• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی گزشتہ ماہ کی ہی تو بات ہے کہ دہشت گردوں نے لاہور میں واہگہ بارڈر پر خود کش حملے میں درجنوں معصوم پاکستانیوں کو شہیدکردیا تھا۔تاہم پشاور کے آرمی پبلک اسکول میںانہوں جس وحشت اوربربریت کا مظاہرہ کیا اس سے دیکھ کرتو دل پھٹ گئے اور کلیجہ منہ کو آ گیا۔
درد اتنا تھا کہ اس رات دل وحشی نے
ہر رگ جاں سے الجھنا چاہا
حشر بپا کرنے والے اپنے مذموم مقاصد میں ایک بار پھر کامیاب ہو چکے تھے اور ہم ایک بار پھر سانپ گزر جانے پر لکیر پیٹنے میں لگ گئے،وزیر اعظم وفاقی دارلحکومت میں تمام مصروفیات ترک کر کے پشاور پہنچے تو آرمی چیف نے بھی کوئٹہ کا دورہ مختصر کرکے وہاں کارخ کیا۔ وہی روایتی مذمتی بیانات،سوگواروں سے اظہار تعزیت اوراسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش مبتلازخمیوں کی عیادت۔ جس شہر کو دہشت گردوں نے مقتل میں تبدیل کیا وہیں ملک بھر کی سیاسی قیادت نے ہاتھوں میں ہاتھوں ڈال کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی یہ سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے سب ایک ہیں۔ براہ راست نام لے کر مذمت نہ سہی لیکن چار ماہ سے اسلام آباد میں جاری دھرنا ختم کرکے یہ ضرور بتا دیا گیا کہ معصوم جانوں کو نشانہ بنانے کی کوئی توجیہہ قبول نہیں کی جا سکتی۔کراچی سے خیبر تک قوم پھر سے متحد ہو چکی۔دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ایکشن پلان تیار کیا جانے لگا۔وزیر اعظم نے اپنے بیان کے مطابق شہید بچوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لینے کے لئے چھ سال سے سزائے موت پرعمل درآمد برقرار غیراعلانیہ پابندی اٹھانے کا اعلان کر دیا،بلیک وارنٹ سےمتعلق قوانین میں ترمیم ہونےلگی۔ ہرطرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیںکہ دہشت گردوں کو سرعام پھانسیاں دی جائیں۔جی ایچ کیو اورسابق صدر پرویز مشرف پر حملے کے مجرموں ڈاکٹر عثمان اور ارشد محمود کی پھانسی سے شروعات کر دی گئی۔ میڈیا پربلیک وارنٹ کے اجراء سے تختہ دار پر لٹکتے مجرموں کی لمحہ بہ لمحہ کوریج،قوم کو خون کے آنسو رلانے والوں کے جنازوں سے تد فین تک سب لائیو دکھا کر قوم کے جذبات کی ترجمانی کی جانے لگی۔ یہاں تک تو ایک عمل کے رد عمل میں سب فطری کہا جا سکتا ہے لیکن 16 دسمبر کے بعد سے جو ہیجان برپا کیا گیا ہے کیا دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے بالغ نظر قیادت اورمضبوط قومیں ایسے روئیے کا مظاہرہ کرتی ہیں؟ جواب پانے کے لئے صرف ایک مثال ہی کافی ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے اپنے شہریوں کے خون کا بدلہ لینے کیلئے دہشت گردوں کو دنیا کے ہر کونے کھدرے میں ڈھونڈ کر مارنا شروع کیایہاں تک اسامہ بن لادن کو بھی نہیں چھوڑا۔
اب آتے ہیں اس سچ کی طرف جو آج تک ہم بولنےکی جرأت نہیں کر سکے اوراس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قومی ایکشن پلان تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔یہ ایکشن پلان سات روز میں تیار کیا جائے گا جس پر فوری عمل درآمد کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ لیکن بصد احترام کیا قوم یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتی ہے کہ اسی سال فروری میں قومی سلامتی پالیسی کے نام سے ایک دستاویز قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تھی جس کو پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کاتریاق قرار دینے کے دعوے بھی ہوئے تھے۔ اب ایکشن پلان تیار کرنے کے لئے صرف سات روز دئیے گئے ہیں اس قومی سلامتی پالیسی کی تیاری پر مہینوں صرف ہوئے تھے۔اس پالیسی کا کیا بنا۔ قوم کو بتائیں کہ اس پر عمل درآمد کے لئے وفاقی حکومت اور صوبوں کے پاس 32 ارب روپے نہیں تھے،پاکستانی عوام کی جانوں کے تحفظ سے زیادہ اہم منصوبے ترجیح تھے،میٹرو بس منصوبے کا تو دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹا جا سکتا ہے، سلامتی پالیسی پر عمل درآمد سے ووٹ تھوڑا ملنے تھے۔دہشت گردی کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے دعوے کرنے والے قوم کو یہ بھی بتا دیں کہ اسی سلامتی پالیسی میں اعتراف کیا گیا تھا کہ ملک بھر میں 22ہزار مدارس رجسٹرڈ ہیں، صرف وفاقی دارلحکومت میں 187مدرسے موجودہیں،اسی پالیسی میں انکشاف کیا گیاکہ کچھ مدرسے شدت پسندی پھیلاتے ہیں،مدرسوں کا نظام ،حکومت کے دائرہ انتظام سے باہر کام کر رہا ہے،دہشت گردوں کی اکثریت یا تو مدرسوں سے فارغ التحصیل ہے یا ابھی بھی ان مدرسوں کے طلباء کی ہے۔ پالیسی میں تجویز کیا گیا تھاکہ مساجد اور مدارس کو باقاعدہ پاکستان کے تعلیمی نظام سے ہم آہنگ کیا جائے گااور نہ صرف ان کے انتظامی امور میں اصلاحات لائی جائیں گی بلکہ ان کے مالیاتی معاملات کو بھی آڈٹ سسٹم میں لایا جائے گا کیوں کہ ان کو نامعلوم ذرائع سے فنڈنگ کی جا رہی ہے۔لیکن کیا آپ قوم کو یہ بتا سکتے ہیں کہ اس شجر ممنوعہ کو آپ کو کس نےچھونے سے روکا۔کیا آپ اس بات کو چھپا سکتے ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق قانون تحفظ پاکستان ایکٹ کی منظوری کے وقت جماعت اسلامی نے اس کی مخالفت کی اور تحریک انصاف نے رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا ۔کیا وہ رہنما بھی ہم میں سے ہی نہیں جنہوں نے قتال فی سبیل اللہ کا نعرہ بلند کیا۔کیا یہ بھی ایک تلخ حقیقت نہیں ہے کہ ہم دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے امریکہ سے امداد تو لیتے ہیں لیکن جن کے سروں کی قیمت امریکی حکومت نے مقرر کی ہے ہم ملک کے دفاع ،استحکام اور تحفظ کیلئے انہی کی قیادت میں ریلیاں نکلواتے ہیں۔ جن تنظیموں کو کالعدم قرار دے کر ان پر پابندی لگائی گئی وہ نام تبدیل کر کے نہ صرف کام کر رہی ہیں بلکہ قدرتی آفات میں شانہ بشانہ امدادی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی تو ماضی کا قصہ بن چکا لیکن کیا یہ بھی جھوٹ ہے کہ حال ہی میں جلال الدین حقانی کا بیٹا نصیر الدین حقانی اسلام آباد سے ملحقہ آبادی بھارہ کہوہ میں قتل ہوا۔کیا یہ بھی محض زبان کی پھسلن تھی کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے آرمی چیف کے دورہ امریکہ کے دوران ایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ جو طالبان ہمیں تکلیف نہیں دے رہے ان کے خلاف کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔کیا سیاسی اور عسکری ؛ہم آہنگی؛ کا پردہ چاک کرنے کے لئے کوئی قوم کواس خط کے بارے میں بتا سکتا ہے جو ؛حقیقی مقتدر؛ قوتوں کی طرف سے سویلین حکومت کو بھجوایا گیا جس میں انہیں دوران سارک کانفرنس کچھ معاہدوں سے باز رہنے کی تنبیہ کی گئی تھی۔ اس سچ نہیں ہے کہ جی ایچ کیو سے کامرہ ائر بیس اور کراچی ائر پورٹ سے آرمی پبلک اسکول تک ہونیو الے حملے کے لئے حملہ آوروں کو اطلاعات ؛اندرسے فراہم کی گئی تھیں۔ ہر شہر اور قصبے میں شدت پسندوں کے سلیپر زسیل جگہ بنا چکے ہیں۔کیا قوم کو یہ بتایاجاسکتا ہے کہ ڈاکٹر عثمان کو گزشتہ سال اگست میں پھانسی صرف اس لئے نہیں دی گئی تھی کہ حکمران شدت پسندوں کی دھمکیوں سے خوف زدہ ہو گئے تھے۔ کیا عوام کو یہ جاننے کا حق دے سکتے ہیں کہ اگر سزائے موت پر عمل درآمد میں تعطل کے دوران فوجی قیدی محمد حسین کونومبر 2012 میں پھانسی دی جا سکتی ہے تو فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے جن 6 مجرموں کے ڈ یتھ وارنٹس پر اب دستخط کئے گئے ہیں ان کو اب تک کیوں نہیں لٹکایا جا سکا تھا،کیا قوم کو یہ بھی بتائیں گے کہ ملک میں تفتیش کانظام اتنا ناقص ہے کہ عدم شہادتوں اور ثبوتوں کی وجہ سے سال 2007سے اب تک دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث 2 ہزار اہم ملزمان بری ہو چکے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اسلحہ اور بارود سے بھری 25 گاڑیاں افغانستان سے ہماری سرحد کے اندر پہنچ جاتی ہیں، ورسک روڈ جیسے حساس علاقے میں کئی دن تک ریکی کی جاتی ہے لیکن ہم بے خبر رہتے ہیں۔ ان تمام حقائق کے ساتھ سچ کی فہرست بہت طویل اور تلخ ہے ۔اب بس یہی استدعا ہے کہ خدارا اب وقت آ چکا ہے کہ اپنے اندر کے تضادات کو ختم کر دیں اور قوم کے ساتھ پورا سچ بولیں ورنہ پشاور کے اندوہناک المیے کی طرح ہر سانحے کے بعد رونا دھونا ہی قوم کا مقدر رہے گا۔
تازہ ترین