• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں گزشتہ روز صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماخواجہ اظہار الحسن کے گھر پر چھاپے پھر ان کی گرفتاری کی کارروائی نے کئی گھنٹے ملک کے تمام ٹی وی چینلوں کو مصروف رکھا۔ یہ کارروائی بظاہر تمام آئینی اور قانونی تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انجام دی گئی لہٰذا نہ صرف وزیر اعلیٰ سندھ بلکہ وزیر اعظم نے بھی فوری طور پر اس کا نوٹس لیا جس کے نتیجے میں چند گھنٹوں بعد وزیر اعلیٰ سندھ کے حکم پر خواجہ اظہار الحسن کی رہائی عمل میں آگئی جبکہ متعلقہ پولیس افسران کے خلاف ضابطے کی کارروائی بھی شروع کردی گئی۔ تفصیلات کے مطابق ایس ایچ او سہراب گوٹھ کی سربراہی میں پولیس نے نماز جمعہ سے قبل اپوزیشن لیڈر کے گھر پر اس وقت چھاپہ مارا جب وہ چیف منسٹر ہاؤس میں پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق وزیر اعلیٰ سے ملاقات میں مصروف تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں پولیس نے ان کے گھر کی تلاشی لی اور واپس چلی گئی۔خواجہ اظہار کو اپنے گھر پر چھاپے کی اطلاع اس ملاقات کے دوران ہی ملی جس کے بعد وہ اپنے گھر روانہ ہوگئے۔کچھ دیر بعد ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ خواجہ اظہار کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے اوران کے ہاتھ باندھ کر بکتر بند گاڑی میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔موقع پر موجود ڈاکٹر فاروق ستار نے راؤ انوار سے وارنٹ مانگا اور بات کرنے کی کوشش کی مگر پولیس افسر نے ان کی ایک نہ سنی اور دھینگا مشتی و دھکم پیل کرتے ہوئے بھونڈے انداز میں سندھ کے قائد حزب اختلاف کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ٹی وی اسکرینوں کے توسط سے پوری دنیا میں کروڑوں ناظرین نے یہ مضحکہ خیز ڈرامہ براہ راست دیکھا ۔ تاہم یہ امر بہرحال اطمینان بخش ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ سندھ آئین و قانون سے بالاتر پولیس کی اس سرگرمی کے خلاف بلاتاخیر حرکت میں آئے اور متعلقہ پولیس افسران کے خلاف تحقیقات اور کارروائی کا عمل شروع ہوگیا۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ سے ٹیلی فون پر گفتگو میں یہ موقف اختیار کیا کہ کسی رکن اسمبلی کی گرفتاری کے لیے پولیس کی جانب سے اسپیکر سے اجازت لینا لازمی ہے جبکہ خواجہ اظہار کی گرفتاری میں ایسا نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ کو ہدایت کی کہ قانون کی حکمرانی ہر قیمت پر یقینی بنائی جائے اور اگر پولیس افسر قصور وار ہو تو اسے قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔چنانچہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار،ڈی آئی جی ایسٹ کامران فضل اور ایس ایچ او سہراب گوٹھ کو معطل کردیا جبکہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر آئی جی سندھ نے ڈی آئی جی ساؤتھ کو انکوائری افسر مقرر کردیا ہے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایس ایس پی ملیر نے غیرقانونی اقدام کرکے سنگین غلطی کی ہے اور کسی کو حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔تاہم پولیس افسر راؤ انوار کے بقول خواجہ اظہار ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہیں لہٰذا ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔لیکن یہ موقف اس طریق کار کو کسی بھی طور درست ثابت نہیں کرتا جو خواجہ اظہار کی گرفتاری کے لیے اختیار کیا گیا۔ خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری میں ان تمام تقاضوں کو نظر انداز کرکے پاکستان کے بارے میں اندھیرنگری ہونے کا تاثر دیا گیا جو یقیناًناقابل معافی جرم ہے۔اس سے اس گمان کو بھی تقویت ملی کہ راؤ انوار جیسے پولیس افسران بعض نادیدہ طاقتوں کی ہدایت پر کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل ریاست کی اس پالیسی سے بھی صریحاً متصادم ہے کہ کراچی آپریشن ایم کیو ایم سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ بلا امتیاز تمام جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہے خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ خواجہ اظہار ایک سیاسی شخصیت ہیں، ان کے خلاف الزامات کے مضبوط شواہد موجود ہوں تو باضابطہ کارروائی کی کوئی بھی معقول شخص مخالفت نہیں کرے گا مگر سب کچھ آئین اور قانون کے دائرے میں ہونا ضروری ہے۔ کراچی کے مسائل کا واحد حل آئین اور قانون کی بالادستی کا قیام ہے۔


.
تازہ ترین