• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’غیر ریاستی عناصر پر قابو نہ پایا گیا تو صورت حال گمبھیر ہوسکتی ہے۔ این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ملکی سیکورٹی کیلئے خطرہ بن چکی ہیں۔‘‘ یہ الفاظ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے ہیں جو انہوں نے آئیڈیاز 2014ء میں دفاعی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہے۔ قارئین! آج تک ’’نان اسٹیٹ ایکٹرز‘‘ کا واحد مصداق عسکریت پسند اور شدت پسند مذہبی طبقہ ہی قرار دیا جاتا رہا ہے، لیکن آج مرکزی سپہ سالار نے یہ بات واضح کردی کہ یہ تعبیر کسی شخص، گروہ اور جماعت کے ساتھ خاص نہیں،بلکہ یہ ایک عمومی اصطلاح ہے جس میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اور این جی اوز بھی اسی طرح داخل ہیں جس طرح قانون کو ہاتھ میں لینے والی مذہبی قوتیں داخل کی جاتی ہیں، بلکہ دیکھا جائے تو آئی ایم ایف، پالیسی ساز امداد دینے والی مغربی این جی اوز، صحت و تعلیم کے نام پر مشرقی و مذہبی کلچر کو پامال کرنے والے ادارے بھی اس میں داخل ہیں۔ پس منظر و پیش منظر کے طور پر یاد رہے کہ اس وقت دنیا کے 180 ممالک پر پانچ سو کمپنیاں حکومت کر رہی ہیں، انقلاب برپا کر رہی ہیں، اپنی مرضی کے لوگ اقتدار میںلے آتی ہیں۔ ہماری ریسرچ کے مطابق اس وقت دنیا کی کل دولت 36 ٹریلین ڈالر ہے، اس میںسے 35 ٹریلین ڈالر پر ملٹی نیشنل کمپنیاں قابض ہیں۔یہ کمپنیاں اگر چاہیں تو پوری دنیا کی بجلی بند ہوجائے۔ ٹیلی فون کا نظام، ریلوے، جہاز اور بحری سفر کا سلسلہ منقطع ہو جائے، سارے بینک دیوالیہ ہو جائیں، ٹریفک رک جائے، خوراک ختم ہو جائے، دوائیں ناپید ہوجائیں اورہر ذی روح پینے کے پانی کو ترس جائے۔ امریکہ کی ساری دولت سو بڑی کمپنیوں کی جیب میں ہے اور ایشیا کی خود مختاری، کاروباری ساکھ اور عزت و آبرو پر بھی 25ملٹی نیشنل کمپنیاں قابض ہیں، جبکہ پوری دنیا پانچ سو بڑی کمپنیوں کے قدموں میں سسک رہی ہے۔ یہ حقائق بہت ہی ہوش ربا، بہت ہی سنگین ہیں۔ دنیا میں اس وقت پچاس ایسی کمپنیاں ہیں جو دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اگریہ کمپنیاں اسی طرح ترقی کرتی رہیں تو دس برس بعد یہ پچاس کمپنیاں پانچ سو کمپنیوں کو کھاجائیں گی۔ ان پچاس کمپنیوں میں سے 43 کا تعلق امریکہ سے ہے اور 3 جاپانی ہیں، ایک ہالینڈ کی ہے جبکہ 3کمپنیاں سوئٹزر لینڈ، برطانیہ اور سنگا پور سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ50 کمپنیاں اس وقت دنیا کی ساٹھ سے ستر فیصد دولت کی مالک ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی شروعات ہمایوں کے دور میں تجارتی سرگرمیوں کی اجازت سے ہی ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ تجارت کے ساتھ تعلیم اور پھر عسکریت کے شعبے بھی کنٹرول میں لے لئے گئے، بالآخر آخری مغل حکمران کو ان کے اپنے ملک میں بغاوت کی سزا دی گئی۔ یہ چند سو سال کی محنت تھی جس نے ایک تجارتی کمپنی کی طاقت کو برطانوی راج میں تبدیل کردیا۔ غیرریاستی عناصر کے پھلنے پھولنے پر نظر نہ رکھی جائے تو یہ پورے نظام کو چلتا کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب آتے ہیں این جی اوز کی طرف! تحقیق کے مطابق اس وقت پاکستان میں 56 ہزار 219 رجسٹرڈ این جی اوز ہیں۔ یہ دنیا میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کے ظاہری فنڈز 12 ارب 40 کروڑ روپے ہیں جبکہ وہ باطنی فنڈز جو ابھی تک حکومتی اداروں کے نوٹس میں نہیں آئے، ان کی مالیت ظاہری فنڈز سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان این جی اوز کے اخراجات 13 ارب روپے سالانہ ہیں، ان این جی اوز کے باقاعدہ ملازمین کی تعداد تین لاکھ اور رضاکار دو لاکھ ہیں۔ یہ ادارے اپنے محاصل کاچند فیصد نجی شعبے، عطیات اور فیسوں کی صورت میں حاصل کرتے ہیں ،باقی بیرونِ ملک ایجنسیاں فراہم کرتی ہیں۔ ان کے کل ارکان کی تعداد 60 لاکھ ہے، یہ تعداد پاکستان آرمی سے 10 گنا اور پولیس سے 20 گنا زیادہ ہے۔ ان تنظیموں میں سے 33 ہزار، 168 پنجاب،16 ہزار 891 سندھ، 35 ہزار 367 بلوچستان اور 3 ہزار 33 خیبر پختونخواہ میں رجسٹرڈ ہیں۔یہ تنظیمیں تین مختلف قوانین کے تحت رجسٹر ہوئی ہیں، وولنڈی سوشل ویلفیئر ایجنسیز آرڈیننس 1961ء کے تحت رجسٹر ہونے والی این جی اوز کی تعداد 12 ہزار 703 ہے۔ سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860ء کے ذریعے رجسٹرڈ ہونے والی تنظیموں کی تعداد 43 ہزار 700 اور کمپنیز آرڈیننس ایکٹ 1984ء کے تحت 905این جی اوز رجسٹر ہوئیں۔ 2002ء میں سوشل پالیسی ڈیولپمنٹ سینٹر کراچی نے جو اعداد و شمار جاری کیے ان کے مطابق یہ تنظیمیں اپنی آمدن کا 24.50 فیصد فیسوں، چارجز اور ممبر شپ حاصل کرتی ہیں، نجی عطیات سے انہیں 34.37 فیصد، بیرونی امداد سے 55.6 فیصد اور سرکاری امداد سے 87.5 فیصد رقم حاصل ہوتی ہے۔ یہ تنظیمیں تعلیم و تحقیق پر 7.41 فیصد، صحت پر 6.27، ڈیولپمنٹ اینڈ ہائوسنگ پر 8.12، شہری حقوق پر 8.7 فیصد اور سماجی خدمات کے شعبے میں 9.15 فیصد رقم خرچ کرتی ہیں۔ان این جی اوز میں تعلیم و تحقیق کی تنظیمیں سب سے زیادہ ہیں۔ ان کی تعداد 21 ہے، شہری حقوق اور ایڈووکیٹ کی تنظیمیں 9 ہزار، سماجی خدمات کی 41 ہزار، ہائوسنگ اور تعمیرات کی 3 ہزار 264 کی صحت پونے تین ہزار، ثقافت اور تفریح کی ڈھائی ہزار، خالصتاً مذہبی 2 ہزار 184، کاروباری و پیشہ ورانہ ایسوسی ایشنز کی 70 اور ماحولیات کی 100 تنظیمیں ہیں۔حقائق اور اعداد و شمار بتاتے ہیں ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ 56 ہزار 219 این جی اوز میں سے 78 فیصد تنظیمیں صرف شہروں تک محدود ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب 56 ہزار 219 اداروں کے 60 لاکھ ارکان ملک میں کام کررہے ہیں تو پھر ملک میں بہتری کے آثار دکھائی کیوں نہیں دے رہے؟ تعلیم کے شعبے میں پاکستان میں 10 لاکھ لوگ کام کررہے ہیں، اتنی بڑی تعدادکے باوجود پاکستان تعلیم کے شعبے میں 139ویں نمبر پر ہے۔ امریکہ میں تعلیم و تحقیق کی این جی اوز کی تعداد فقط 8 ہزار ہے اور ان میں صرف 3 لاکھ لوگ کام کرتے ہیں۔آپ امریکہ کا تعلیمی معیار ملاحظہ کرلیجیے۔ ہائوسنگ اینڈ ڈیولپمنٹ میں این جی اوز کے ساڑھے 4 لاکھ لوگ کام کرتے ہیں اس کے باوجود پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے ہے جن میں ایک ایک کمرے میں چھ سے آٹھ لوگ رہتے ہیں، ملک کے دو کروڑ لوگوں کے پاس اپنا گھرنہیں۔ ہائوسنگ اسکیمیں آج تک کوئی حتمی چارٹر نہیں بنا سکیں اور کوآپریٹو سوسائٹیاں پاکستان کا سب سے بڑا اسکینڈل ہیں۔سماجی خدمات کے شعبے میں تین لاکھ کارکن کام کرتے ہیں، لیکن ان کی خدمات کا یہ عالم ہے پاکستان کا شمار دنیا کے گندے ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ آج بھی پاکستان میں زچگیوں کے دوران مرنے والی خواتین کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ صحت کے شعبے میں 3 لاکھ رضاکار کام کررہے ہیں لیکن پاکستان میں ڈسپرین تک ہرجگہ بسہولت دستیاب نہیں۔آج بھی پاکستان کے 65 فیصد لوگوں کی اسپتال اور ڈاکٹر تک رسائی نہیں۔ ثقافت اور تفریح کی ترویج کے سوا لاکھ لوگ کام کررہے ہیں لیکن پاکستان تفریح کی سہولتوں میں 121ویں نمبر پر ہے۔ اس سے آپ ان این جی اوز کی کارکردگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر یہ ادارے پاکستان میں فعال کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں تو پھر یہ قائم کیوں ہیں؟ یہ اپنی دکان بند کیوں نہیں کردیتے؟ یہ حقیقت بھی بڑی دلچسپ ہے۔ بنیادی طور پر کام کرنا ان اداروں کے دستور میں شامل نہیں، یہ ادارے بنتے ہی اس لئے ہیں کہ یہ نہ تو خود کام کریں اور نہ ہی کسی دوسرے ادارے کو کام کرنے دیں۔یہ ادارے بنیادی طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایجنٹ ہیں، ان کا کام تعمیر نہیں تخریب ہے، جاسوسیاں کرناہے۔ ان اداروں نے ملک کو کیا کیا نقصان پہنچایا؟ یہ ادارے اور ان کے پیچھے چھپی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس ملک اور اس کے عوام کو کس کس طرح ایک ایک دانے کے لئے ترسا رہی ہیں؟ انہوں نے کس کس طرح درد کی ایک ایک گولی کو بلیک میلنگ کا ذریعہ بنایا؟ اس پر آیندہ کالم میں بات کریں گے۔
تازہ ترین