• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں منگل 16دسمبر کو دہشت گردوں نے جس طرح ہمارے بچوں کا بے دردی سے قتل عام کیا ، اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ اس المناک واقعہ پر جس قدر ماتم کیا جائے ، کم ہے ۔ دہشت گردوں نے ہمارے خوابوں ، ہماری امیدوں ، ہمارے ارمانوں اور ہمارے مستقبل کا خون کیا ہے ۔ ہماری بے بسی کی انتہا یہ ہے کہ ہم نہ صرف اپنے بچوں کو ظلم اور بربریت سے نہیں بچا سکے ہیں بلکہ ہم انہیں آئندہ بھی تحفظ کی یقین دہانی نہیں کرا سکتے ہیں ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا درست ہے کہ ہم اپنے نونہالوں کو خون آلود مستقبل دینے پر شرمندہ ہیں اور ہم انہیں امن کی نوید بھی نہیں دے سکتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اس المیہ کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے ، وہ ہمارے دلی رنج و غم کا اظہار ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ ہم نے جنازوں پر پھول تو دیکھے تھے لیکن آج ہم نے پھولوں کے جنازے پڑھے ہیں ۔ ‘‘ یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں نے ہمیں دنیا کی سب سے زیادہ بدنصیب قوم بنا دیا ہے ۔
دہشت گرد کہہ رہے تھے کہ سب بچوں کو مار دو ، جیسے وہ لاوارث بچے ہوں ۔ تاریخ کا انتہائی سفاکانہ اور ظالمانہ اقدام کرنے کے بعد دہشت گرد اپنے سرپرستوں کو فون کرکے ان سے پوچھ رہے تھے کہ ’’ ہم نے سب بچوں کو مار دیا ہے ، اب ہم کیا کریں ؟ ‘‘ کاش اس وقت کوئی ان سے یہ سوال کر سکتا کہ کیا اس سے بڑا ظلم کوئی اور بھی ہو سکتا ہے ؟ ان دہشت گردوں سے تو یہ سوال کوئی نہیں پوچھ سکا ہے لیکن ہمارے اجتماعی قومی ضمیر کے لئے یہ سوال موجود ہے ۔
اب اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہئے کہ جو دہشت گرد اتنا بڑا ظلم کر سکتے ہیں، وہ انسان کہلائے جانے کے مستحق نہیں، ان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ راہ راست پر آجائیں گے ۔ سانحہ پشاور کے بعد تو یہ بات ان لوگوں نے بھی تسلیم کر لی ہے ، جو قبل ازیں دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی تجویز دیتے تھے ۔ مولانا فضل الرحمن بھی اب یہ کہہ رہے ہیں کہ پشاور کے المناک واقعہ کے بعد مذاکرات کا امکان ختم ہو گیا ہے ۔ جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی قیادت بھی اب اس خیال سے متفق ہو گئی ہے کہ ان درندہ صفت لوگوں کے خلاف بھرپور آپریشن کیا جائے ۔ طالبان اور دیگر انتہا پسند عناصر کے ساتھ مذاکرات کے سب سے بڑے حامی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تھے ۔ انہوں نے بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی حمایت کر دی ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حق میں رہے ہیں ۔ اس حوالے سے طالبان کے ساتھ مذاکرات بھی کیے گئے ہیں ، جو ناکام ہو چکے ہیں ۔ مذاکرات کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی تھی ، جس میں فوج کے نمائندے بھی شامل تھے ۔ اس کانفرنس کے ذریعہ یہ تاثر دیا گیا تھا کہ پوری قوم طالبان کے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانفرنس میں شامل تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اصل حکمران اسٹیبلشمنٹ کا موڈ دیکھ کر طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا تھا ۔ سانحہ پشاور کے بعد مذاکرات کا باب تو تقریباً بند ہو چکا ہے ۔ قبل ازیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنے دورہ امریکا میں وہاں کے حکام کو یہ یقین دہانی کرا چکے تھے کہ حقانی گروپ سمیت طالبان کے تمام گروپس کے ساتھ ساتھ القاعدہ اور دیگر انتہا پسند گروپس کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے گی اور اچھے اور برے طالبان میں کوئی فرق نہیں رکھا جائے گا ۔ آرمی چیف کی اس یقین دہانی کے باوجود مغربی ذرائع ابلاغ پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ۔ اب سانحہ پشاور کے بعد وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف یہی بات کہہ رہے ہیں کہ طالبان کے خلاف بھرپور آپریشن کیا جائے گا اور بچوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا بدلہ لیا جائے گا ۔ دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اس سلسلے میں حکومت کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے ۔ اب قوم بھی یہی توقع کر رہی ہے کہ آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے کسی مصلحت کے بغیر دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی جائے گی اور یہ جنگ ایسی ہو گی ، جس کے بارے میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہو گا ۔
حکومت، قومی سیاسی قیادت اور عسکری اداروں کی آزمائش اب شروع ہو رہی ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو روکنے کی تمام پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں۔ اس ناکامی کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ہمیں بحیثیت قوم ناکامی کے اسباب پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر صدارت پشاور میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی کا مینڈیٹ حاصل کیا گیا ہے ۔ یہ اس مینڈیٹ کے برعکس ہے ، جو قبل ازیں طالبان سے مذاکرات کے لئے حاصل کیا گیا تھا ۔ مذاکرات تو ناکام ہو چکے ہیں ، اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کی قوم متحمل نہیں ہو سکتی ہے ۔ پشاور کی آل پارٹیز کانفرنس میں ’’ ایکشن پلان ‘‘ تیار کرنے کے لئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے ، جو ایک ہفتے کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی ۔ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کے لئے مذکورہ کمیٹی ایکشن پلان وضع کرے گی ۔ اس کمیٹی میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کے نمائندے بھی شامل ہیں ۔ کمیٹی کے اجلاسوں میں وہ لوگ بھی شرکت کریں گے ، جو یہ کہتے رہے ہیں کہ ’’ طالبان اور ہم ایک ہیں ۔ ‘‘ ، وہ لوگ بھی شریک ہوں گے ، جن پر دہشت گردوں کی سرپرستی کے الزامات بھی ہیں ۔ ایکشن پلان تیار کرتے ہوئے سیاسی اور مذہبی جماعتیں روایات کے مطابق ’’ مقتدر قوتوں کے موڈ ‘‘ کو بھی دیکھیں گی ۔ اس کے علاوہ ایکشن پلان کی تیاری پر دیگر عوامل بھی اثر انداز ہوں گے ۔ اگر اس مرتبہ بھی مصلحت سے کام لیا گیا اور ماضی کی طرح حقیقی دہشت گردوںکو چھوڑ کر آپریشن کے نام پر دیگر لوگوں کو نشانہ بنایا گیا توہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہارنے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ اگر ہم یہ جنگ ہار گئے تو پھر ہمیں پشاور سے بھی زیادہ بڑے بھیانک واقعات کے لئے تیار ہوجانا چاہئے۔ اب بہت ہو چکا ہے۔ ہماری ریاست، حکومت، ریاستی اداروں، قومی سیاسی قیادت سمیت ہم سب کا صرف ایک ہی ہدف ہونا چاہئے کہ پاکستان دہشت گردوں کی جنت نہ رہے اور یہاں ہر حال میں امن قائم ہو۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
تازہ ترین