• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان ،پاکستان کے ماتھے کا دمکتا ہوا جھومر ہے، اس خاک نے کیسے کیسے گوہرہائے آبدار پیدا کئے، جنہیں صوبے سے باہر قومی افق پران کے شایان شان شناخت نہیں ملی۔ ان میں ایک عظیم شخصیت میر گل خان نصیر بھی تھے۔ اگر وہ بقیہ حیات ہوتے تو 6دسمبر 2014کو پورے سو سال کے ہو جاتے اور ان کے یاردوست مداح اور محرومیوں و مایوسیوں کے شکار عوام ان کی سو سالہ سالگرہ منا رہے ہوتے۔ وہ 1984 میں ستر سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو چکے مگر بلوچ سرزمین کے باسیوں کی یادوں میں آج بھی زندہ و تابندہ ہیں۔
دنیا کویہ باور کرانے کیلئے کہ گل خان جیسے عہد ساز لوگ کبھی نہیں مرتے، صوبےکے عوامی وزیراعلیٰ اور مرحوم کے فکری پیروکار ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نےسال 2014کو میر گل خان نصیرسے منسوب کر دیا۔ محکمہ ثقافت نے اس حوالے سے پہلے نوشکی ، ڈیرہ مراد جمالی ، مستونگ ، سوراب، اور بعض دوسرے شہروں میں اس یگانہ روزگار شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے علمی ادبی و ثقافتی تقریبات منعقد کیں، اور آخر میں کوئٹہ میںبین الاقوامی سیمینار کا اہتمام کیا۔ سیمینار کیا تھا مختلف زبانوں کا گلدستہ تھاجسے سجانے سنوارنے میں محکمہ کے سیکرٹری اسلم شاکر بلوچ اور ان کے معاونین عبداللہ بلوچ اور محمد پناہ بلوچ نے رات دن ایک کر دیئے۔ اس علمی مذاکرے میں شرکت کیلئے پاکستان کے چاروں صوبوں کے علاوہ افغانستان، ترکمانستان، آذربائیجان ،یوکرائن ،جاپان اور دوسرے ملکوں سے بھی دانشوراور ریسرچ سکالر آئے میر گل خان نصیر کی شخصیت اور خدمات پر بلوچی ، اردو، انگریزی ، فارسی، پشتو اور روسی زبان میں پرمغزمقالے پڑھے، اور تقاریر کیں ۔
بلوچستان اور اس کے محبت کرنے والے لوگوں سے دیرینہ وابستگی کے حوالے سے مجھے بھی اس سیمینار میں مدعو کیا گیا ، تقریر کرائی گئی اور ایک سیشن کی صدارت کےاعزاز سے بھی نوازا گیا۔ سیمینار کے افتتاحی سیشن کی صدارت گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے کی ، مہمان خصوصی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تھے، خطبہ استقبالیہ وزیر ثقافت وسیاحت میر مجیب الرحمٰن محمد حسنی نے پیش کیا ۔ سیمینار اس وقت ایک ثقافتی میلے کی شکل اختیار کر گیا جب پہلے روز کی تین علمی نشستوں کے بعد رات کو محفل موسیقی منعقد ہوئی اور عوامی فنکاروں نے گل خان نصیر کی بلوچی نظمیں اور غزلیں گا کر پیش کیں، گل خان نصیر خواتین کے حقوق کے بھی بہت بڑے علمبردار تھے۔ اس حوالے سے زاہد ہ حنا کی صدارت میں خواتین کا مشاعرہ ہوا، بلوچستان میں خواتین کے اس طرح کے مشاعروںکی کوئی باقاعدہ روایت نہیں۔ اندرون اور بیرون ملک میر گل خان نصیر کو جاننے والے انہیں ایک انقلابی مفکر ، وسیع النظر سیاستدان، صاحب ادراک محقق، مورخ ، مترجم، بے باک صحافی اور ہفت زبان ادیب و شاعرکے طور پر جانتے ہیںان کی شناخت ایک انسان دوست ، عوام دوست ، غریب دوست ، مزدور دوست ، کسان دوست ،علم دوست اور انصاف دوست سیاستدان کے طور پر بھی لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہے ۔
وہ بیسویں صدی کے اوائل میں فرنگی راج کے خلاف عملی جدوجہد کے بانیوں میں سے تھے۔ سرداروں اور نوابوں کے زیر اثر قبائلی معاشرے میں وہ عوامی سیاست کے بھی بانی تھے۔ انہوں نے سرداروں کے ظالمانہ طرز عمل کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھائی اور کہا’’ سرداروں کی ہستی نے بلوچوں کو مٹایا ،سرداروں کےمیں سر کو سردار چڑھا دوں‘‘ وہ مارکسی و سائنسی فکر کے حامل تھے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین پر پابندی لگی تو انہوں نے فیض احمد فیض ،اجمل خٹک ، شیخ ایاز، اور ابراہیم جویو کے ساتھ مل کر کراچی میں عوامی ادبی انجمن کی بنیاد رکھی اور ایوبی آمریت کو للکارا ، دیت نام اور کیوبا کے عوام کیلئے لکھی جانے والی ان کی نظمیں نوآبادیاتی نظام کے خلاف ان کی آفاقی سوچ کی علامت مانی جاتی ہیں۔ بلوچستان میں عوام کے حق حاکمیت اور ساحل ووسائل پر اختیار کی جدوجہد میں انہوں نے زندگی کےدس ہزار سےزیادہ دن جیلوں میں گزارے ۔ اس حوالے سے قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے والوں میں وہ سب پر سبقت لے گئے۔ میر نبی بخش زہری کے سرمائے سے انہوں نے میر غوث بخش بزنجو اور میر غلام محمد شاہوانی کے ساتھ مل کرہفت روزہ نوائے بلوچستان جاری کیا مگر سرمایہ کار سےفکری موافقت نہ ہونے کے باعث اسے بند کر دیا ۔ بلوچی شاعری میں بیسویں صدی میں ان کے پایہ کا کوئی دوسرا شاعر پیدا نہیں ہوا۔ اس بنا پر انہیں بلوچی کے ملک الشعرا کا خطاب دیا گیا ۔ انہوں نے براہوی میں بھی نظمیں اور غز لیں کہیں۔ اردو زبان میں ان کی شاعری کا ایک زمانہ معترف ہے۔ وہ فیض احمد فیض کی حریت فکر کے شنادر تھے۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ وہ ترقی پسندانہ شاعری کے حوالے سے بلوچستان کے فیض تھے۔ انہوں نے فیض کی نظموں کے مجموعہ’ سر وادی سینا‘ کا بلوچی زبان میں بے مثال ترجمہ کرکے اس حقیقت کو ثابت بھی کیا ۔ مگر کچھ اپنے درویشانہ مزاج اور کچھ اپنی جنم بھومی سے گہری وابستگی کے باعث ان کی شہرت بلوچستان تک محدود ہو کر رہ گئی حالانکہ ان کا سیاسی فلسفہ حیات اور علمی و ادبی کام پورے پاکستان کا قابل فخر ورثہ ہے۔ اس حوالے سے ان کی صد سالہ سالگرہ پر ہونے والا بین الاقوامی سیمینار اسلام آباد میں ہوتا تو ان کی شخصیت کو وفاق پاکستان کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا وہ بلوچوں کی مزاحمتی تحریک کے ہراول دستے کے سپاہی تھے مگر اس مزاحمت سے ان کی مراد کیا تھی اسے انہی کے الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ایک قومی مدبر کے طور پر ان کے حقیقی مقام کا تعین آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ ان کی ایک کتاب ہے ’’بلوچستان قدیم وجدید تاریخ کی روشنی میں‘‘ اس میں وہ لکھتے ہیں۔’’ بلوچستان کے باشندے اپنے صوبہ جاتی حقوق کے لئے اور غیر آئینی طریقہ ہائے کار کے خلاف کبھی پرامن اور کبھی مسلح جدوجہد کرتے چلے آ رہے ہیں اور اس وقت تک آئینی اور پرامن جدوجہدکرتے رہیں گے جب تک مملکت پاکستان کےاندر ان کو آزاد شہری کی حیثیت سے ان تمام صوبائی حقوق سے بہرہ مند نہیں کیا جائے گا۔ جو مملکت کے دوسرے صوبوں کو حاصل ہیں اس کے سوا بلوچستان کا اور کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘ ۔
اس عظیم شخصیت اور ان کی فکر کو پورے ملک میں متعارف کرانا اور ان کی صد سالہ سالگرہ کےحوالے سے کوئٹہ کی طرح اسلام آباد لاہور پشاور اور کراچی میں بین الاقوامی سیمینار منعقد کرنا قومی یک جہتی کے فروغ کیلئے بہت بڑااقدام اور بلوچوں کے احساس محرومی کو احساس تفا خر میں بدلنے کا موثر ذریعہ ہو گا۔ اس سے پنجاب ،سندھ اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کو پتہ چلے گا کہ گل خان نصیر صرف بلوچوںاور بلوچستانیوں کا ہی نہیں ، پنجابیوں ، سندھیوں اور پشتونوں کا بھی ہے اور اس لحاظ سے پورے پاکستا ن کا ہے۔ گل خان بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے کی بات کرکے دراصل پاکستان کے متحد مضبوط اور محفوظ مستقبل کی راہ دکھاتے تھے۔
تازہ ترین