• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عقل سے رجوع کرنے میں کیا ہرج ہے۔ لیکن، خدا کیا کبھی وہ وقت لائے گا بھی؟ قومی آرزوئیں تو بہت ہیں اور مشکلات کے ڈھیر میں دبی مملکتِ خداداد کے بے رحم تقاضے کچھ اور! مگر ایک منتخب وزیراعظم کے پاس چارہ ہی کیا ہے کہ وہ باآواز عوامی حلقوں اور طاقتور قوتوں کی اِچھا پوری کرنے کے لئے کیسے ہی مشکل راستے پہ چل نکلے۔ وزیراعظم نواز شریف بھی فقط ایک نکاتی ایجنڈا لے کر اقوامِ متحدہ سدھارے ہیں۔ موصوف سے توقع یہ کی جا رہی ہے کہ وہ یو این کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شیر کی طرح دھاڑیں گے اور عالمی ضمیر کو کشمیر پر بھلائی گئی قراردادوں کے حوالے سے جگائیں گے۔ اور ایسے وقت میں جب وادیٔ کشمیر دو مہینوں سے زیادہ کرفیو میں گھٹی ہے اور نوجوان کرفیو توڑنے کی مجاہدانہ کوششوں میں بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یو این کے سیکرٹری جنرل نے بھی کشمیر میں ہونے والے ظلم پر ناقدانہ رائے دی ہے اور اس شرط پر کہ اگر بھارت و پاکستان چاہیں تو وہ کوئی کردار ادا کریں۔ یو این ہی کے ایک مشن کو کشمیر میں ہونے والے انسانی مظالم کی چھان بین کے لئے وہاں جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ اور جناب بانکی مون کی صلاح کو دہلی سے کوئی جواب نہیں ملا، سوائے اس کے کہ یہ بھارت کا ’’داخلی معاملہ‘‘ ہے۔ وزیراعظم کے تھیلے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تمام شواہد بھی موجود ہوں گے جو بھارت کی بلوچستان کے ہمارے داخلی معاملے میں مداخلت اور بھارت و افغانستان کی ملی بھگت سے پاکستان میں جاری دہشت گردی کے بارے میں بڑی تگ و دو سے جمع کئے گئے ہیں۔ لیکن، کیا واقعی جب وزیراعظم کشمیریوں پہ ہونے والے مظالم کی داستانِ غم سنائیں گے اور ساتھ ہی بھارت اور افغانستان کی ملی جلی دہشت گردی کے ثبوت ہوا میں لہرائیں گے تو جنرل اسمبلی ان ہر دو جرائم پر تلملا اُٹھے گی اور وہ کچھ کر گزرے گی جو ہم چاہتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اشک شوئی کے ساتھ ساتھ وہاں جو ہونے جا رہا ہے شاید ہمارا اُس پر کچھ زیادہ دھیان نہیں۔ یقینا انسانی حقوق کی پامالی پر بھارت کے خلاف انگلیاں اُٹھیں گی اور بس! معاملہ وہیں کا وہیں کہ بھارت اور پاکستان کشمیر سمیت تمام تنازعات اور خطے میں جاری دہشت گردی کی روک تھام کے لئے دو طرفہ بات چیت کریں۔
اُدھر وزیراعظم مودی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے دہلی میں ملاقات کی ہے اور خطے میں جاری ساری دہشت گردی کا ذمہ دار نام لئے بغیر پاکستان کو قرار دیا ہے۔ اب جب یو این کا اجلاس ہو رہا ہوگا تو جواب آں غزل بھی کافی پُرشور ہوگا۔ بھارت کشمیر کے عوامی اُبھار کو اُکسانے کا الزام پاکستان پر مبذول کرے گا اور اسلام آباد کو بھارت و افغانستان سمیت خطے میں تمام تر دہشت گردوں کو پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے گا۔ اور ساتھ ہی کشمیر کے جمہوری کیس کے جواب میں بلوچستان میں جاری مبینہ زیادتیوں کا رونا روئے گا۔ اس کام کے لئے وزیراعظم مودی کی جگہ وزیراعظم نواز شریف کی تقریر کا جواب دینے کے لئے بھارت کی وزیرِ خارجہ سشماسوراج ہونگی اور اُن کی معاونت کے لئے افغانستان کے صدر اشرف غنی پیش پیش ہوں گے اور افغانستان میں جاری طالبان کی خون آشامیوں کی ساری ذمہ داری وہ پاکستان پر ڈالیں گے۔ ہوگا یہ کہ پہلی تقریر اشرف غنی کریں گے، پھر وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے اگلے روز سشما سوراج۔ بیک وقت دو محاذ کھلیں گے۔
عالمی برادری کے طاقتور لوگ کشمیر پر افسوس کا اظہار اگر کریں گے بھی تو یہ کہہ کر کہ آپ کا باہمی معاملہ ہے جو صرف دو طرفہ بات چیت سے حل ہو سکتا ہے۔ مگر دہشت گردی اور پراکسی جنگوں کے حوالے سے افغانستان اور بھارت کے واویلا پر امریکہ سمیت تمام نیٹو ممالک بھارتی اور افغان حکومتوں کے موقف کی حمایت میں پاکستان پر ’’ڈو مور‘‘ یعنی مزید کچھ کرو کا تقاضا کریں گے۔ مودی چالاک ہیں اور اقوامِ متحدہ نہیں جا رہے۔ سارا بوجھ وزیراعظم نواز شریف پر ہوگا کہ وہ افغان طالبان کے خلاف افغانستان کے ساتھ مل کر اُن پر زمین تنگ کر دیں اور کشمیر جہاد سے متعلق لوگوں کو لگام دیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جیسے فرض بخشوانے کی کوشش میں نفل نصیب میں آئے کہ ہمیں سننے کے لئے پہلے سے بھی کڑی شرائط کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ بدقسمتی سے لگتا ایسے ہی ہے، آپ بھلے سارے جہاں کو کوسا کریں۔
کشمیر کے لوگوں کی دُکھ بھری داستان دُنیا سُن تو رہی ہے، کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ سوائے اس کے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اس پر غم و غصہ کا اظہار کرتی رہیں۔ البتہ جو سہ طرفہ اتحاد (امریکہ + بھارت + افغانستان) خطے میں سامنے آیا ہے، اس کی مرکزی منشا پاکستان پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ حصہ بھی ڈالنے کا کہا جائے گا جو شاید ابھی ہم اپنے حالات کے سبب یا حکمتِ عملی کے تقاضوں کے تحت کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ بھارت کشمیر پر ٹس سے مس نہ ہو اور پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت سے دست کش کرایا جائے۔ یا پھر افغانستان سے بھارت یا دونوں، پاکستان میں پراکسی جنگ تیز کریں اور اسلام آباد سے تقاضا کیا جائے کہ وہ افغان طالبان کو کہے کہ آ بیل مجھے مار--- یہ وہ بڑے مخمصے ہیں جن سے وزیراعظم نواز شریف کو اپنے پہلے بڑے سفارتی مشن پر سامنا کرنا پڑے گا۔ معاملہ ’مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘ والا نہیں۔ سفارتی حکمت کے امتحان کا ہے، جو موجودہ عالمی و علاقائی تنہائی کے ماحول میں جس طرح کا ہم موقف اختیار کیے ہیں،چلتے دکھائی نہیں دیتی۔ دُنیا جنوبی ایشیا کے تین ملکوں کی ایک دوسرے پر بہتان طرازی کے مناظر کی جو جھلک یو این میں دیکھے گی اُس پر جگ ہنسائی کے سوا کچھ ہاتھ میں آنے والا نہیں۔ البتہ فریقین کے سفارت کاروں کے مابین الزامات کی بیت بازی میں بازی لے جانے کی دوڑ میں سوائے ایک دوسرے کا منہ کالا کرنے کے کچھ ملنے والا نہیں۔
اپنے اپنے قومی و سیاسی موقفوں پہ ڈٹے رہنے کی بجائے، سفارت کاری کو ہر تین اطراف کی جانب سے کچھ کچھ لچک درکار ہوگی، جو اس وقت بالکل ناپید ہے۔ وزیراعظم کی تقریر پر پاکستان میں سشما سوراج کی تقریر پر ہندوستان اور اشرف غنی کی تقریر پر افغانستان میں آفرین آفرین کے ڈونگرے برسائے جائیں گے اور انہیں اپنے اپنے موقف کی اخلاقی فتح قرار دیا جائے گا۔ اس سہ طرفہ تماشے میں بھارت، افغانستان اور پاکستان کیسی بھی اچھل کود کر لیں بالآخر حالات کا جبر، علاقائی صورتِ حال کے تقاضے اور عالمی دبائو انہیں مذاکرات کی میز پر لائے گا۔ اور اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں۔ مگر اچھنبے کی بات ہے کہ دہشت گردی کے ہاتھوں امن تباہ و برباد ہونے اور گزشتہ دو برسوں سے اتنا لڑنے کے باوجود بھی پاکستان یکا و تنہا کھڑا ہے۔ اُلٹا اب مشرق و مغرب سے اس پر دبائو اور بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ جس طرح پاکستان کو گھیرا جا رہا ہے اور جس وجہ سے گھیرا جا رہا ہے، اگر ہم اُسے صحیح طور پر سمجھ نہیں پائیں گے تو اس سے باہر نکلنے کی راہ بھی سجھائی نہیں دے گی۔ معاملہ سادہ بھی ہے اور بہت ہی پیچیدہ بھی۔ افغانستان کے مستقبل کا پتہ نہیں اور وہ پاکستان سے محاذ آرائی کی راہ پہ چل پڑا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور اس نکتے پر اسے گھیرا جا رہا ہے۔ بھارت کے گلے میں کشمیر کی چھچھوندر پھنسی ہے اور وہ اس کا ملبہ پاکستان پر اس طرح گرانے والا ہے کہ اب تمہاری بھی خیر نہیں۔ ایک دوسرے کی تباہی کے ایجنڈے پر چل کر خطے کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی ذی ہوش شخص کیسے اطمینان کی نیند سو سکتا ہے؟
سفارت کاری ضرور کیجئے لیکن حکمت کے ساتھ۔ یہ نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔ وزیراعظم ایک نیا عزم لے کر یو این گئے ہیں اور یہ جانتے ہوئے کہ اُنہیں ہمدردی کے بولوں کے علاوہ کیسی کیسی شکایات سننی پڑیں گی۔ اور انہیں سنے بغیر اور شکایات کو دُور کیے بغیر ہماری سفارتی تنہائی ختم ہونے والی نہیں اور نہ ہی کشمیریوں کی داد رسی کی کوئی راہ نکلنے والی ہے۔ وزیراعظم نابالغ ناقدوں کے ’’مودی کے یار‘‘ کے طعنے کا تو زناٹے دار جواب دیں گے اور اُس پر یہاں خوب تالیاں بھی بجائی جائیں گی۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ حکمتِ عملی بدلنے کی ضرورت ہے۔ بُکل کے چوروں کو نکال باہر کرنے کی اور ہر طرح کی پراکسی وار کے خاتمے کے لئے ایک علاقائی عہد کی ضرورت ہے۔ نہ کوئی دوسرا دہشت گرد پالے، نہ ہم۔ نہ ہم مداخلت کریں، نہ کوئی اور۔ اور سب باہمی مسئلوں کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر راضی ہو جائیں۔ عقل سے رجوع میں کیا ہرج ہے۔ کیا خدا کبھی وہ وقت دکھائے گا؟

.
تازہ ترین