ سے کھل کرکھیلنےکا موقع میسر رہا ہے۔ وہاں مسلسل ہندو مخالف حکومتیں بر سر اقتدار رہی ہیں۔ جہاں بھارت سرکار کو بے پناہ اخراجات اٹھانا پڑ رہے ہیں اور آدھ ملین سے زائد سپاہ مستقل طور پر متعین ہے۔ مسلمانوں کی کثرت کا شوشہ بھی نہ جانے کس نے چھوڑ رکھا ہے؟ جب سرکار کی نالائقی کے کارن مقامی ہندو ترک سکونت پر مجبور ہو گئے۔ تو ظاہر ہے ہر طرف مسلمان ہی مسلمان دکھائی دیں گے۔ اس منطق کی بھی سمجھ نہیں آتی کہ ہر کوئی پورے ہندوستان میں جہاں جی چاہے جائیداد خرید سکتا ہے۔ مگر کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت نہیں۔ ایسے میں وادی کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر کیونکر ہو گا ؟ سو اس پسماندگی کا براہ راست فائدہ پاکستان کو پہنچ رہا ہے جو کشمیریوں کو ڈرا دھمکا کر یا پھر انکی وفاداریاں خرید کر،جب چاہے دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کو وادی میں اتار دیتا ہے یوں آئین کا آرٹیکل370کشمیر میں دہشت گردی کے فروغ میں معاون ثابت بھی ہو رہا ہے۔
آرٹیکل370کی تنسیخ ایک طرح سے بی جے پی کا انتخابی منشور بھی ہے۔ نومبر2013ءمیں جناب نریندر مودی نے جموں میں انتخابی ریلی سے خطاب کے دوران عندیہ دیا تھا کہ برسر اقتدار آنے پر انکی سرکار مذکورہ آرٹیکل کو بھارتی آئین سے نکال دے گی۔ اور ابھی انکی حکومت بنے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے کہ ان کے منسٹر آف اسٹیٹ جیتندر سنگھ نے بات کو آگے بڑھایا۔ موصوف مقبوضہ کشمیر کے ضلع اودھم پور سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370کے حوالے سے ملک گیر بحث کا آغاز ہو چکا۔ جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جو تنسیخ کے قائل نہیں، وہ بھی قائل ہو جائیں گے۔، اورحقیقت یہ ہے کہ اس آرٹیکل کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے ‘‘ جس پر ریاست کے وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ’’سبحان اللہ :جو کام قیامت تک ممکن نہیں، وزیر موصوف اپنے تئیں نمٹا بھی بیٹھے۔ میری یہ بات لکھ کر رکھ لو کہ جب مودی سرکار کی یاد بھی لوگوں کے حافظہ سے اتر چکی ہو گی، تو اس وقت بھی یاتو آرٹیکل 370آئین میں موجود ہو گا، یا پھر جو ریاست جموں وکشمیر انڈیا کا حصہ نہیں ہوگی مت بھولو کہ مذکورہ آرٹیکل ریاست اور انڈیا کے درمیان واحد آئینی لنک ہے۔ اسکی تنسیخ کی بات کرنے والے نادان ہی نہیں ،غیر ذمہ دار بھی ہیں‘‘ آرٹیکل 370 کا معاملہ انڈین سپریم کورٹ میں بھی جا چکا ہے۔ اگست 2014میں دہلی کی ایک این جی او نے جموں وکشمیر اسمبلی کے پاس کئے گئے ایک قانون کے حوالے سے عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ مذکورہ قانون غیر منصفانہ ہے، کیونکہ اس کے تحت عام ہندوستانی ریاست کے اندر نوکری کر سکتا ہے۔ اور نہ ہی غیر منقولہ جائیداد خرید سکتا ہے۔ جسے سپریم کورٹ نے اس بنا پر خارج کر دیا تھا کہ ریاست جموں وکشمیر اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ آخری بات یہ کہ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370جتنا انڈیا کےلئے اہم ہے، اتنا ہی پاکستان کیلئے بھی ہے، مگر ہمارے ہاں اس موضوع پر کسی بھی طرف سے ابھی تک کوئی آواز نہیں اٹھی۔ ہمارے دانشوروں بالخصوص آئینی اور قانونی ماہرین کا فرض بنتا ہے کہ اس حوالے سے قوم کی رہنمائی کریں۔
تازہ ترین