• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم کے ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک کے ساتھ اس ’’مکالمے‘‘ کا اہتمام مزمل سہروردی نے کیا تھا۔ گلبرگ کے ایک جدید ریسٹورنٹ میں ہائی ٹی پر یہ ایک بے تکلف نشست تھی، کسی ایجنڈے کے بغیر ۔ اور ظاہر ہے، اس کا کچھ حصہ آف دی ریکارڈ قرار پایا تھا۔ مقصد بحث مباحثہ نہیں، تبادلۂ خیال تھا۔ مصدق ملک سے ہمارا تعارف گزشتہ سال پرائم منسٹر آفس (اسلام آباد)میں ہوا تھا۔ جولائی کا آخری ہفتہ تھا نوازشریف (اور ان کی کابینہ ) کو حلف اُٹھائے ڈیڑھ ماہ ہوچکا تھا۔ انہیں جو مسائل ورثے میں ملے ، ان میں انرجی کا سنگین مسئلہ بھی تھا اور ظاہر ہے حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل تھا۔ مصدق ملک میر ہزار خاں کھوسو کی نگران کابینہ میں پانی وبجلی کے وزیر تھے۔ 11مئی کے عام انتخابات کے بعد، میاں صاحب (تیسری بار) حکومت سنبھالنے کی تیاری کر رہے تھے، مصدق ملک توانائی کے مسائل پر بریف کرنے، جاتی امرا آئے اور میاں صاحب کو اتنا بھائے کہ انہوں نے انہیں اپنی ٹیم میں شمولیت کی دعوت دے دی۔ 23 جولائی کو ملک بھر سے مدیرانِ جرائد ، سینئر اخبار نویس ، کالم نگار، تجزیہ کار اورالیکٹرانک میڈیا کے ممتاز اینکر پرسنزانرجی کے مسائل اور ان کے حل کے لیے حکومتی پالیسی پر بریفنگ کے لیے مدعو تھے۔ وزیراعظم نے مہمانوں کا خیر مقدم کرنے کے بعد ’’فلور‘‘ مصدق ملک کے حوالے کیا۔ ہمارے لیے اعدادوشمار کا معاملہ اور اقتصادیات کے دقیق مسائل ہمیشہ اکتاہٹ کا باعث رہے ہیں۔ ہمیں تو اپنی تنخواہ کے حوالے سے بھی مختلف الاؤنسز یا مراعات سے دلچسپی نہیں رہی، ہمیں تو صرف اس سے غرض ہوتی ہے کہ انکم ٹیکس سمیت سب کچھ کٹ کٹا کر گھر لے جانے کے لیے کیا بچے گا۔ ڈاکٹر مصدق انرجی کرائسس اور اس کے حل کے لیے حکومتی اقدامات پر سلیس اور رواں اردو میں یوں بریف کیا کہ ہمارے لیے یہ سب کچھ ایک دلچسپ کہانی بن گیا۔ ایک اُکتا دینے والے موضوع پر اپنی قومی زبان میں اس شستہ اور سلیس اظہارِ خیال کی ہمیں ایک ٹیکنو کریٹ سے توقع نہیں تھی۔ ہمیں یاد پڑتا ہے، موصوف نے بریفنگ کا اختتام اگلے ڈھائی ، تین سال میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور 5سال بعد انرجی پلس تک پہنچ جانے کی خوشخبری کے ساتھ کیا تھا۔ جس پر وزیراعظم نے ہنستے ہوئے کہا تھا، یہ ڈاکٹر مصدق کا دعویٰ ہے ، میرا نہیں۔
گزشتہ دِنوں وزیراعظم نے انہیں اپنا ترجمان مقرر کردیا تو یہ بات بھی ہمارے لیے حیرت کا باعث تھی۔ عمران خاں اور طاہرالقادری نے ملک میں سیاسی بحران کی فضاء پیدا کردی تھی۔ حکومت ورثے میں ملے گوناگوں مسائل سے نمٹنے میں مصروف تھی کہ اسے نئے سیاسی مسائل نے آلیا جس میں میڈیا کا محاذ بھی بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ کیا ایک ٹیکنو کریٹ(انرجی ایکسپرٹ) اس عالم میں وزیراعظم کی ترجمانی کا حق ادا کرپائے گا؟ یہ وزیراعظم کے ’’حسنِ انتخاب‘‘ کا امتحان تھا۔ مختلف ٹاک شوز میں ان کی کارکردگی سے ہمارے وسوسوں کی تردید ہونے لگی، میڈیا کے اہم اور حساس محاذ پر وزیراعظم کی ٹیم میں یہ اچھا اضافہ تھا۔ لاہور میں ایک آدھ ٹاک شو میں ہمیں بھی اِن کے ساتھ شرکت کا موقع ملا۔ آف دی کیمرہ گپ شپ میں معلوم ہوا کہ اپنی گفتگو میں اردو محاوروں اور شعری مصرعوں کا بروقت اور برمحل استعمال کرنے والا یہ شخص تو ٹھیٹھ پنجابی ہے۔ ککے زئی برادری سے تعلق رکھنے والا مصدق ملک اندرون لاہور کے کشمیری بازار کا جم پل تھا۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد بھی یہیں کے ککے زئی تھے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی بھی اسی علاقے کے ککے زئی تھے۔ ایوب خاں، پھر ذوالفقار علی بھٹو اور آخر میں جنرل ضیاء الحق ، فوجی اور سول آمریت کے ہر دور میں ملک غلام جیلانی جمہوری قافلے کے ہراول دستے میں شامل رہے۔ خوف اور لالچ ، کیرٹ اینڈ اسٹک کا کوئی حربہ اُنہیں اپنے راستے سے نہ ہٹا سکا، جس بات کو صحیح سمجھا، اسے صحیح اور جسے غلط خیال کیا، اِسے غلط کہنے میں وہ کبھی مداہنت کا شکار نہ ہوئے، دل کی بات کے برملا اظہار میں ان کی زبان کبھی لکنت کا شکار نہ ہوئی۔ اندرون لاہور کے ذکر پر خواجہ رفیق بھی یاد آئے، وہ ککے زئی نہیں تھے، امرتسر سے ہجرت کر کے اندرون لوہاری دروازے کو اپنا مسکن بنانے والا یہ کشمیری ، کس جرأت اور جسارت کے ساتھ آمریت کو للکارتا رہا، 20دسمبر اس کا یومِ شہادت تھا۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد یہ بھٹو صاحب کے اقتدار کی پہلی سالگرہ تھی جسے خواجہ رفیق نے ایئر مارشل اصغر خاں کے ساتھ مل کر یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ مسجد نیلا گنبد سے اسمبلی چوک تک مال روڈ پر خوف کے سائے تھے۔ سڑ ک کے دونوں طرف جیالے، جارحانہ انداز میںمخالفانہ نعرے بازی کررہے تھے تاہم اسمبلی چوک تک خیریت رہی۔ منزل پر پہنچ کر قافلہ سالار گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
جان ہی دیدی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
سانحۂ پشاور کو یہ چوتھا روز تھا جب مصدق ملک کے ساتھ یہ نشست برپا ہوئی ۔ یہ آپریشن ضربِ عضب کا نیا مرحلہ تھا جو اب سنگین ترین چیلنج سے دوچار تھا۔ سیاسی قیادت نے قومی اتحاد و اتفاق کے تقاضوں پر لبیک کہنے میں تاخیر کی، نہ کسی کوتاہی کا مظاہرہ کیا۔ وزیراعظم کی پکار پر عمران بھی چلا آیا تھا۔ آپریشن سی کے ساتھ اس نے 126 روزہ دھرنا بھی ختم کردیا تھا۔ (عمران اور طاہرالقادری کی دھرنا مہم کی بھرپور وکالت کرنے والے ’’ریٹائرڈ‘‘ عسکری دانشور کا ایوانِ اقبال میں دانشوروں کی ہفتہ وار نشست میں اصرار تھا کہ یہ پنڈی اور آبپارہ والوں کا ’’سخت پیغام ‘‘ تھا جو عمران کو راہِ راست پر لانے کا باعث بنا۔)
ایک روز قبل وزیراعظم اپنے رفقاء کے ساتھ جی ایچ کیو گئے تھے، جہاں جنرل راحیل شریف اور ان کے ساتھی جرنیلوں نے انہیں مفصل بریفنگ دی، اس موقع پر اہم فیصلے بھی ہوئے۔ مصدق ملک کے ساتھ اس نشست میں یہ دانشورانہ نکتہ بھی زیربحث آیا کہ عسکری بریفنگ کے لیے فوجی قیادت کے پرائم منسٹر ہاؤس جانے کی بجائے، خود وزیراعظم کا جی ایچ کیو آنا، ’’پروٹوکول‘‘ کے لحاظ سے کیسا تھا؟جس پر شامی صاحب کا استدلال تھا، ملک حالتِ جنگ میں ہے۔ جس سطح کی اور جس طرح کی بریفنگ مطلوب تھی، اس کے لیے شاید جی ایچ کیو ہی مناسب تھا۔ یہ ایک طرح سے پرائم منسٹر کی ’’وارروم ‘‘ میں موجودگی تھی جس سے دُنیا کوبہت ’’سٹرانگ میسج ‘‘ بھی گیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اس سے پہلے وزرائے اعظم جی ایچ کیو میں جاتے رہے ہیں۔ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے دوران تو آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز میں بھی بعض بریفنگز میں خود ضیاءالحق بھی شریک ہوتے رہے۔
آپریشن ضربِ عضب کے اس نازک اور حساس ترین مرحلے پر ، جب نوبت پھانسیوں تک پہنچ چکی ہے، میڈیا کوریج پر بھی بات ہوئی۔ حکومت، عسکری ماہرین اورمیڈیا کے ذمہ داران مل بیٹھ کر کوئی ضابطۂ اخلاق وضع کریں گے؟ اور یہ بھی کہ خود میڈیا والے اپنے طور پر کسی ضابطۂ اخلاق پر اتفاق کیوں نہیں کر لیتے؟
یہاں گزشتہ مہینوں میں جیو/ جنگ گروپ کے خلاف کچھ میڈیا ہاؤسز کی معاندانہ روش بھی زیربحث آئی یہاں کاروباری مفادات کی بات بھی ہوئی اور پس پردہ ہاتھوں کے حوالے سے ، نیہا انصاری کے، انکشافات سے لبریز آرٹیکل کا ذکر بھی ہوا(یہ آرٹیکل امریکہ کے ’’فارن پالیسی میگزین‘‘ کی 20نومبر کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ )اس اُمید کے ساتھ یہ نشست اختتام کو پہنچی کہ قومی سلامتی کے اس نازک ترین مرحلے پر سیاسی وعسکری قیادت اور میڈیا سمیت تمام طبقات اپنی قومی ذمہ داریوں کے حوالے سے کسی کوتاہی کا ارتکاب نہیں کریں گے۔
تازہ ترین