• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پشاور میں منگل 16دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں معصوم بچوں، اسکول کی پرنسپل اور اساتذہ سمیت148 افراد کی شہادت نے پاکستانی قوم کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ ویسے تو دہشت گردی طویل عرصے سے جاری ہے اور بڑے بڑے سانحات بھی رونما ہو چکے ہیں ۔ ہم خاموشی سے لاشے اپنے کندھوں پر اٹھا کر قبرستانوں میں لے جاتے تھے اور خاموشی سے دفنا دیتے تھے ۔ ہمیں کل کا واقعہ بھی یاد نہیں رہتا تھا ۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم پر سکتہ طاری ہے ۔ ہم نہ روتے تھے ، نہ چیختے تھے اور نہ احتجاج کرتے تھے لیکن پشاور کے واقعہ نے ہمیں سکتے کی کیفیت سے نکال دیا ہے۔ آج ہمارے سارے زخم تازہ ہو گئے ہیں اور ہمیں ظلم و بربریت کی ساری داستانیں یاد آ رہی ہیں ، جو ہم بھول چکے تھے مگر اب دہشت و درندگی کا ہر واقعہ یاد آ رہا ہے۔آج پاکستان میں لوگ گھروں سے باہر نکل آئے ہیں ۔ہر طرف احتجاج ہو رہا ہے۔کہیں شہدائے پشاور کی نماز جنازہ ہوئی اور کہیں قرآن خوانی۔کہیں افسردہ دھنوں کے ساتھ انہیں یاد کیا جا رہا ہے اور کہیں ان کے لئے شمعیں روشن کی جا رہی ہیں ۔ ہر طرف سے یہی مطالبہ ہو رہا ہے کہ دہشت گردوں کو نیست و نابود کر دیا جائے اور ان کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے ۔ 1965ء کی جنگ کے بعد پاکستانی قوم اپنے کسی دشمن کے خلاف پہلی مرتبہ پرجوش اور متحد نظر آئی ہے ۔ قومی اتحاد کا یہ عالم ہے کہ وہ قوتیں بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہیں ، جو کبھی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ مسئلے کو حل کرنے کی حامی تھیں۔پہلی مرتبہ سیاسی قیادت اورعسکری قیادت بھی اس معاملے پر ایک دوسرے کے بہت قریب نظر آتی ہیں۔ اب پاکستانی قوم نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنا چاہتی ہے بلکہ وہ اسے ہر حال میں جیتنا بھی چاہتی ہے کیونکہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا کریڈٹ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے اور اس قومی اتفاق رائے میں بھی ان کا بہت اہم کردار ہے ، جس کا تذکرہ ذیل میں کیا جائے گا ۔
قومی یکجہتی اور اتحاد کی اس فضا نے ہماری قومی سیاسی قیادت خصوصاً جمہوری حکومتوں کو ایک موقع فراہم کر دیا ہے ۔ پوری قوم ان کے ساتھ ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ ان کی حکومت کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے لیکن یہ موقع یا مہلت زیادہ دنوں کے لئے نہیں ہے۔ اب ہماری سیاسی قیادت کی آزمائش کا مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔ انہیں نہ صرف دہشت گردی کے خلا ف جنگ لڑنی ہے بلکہ لوگوں کو کچھ ڈلیور بھی کرنا ہے ۔ سیاسی حکومتوں کو تعلیم ، صحت ، روزگار اور توانائی کے مسائل حل کرنا ہے بلکہ اپنی گورننس کو بھی بہتر بنانا ہو گا ۔ قومی سیاسی قیادت کو اپنی ترجیحات اور اہداف تبدیل کرنا ہوں گے کیونکہ پاکستان اپنی تاریخ کے انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔۔سیاسی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں اور اپنی گورننس کو بہتر بناتے ہوئے پاکستان کے ریاستی اور سیاسی اداروں کو مضبوط بنائیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سانحہ پشاور کے بعد اپنا دھرنا اور احتجاج ختم کرکے تدبر اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے ان کا سیاسی قد بڑھا ہے ۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف حکومت کا ساتھ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ انہیں سیاسی فتح ہوئی ہے یہاں سیاسی فتح سے مراد یہ نہیں ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت ختم ہو جاتی بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سیاسی بیداری کے ذریعہ عمران خان حالات کا رخ موڑنے کے قابل ہو گئے تھے ۔ عمران خان نے جس خیر سگالی کے جذبے کا اظہار کیا ہے ، حکومت کو بھی اسی جذبے کا اظہار کرنا چاہئے ۔ عام انتخابات میں دھاندلیوں کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن جتنا جلدی بن جائے ، اتنا بہتر ہو گا ۔ اس کے علاوہ جن مطالبات پر اتفاق ہوا تھا ان کو انہیں پورا کرنا چاہئے۔ابتلاء کے اس دور میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو بہت یاد آرہی ہیں ۔ اگر 27 دسمبر 2007 ء کا سانحہ رونما نہ ہوتا تو محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لئے بہت کچھ کر چکی ہوتیں ۔ پاکستان ، خطے اور دنیا کے حالات کا مکمل ادراک کرکے وہ پاکستان کے لئے ایک ایجنڈے کے ساتھ واپس آئی تھیں ۔ انہیں علم تھا یہ بہت مشکل جنگ ہے اور اس میں ان کی زندگی کو بھی خطرات ہیں ، اس کے باوجود وہ وطن واپس آئیں اور دلیری اور جرأت کی ایک عظیم مثال قائم کی ۔ ان کے بعد کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جو یہ مشکل جنگ لڑنے کے لئے تیار ہو ۔ آج جبکہ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لئےتیار ہو گئی ہے ، محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی قیادت کی کمی بہت محسوس ہو رہی ہے ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف جیسا شخص پاکستانی فوج کا سپہ سالار ہے ، جو ایک سچے پاکستانی کی طرح قومی سلامتی کے لئے سب کچھ کر گزرنے کے لئے تیار ہے ۔ان کے ذہن میں اپنے وطن پاکستان کو امن لوٹانے کا تصور موجود ہے ۔ انہوں نے ہی آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا، جس کی وجہ سے دہشت گرد فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے ملک میں جمہوری عمل کو جاری و ساری رکھنے میں اپنی شعوری کوششیں کیں اور آپریشن کے حوالے سے بھی انہوں نے سیاسی قوتوں کو ہمیشہ اعتماد میں لیا ۔ اگر سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا تو اس کا فائدہ دہشت گرد اٹھا سکتے تھے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اہم مرحلے پر جنرل راحیل شریف کا دورہ امریکہ بہت گہرے اثرات کا حامل ہے ۔ جنرل راحیل شریف نے پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کی غیر ملکی سرپرستی کا معاملہ بھی غیر معمولی انداز میں اٹھایا اور دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ۔ سانحہ پشاور کے بعد جنرل راحیل شریف نے کابل کا ہنگامی دورہ کیا ۔ وہاں افغان صدر اشرف غنی اور ایساف کے کمانڈر سے بھی ملاقات کی ۔ یہ دورہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کی مدد کے بغیر ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑسکتے۔ اسی طرح افغانستان بھی ہماری مدد کے بغیر اپنی سرزمین پرامن قائم نہیں کر سکتا ۔ جنرل راحیل شریف نے جنگی محاذوں کے ساتھ ساتھ سفارتی محاذوں پر بھی غیر معمولی کام کیا ہے ۔ جن کے تفصیلی تذکرے کے لئے ایک الگ کالم کی ضرورت ہے ۔ جنرل راحیل شریف کے ساتھ ان حالات میں محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی سیاسی قیادت ہو تی تو اس جنگ میں فتوحات کے حوالے سے پیش رفت اور زیادہ ہوتی اور دنیا دوسرے انداز میں پذیرائی کرتی کیونکہ دنیا میں دہشت گردی کے خلاف علامت کے طور پر تھیں۔
دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہماری اپنی جنگ ہے۔ ہماری آنے والی نسلوں ، ہمارے مستقبل اور پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ یہ اس خطے سمیت پوری دنیا کو پر امن بنانے کی جنگ ہے ۔ یہ لبرل ، روشن خیال اور پر امن معاشروں کے ناگزیر قیام کی جنگ ہے ۔ یہ جنگ ہمیں نہ صرف لڑنی ہے بلکہ ہر حال میں جیتنی بھی ہے ۔ ہمارے پاس کوئی دوسری چوائس نہیں ہے ۔ اس وقت جو عوامی لہر اٹھی ہے ، اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ افواج یا حکومتیں اکیلے جنگ نہیں لڑ سکتیں ۔ عوام کی حمایت کے بغیر کسی بھی جنگ میں فتح حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ یہ بہترین موقع ہے ۔ پشاور کی آل پارٹیز کانفرنس نے بھی مینڈیٹ دے دیا ہے ۔ عوام بھی اس جنگ کو ناگزیر قرار دے رہے ہیں ۔ ہمارے پاس شکست کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس جنگ کو جیتنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں اپنی قومی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرنا ہو گا ۔ اپنی ذہنیت کو بدلنا ہو گا اور ان نظریات سے نجات حاصل کرنا ہو گی ، جو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جگہ بناتے ہیں ۔ پاکستان کو اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں اور قومی سلامتی کی ’’ ڈاکٹرائن ‘‘ پر نظرثانی کرنا ہو گی ۔ اس خطے سمیت پوری دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ۔ قوموں کی زندگی میں نئے نئے عوامل داخل ہو رہے ہیں۔ ہمیں افغانستان ، ایران اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنا ہو گی ۔ ہمیں خطے میں اپنے کردار کا ازسر نو تعین کرنا ہو گا ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہمیں پڑوسی ملکوں سمیت تمام ملکوں کو اس جنگ میں اپنا حصہ ڈالنے پر آمادہ کرنا ہو گا ۔ پاکستان ملالہ یوسف زئی ، کائنات اورآنسو کولہی کا ملک ہے ، جو پاکستان کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانا چاہتی ہیں۔ پاکستان پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کا ملک ہے ، جنہوں نے پاکستان کو پر امن بنانے کے لئے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر صورت فتح یاب ہونا ہے ۔
تازہ ترین