• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے گزشتہ روز واشنگٹن میں میڈیا بریفنگ کے دوران واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر پر امریکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اوراس مسئلے کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت ہی کو بات کرنی ہوگی ۔ اس سوال پر کہ وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے کشمیر میں بھارتی مظالم اور کا معاملہ جنرل اسمبلی میں اٹھائے جانے پر امریکہ کا موقف کیا ہے، جان کربی نے امریکی موقف کی وضاحت کے بجائے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ اس موضوع پر انہیں یعنی وزیر اعظم پاکستان کو اظہار خیال کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی نہ صرف امریکہ اور بھارت بلکہ پورے خطے کیلئے خطرہ ہے لہٰذا امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کرتا رہے گا۔نیوکلیئر سپلائیرز گروپ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے حوالے سے جان کربی نے بتایا کہ ان معاملات پر واشنگٹن پہلے ہی اپنا موقف واضح کرچکا ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ عین اس موقع پر جب پاکستان اور بھارت دونوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر سمیت اپنے باہمی تنازعات اور خطے کی صورت حال پر عالمی برادری کے سامنے اپنا اپنا موقف پیش کرنے والے ہیں،امریکہ کا یہ پالیسی بیان ظاہر کرتا ہے کہ تنازع کشمیر کے معاملے میں بھارت کی تمام من مانیوں اور بے انصافیوں کے باوجود امریکہ کا جھکاؤ بھارت ہی کی جانب ہے اور کشمیری عوام کو حق خود اختیاری دلائے جانے کے وعدوں کی تکمیل کے ضمن میں وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے گریزاں ہے جبکہ اقوام متحدہ کی قراردادیں امریکہ سمیت پوری عالمی برادری کو کشمیریوں کو حق خوداختیاری دلانے کا پابند کرتی ہیں۔اس ضمن میں امریکہ کی ذمہ داری خاص طور پر اس لیے زیادہ ہے کہ وہ بہرصورت دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے، نیز’’ آزادانہ اور غیرجانبدارانہ استصواب رائے‘‘ کے ذریعے کشمیریوں کو پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرنے کا حق دینے کیلئے 21اپریل 1948 کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 286ویں اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد نمبر47کے محرکین میں برطانیہ، چین، بلجیم، کینیڈا اورکولمبیا کے ساتھ امریکہ بھی شامل تھا۔ امریکہ نے مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے تنازعات کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر فوری عمل درآمد میں اپنا کردار جیسے مؤثر طور پر ادا کیا، وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔تاہم کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے حالات کے کہیں زیادہ ابتر ہونے کے باوجود امریکہ نے معاملے سے پہلو تہی کی روش اختیار کررکھی ہے جو صریحاً غیرمنصفانہ ہے۔تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ کشمیر میں تقریباً دو ماہ سے بھارتی مظالم کے خلاف ازسرنو پرزور عوامی تحریک جاری ہے، مقبوضہ وادی میں تمام کاروبار زندگی معطل ہے، سو سے زیادہ مرد و زن بھارتی فوج کے بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں شہید اور دس ہزار سے زیادہ زخمی اور معذور ہوگئے ہیں۔بھارت کی وحشیانہ قتل و غارت گری کو دیکھ کر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق چیخ پڑے ہیں کہ کشمیر میں ہونے والے قتل عام کی بین الاقوامی تحقیقات اشد ضروری ہوگئی ہے۔ امریکہ کو عالمی برادری میں جو مقام حاصل ہے اس کے پیش نظر کشمیر میں انسانی المیے کی روک تھام کیلئے اسے سب سے پہلے حرکت میں آنا چاہئے تھا لیکن بھارت کے تمام غیرمنصفانہ رویوں سے چشم پوشی کرکے امریکہ فی الحقیقت خود بھی کشمیریوں پر مظالم میں معاونت کا مرتکب ہورہا ہے۔ سات دہائیوں سے جاری بھارتی ہٹ دھرمی کے باوجود امریکہ کا یہ کہنا کہ پاکستان اور بھارت تنازع کشمیرباہمی بات چیت سے حل کریں دراصل من مانی جاری رکھنے کیلئے بھارت کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے جبکہ اس طرزعمل کے نتائج یقینی دنیا پر پوری دنیا کیلئے خطرناک ثابت ہوں گے۔ کشمیر کا تنازع دنیا کی دوایٹمی طاقتوں کے درمیان ہے، اسے منصفانہ طور پر حل نہ کیا گیا تو یہ کسی بھی وقت پوری دنیا کے امن کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔لہٰذا امریکہ سمیت پوری عالمی برادری کو کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر جلداز جلد عمل درآمد کا اہتمام کرنا چاہئے۔


.
تازہ ترین