• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمی اسکول پشاور کے خونیں سانحے میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ معصوم طلبہ، اساتذہ اور سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے۔ اس طرح کے المیے کی کوئی نظیر شاید دنیا کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس المیے نے پوری پاکستانی قوم کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ کوئی گھر ایسا نہیں ہوگا جس میں معصوم بچوں کی اتنی دردناک موت کا دکھ محسوس نہ کیاگیا ہو۔ دہشت گردی کا خوفناک کھیل کوئی بارہ سال سے جاری ہے۔ اس دوران پچاس ہزار سے زائد انسانوں کا خون ہوچکا ہے۔اس دہشت گردی کی تباہ کاریوں کا دائرہ ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے تک پھیلا ہوا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس جنگ کی آنکھوں میںآنکھیں ڈالنے کا حوصلہ نہ صرف پرویز مشرف کی حکومت کو نہیں ہوا بلکہ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور میں بھی کوئی واضح اینٹی پالیسی نہیں بنی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گرد طاقتور ہوتے گئے اور ان کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ سرد پڑتا چلاگیا۔
موجودہ حکومت سے ہزار اختلاف کے باوجود ماننا پڑے گا کہ وزیراعظم نواز شریف نے پہلے تو سنجیدہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہا۔ یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو پھر ضرب عضب کے نام سے ایک فوجی آپریشن شروع کیاگیا۔یہ آپریشن گزشتہ چھ ماہ سے جاری ہے۔ بتایا جارہاہے کہ تقریبا 90 فیصد علاقہ دہشت گردوں سے پاک کرلیا گیا ہے۔ آئی۔ڈی۔پیز اپنے گھروں کو واپس جانے کی تیاری کررہے ہیں لیکن عین اس وقت یہ انتہائی دردناک واقعہ پیش آگیا۔اتنی بڑی تعداد میں معصوم بچوں کی ہلاکت نے پوری قوم میں سنسنی کی لہر دوڑا دی ہے۔ بچہ بچہ پکار اٹھا ہے کہ کیا ہم اسی بے بسی کے عالم میں ان ظالموں کا نشانہ بنتے رہیں گے؟ کیا ریاست کی رٹ اتنی مفلوج ہوچکی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی جانوں کا تحفظ بھی نہیں کرسکتی؟
وزیراعظم نے فوری طورپر تمام پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین کا اجلاس پشاور میں بلالیا۔ قوم کیلئے یہ اچھی خبر تھی کہ عمران خان سمیت سب رہنماء اس میں شریک ہوئے۔ مشترکہ اعلامیے میں اتفاق رائے سے قرار دیاگیا کہ یہ جنگ ہماری جنگ ہے۔ ہم آخری دہشت گرد کے خاتمے تک یہ جنگ لڑیں گے۔ اجلاس میں ساری جماعتوں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کرنے کافیصلہ بھی کیاگیا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی سربراہی میں قائم یہ کمیٹی سات دنوں کے اندر دہشت گردی کے خلاف موثر جنگ کا واضح لائحہ عمل پیش کرے گی۔ جمعہ کو اس کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوچکا ہے۔ اللہ کرے اس کمیٹی کو اپنی اہمیت کا احساس ہو اور وہ محض رسمی کارروائی کے بجائے واقعی کوئی ٹھوس حکمت عملی تیار کرسکے۔ شاید یہ معصوم بچوں کے لہو کا معجزہ ہے کہ پوری قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہوگئی ہے۔ جو لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ ہماری نہیں امریکہ کی جنگ ہے اب وہ بھی مان گئے ہیں کہ یہ واقعی ہماری جنگ ہے۔ ایک بڑا مثبت اقدام یہ ہوا کہ عمران خان نے چار ماہ اور ایک ہفتے سے جاری اپنا دھرنا ختم کردیا اور اعلان کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اس گھڑی میں وہ اپوزیشن نہیں کرنا چاہتے۔ عمران خان کے اس فیصلے کی قومی سطح پر تعریف ہوئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ شاید خان صاحب نے اپنی حالیہ سیاسی زندگی کا پہلا مثبت اور بڑا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کمیٹی کے لئے اپنے نمائندے کی نامزدگی بھی کردی ہے۔ اب جبکہ انہوں نے احتجاجی سیاست کا راستہ چھوڑ کر باہمی بات چیت سے مسائل حل کرنے کی راہ چن لی ہے تو انہیں دو قدم آگے بڑھ کر اپنے استعفے بھی واپس لے لینے چاہئیں۔ 2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ اسمبلیوں میں واپس جائیں۔ ایک جاندار اپوزیشن کا کرداراداکریں۔انتخابی اصلاحات کمیٹی میں بیٹھیں۔ ان کا یہ جمہوری کردار ان کے قد کاٹھ کو بلند کرے گا اور ان کی جماعت کی عزت بھی بڑھے گی۔
وزیراعظم نواز شریف نے عمران خان کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن بات خیرمقدم سے آگے بڑھنی چاہئے۔ اب حکومت کا فرض ہے کہ وہ عمران خان کے مطالبات کو زیادہ سنجیدگی سے لے اور خاص طورپر عدالتی کمیشن کے بارے میں تعطل کو دور کرے۔ تحریک انصاف کی احتجاجی مہم کے خاتمے کے بعد حکومت کو زیادہ مثبت کردار ادا کرنا چاہئے ۔ اگر اتفاق اورقومی یکجہتی کے اس ماحول میں عمران خان کے الزامات کا معاملہ بھی حل کرلیا جائے تو جمہوریت کے حق میں بہت بہتر ہوگا اور قوم بے یقینی کے ماحول سے نکل آئے گی۔
قوم کی نگاہیں اب پارلیمانی سیاسی کمیٹی پر مرکوز ہیں کہ وہ کیا لائحہ عمل تیار کرتی ہے اور اس لائحہ عمل کو کس طرح عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے اس فیصلے کا اعلان کردیا ہے کہ جو دہشت گرد عدالتی نظام کے تمام مرحلوں سے گزر کر موت کی سزا پاچکے ہیں، اُن کی رحم کی اپیلیں مسترد کرکے انہیں پھانسی چڑھادیا جائے۔ دہشت گردی سے تنگ آئی ہوئی قوم اب یہی چاہتی ہے کہ معصوم بچوں کو خون میں نہلادینے والوں سے کوئی نرمی روانہ رکھی جائے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ ان مجرموں کو دو دو بار پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے۔ عوام تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کو سرعام پھانسیاں دی جائیں۔ پارلیمانی کمیٹی اور حکومت کو چاہئے کہ وہ دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والوں کو خصوصی عدالتوں کے سامنے لاکر جلدازجلد کیفر کردار تک پہنچائے۔ فوری سماعت کی فوجی عدالتیں بھی قائم کرنا پڑیں تو گریز نہیں کیا جانا چاہئے۔
یہ امر بھی ضروری ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والوں ٹھکانوںکا قلع قمع کیاجائے۔ ایسے لٹریچر پر بھی فورا پابندی لگا دینی چاہئے جو دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بن رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ معاشرے میں انتہا پسندی دہشت گردی کو فروغ دینے والوں ۔ اسی طرح فرقہ واریت کا بھی سدباب کیا جائے۔ میڈیا پر بھی لازم آتا ہے کہ وہ عوام میں شعور پیدا کرے اور ایسے تمام عناصر کو بے نقاب کرے جو انتہا پسندی پھیلا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں علمائے کرام کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔آرمی اسکول پشاور کے معصوم بچوں کے لہو نے بارہ برس سے جاری جنگ کے خلاف پوری قوم کو متحد کردیا ہے۔ اس ماحول کا تقاضا ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑو سے کاٹ پھینکا جائے۔
تازہ ترین