• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذوا لفقار چیمہ صاحب نے حکم دیا کہ میں بھی ان کی کتاب کی رونمائی کے موقع پر کچھ عرض کروں۔ ایک خیال یہ آیا کہ کسی کے سامنے اس کے بارے میں سچ بولنا شاید ایک مشکل کام ہے۔ اگر حق میں کچھ کہیں تو اسے خوشامد سمجھا جا سکتا ہے، خلاف بولیں تو تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ۔ پھر خیال آیا کہ آخر بہت سے لوگوں کے بارے میں ہم ان کے پیٹھ پیچھے برائیاں بھی توکرتے ہیں۔غیبت کرنے کا اپنا مزہ ہے۔ بری بات ہے، مگر کی تو جاتی ہے، سب ہی کرتے ہیں۔ شام کے مقبول اخبار اسٹار کے زمانے میں ، اخبار چھپنے کے لئے بھیجنے کے بعد ہمارا غیبت کارنر سج جاتا تھا۔ وہاں سب ہی لوگ شریک ہوتے ۔ خوب خوب غیبت ہوتی، محفل لمبی ہو جاتی۔ کوئی اٹھتا ہی نہیں تھا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ جو اٹھے گا اسے خدشہ ہوتا کہ اب اس کے خلاف بھی بات ہوگی۔ جو زیادہ محتاط تھے وہ ابتدا ہی میں غائب ہو جاتے، کسی کی برائی میں شریک ہوتے نہ اپنے خلاف برائی کے خدشے کا شکار۔
تو صاحبو، اگر کسی کے بارے میں، اس کے سامنے گفتگو کرنی ہو تو کچھ احتیاط کی جا سکتی ہے۔ سامنے پولیس کا کوئی بڑا افسر ہو تو، احتیاط اور بھی لازم ہو جاتی ہے۔ یوں بھی حیدرآباد آنا جانا رہتا ہے اور سپر ہائی وے بھی ان کی حدود میں آتی ہے۔ اور وہاں ان کی گاڑیاں آس پاس پھرتی نظر آتی ہیں۔ کسی کو پتہ چل گیا تو چالان کردیں گے، یوں بھی ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنا ہے۔ پھر یہ خیال بھی آیا کہ چیمہ صاحب ایک اچھے پولیس افسر ہیں، انتقامی کارروائی نہیں کریں گے۔ اس لئے ان کے بارے میں کچھ اظہارِ خیال کی ہمت پکڑی۔ چیمہ صاحب سے پہلی ملاقات بہت پہلے ہوئی تھی، اسّی کی دہائی کے آخر میں۔ انہوں نے راولپنڈی کے ایک سیاسی رہنما کے حامی کو گرفتار کر لیا تھا۔ وہ صاحب سیاسی رہنما کی مالی امداد کیا کرتے تھے، اور اپنی مالی امداد کے لئے جوا خانہ چلاتے تھے۔ چیمہ صاحب کو پہلی بات پر تو کوئی اعتراض نہیں تھا، دوسری بات قابلِ دست اندازی پولیس تھی، سو اِنہوں نے کارروائی کی، اُن صاحب کو پکڑ لیا۔ سیاسی رہنما کو یہ بات پسند نہیں آئی، کسی کے منہ کا نوالہ چھینیں گے تو کسی کو کیسے پسند آئے گا۔ وہ چیمہ صاحب کے پیچھے پڑ گئے۔ اُس وقت وہ برسرِاقتدار جماعت کے اہم رکن تھے، چیمہ صاحب کا تبادلہ کرانا ان کے اختیارمیں تھا، سو انہوں نے اپنے اختیارات استعمال کئے اور چیمہ صاحب کا تبادلہ کروادیا۔ بعد میں وہ رہنما خود اپنے بھی تبادلے کراتے رہے، ایک جماعت چھوڑی، ایک آمر کا ساتھ دیا۔ آج کل اپنی یک رکنی جماعت کے سربراہ ہیں۔ یہ پتہ نہیں کہ جو صاحب پہلے ان کی مالی امداد کیا کرتے تھے، اب بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں یا نہیں۔ چیمہ صاحب شاید کچھ جانتے ہوں، مگر اب ان کے دست اندازی کے اختیارات کچھ اور ہیں۔ انہیں کیا زحمت دی جائے۔ چیمہ صاحب کا تذکرہ مختلف مواقع پر اخبارات کی زینت بنتا رہا۔ وہ ایک مشکل آدمی ہیں۔ کسی کے قابو میں نہیں آتے، اپنی مرضی کا کام کرتے ہیں، قانون کے دائرے میں رہتے ہیں، سنتے کسی کی نہیں۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے، ان کو اہم عہدوں سے . . . اور اہم عہدوں کو اِن سے… ہمیشہ دور رکھا جاتا ہے۔ مگر وہ جہاں بھی جاتے ہیں داستاں چھوڑ آتے ہیں۔ شیخو پورہ ہو یا گجرانوالہ، ان کے’’ کرتوت‘‘ اب تک لوگوں کو یاد ہیں، اور یہ بھی کہ ان کی وجہ سے وہاں جرائم کی شرح کم ہو گئی تھی اور اب انہوں نے خود داستان لکھنا شروع کردی۔ جنگ میں کالم لکھتے ہیں۔ پہلا کالم دیکھا تو خیال آیا کہ پولیس والوں نے اب صحافت پر بھی منہ مارنا شروع کردیا ہے۔ اپنا کام کریں، مجرم پکڑیں، جرم کی بیخ کنی کریں۔ یہ کیا کہ صحافیوں کے رزق پر لات مارنا شروع کردَیں،۔ مگر چیمہ صاحب کے اپنے خیالات ہیں، اجازت ہو تو انہیں غیر صحافیانہ کہا جا سکتا ہے۔ دو ٹوک باتیں کرتے ہیں، یہی ان کے کالم کا اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی کتاب کا عنوان ہے۔
آپ میں سے بہت سے حضرات اور خواتین نے ان کے کالم پڑھے ہونگے۔ کچھ کو یاد بھی ہونگے۔ مصیبت یہ ہے کہ آج کل اخبارات میں، جمعہ ہو یا نہ ہو، کالموں کا جمعہ بازار لگا ہوتا ہے۔ اب اتنے کالموں کو پڑھنا ایک مشکل، اور ان کو یاد رکھنا ایک اور مشکل۔ شاید اپنے قارئین کی اسی مجبوری کا خیال کرتے ہوئے چیمہ صاحب نے بہت سے کالم جمع کرکے انہیں ایک کتاب کی شکل دے دی۔ ذاتی طور پر میں کالموں کو جمع کر کے کتاب چھاپنے کے حق میں نہیں ہوں۔ کتا ب لکھنی ہے تو الگ سے لکھیں، کچھ محنت کریں۔ کتاب ہو، کالموں کا مجموعہ نہ ہو۔ مگر یہ بھی ایک چلن ہے۔ چیمہ صاحب کے معاملے میں مجھے اپنی رائے پر نظرِ ثانی کرنا پڑی۔ انہوں نے اپنے کالموں کے موتی چن کر ایک خوشنما ، دیدہ زیب ہار بنادیا ہے۔ ان کالموں کو ایک ساتھ پڑھنے سے کچھ اور لطف آیا۔ چیمہ صاحب کے کچھ اور رنگ کھلے، ان کے مزاج سے کچھ مزید آشنائی ہوئی۔
ان کی کتاب میں ایک تاثر مسلسل حاوی رہتا ہے۔ یہ کالم لکھنے والا کچھ اصولوں، کچھ آدرشوں کا پاسدار ہے، اس میں انسانیت ہے اور محبت کرنا جانتا ہے اور محبت کرتا ہے، لوگوں سے، ملک سے، اصولوں سے۔ چیمہ صاحب نے اپنی والدہ کے انتقال پر جو کالم لکھا، اس سے بہت سے لوگ متاثر ہوئے۔ ماں کا رتبہ ہے ہی ایسا، ماں جیسا کوئی کہاں ہوتا ہے، کہاں ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہیں ماں کی خدمت کرنے کا موقع مل جائے۔ چیمہ صاحب بھی ان لوگوں میں سے ہیں۔ ان کے کالموں میں وطن کی محبت، اسلام اور اسلامی اقدار کی پاسداری اور بد عنوانیوں سے تنفر بہت واضح طور پر محسوس ہوتاہے۔ انہوں نے یہ کمال بھی کیا کہ پولیس والوں کے خلاف بھی لکھا۔ ایک پولیس والا، اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف لکھ رہا ہے، حالانکہ یہ ہمارے چیمہ صاحب برادرانِ یوسف میں سے نہیں ہیں ۔ جس پولیس افسر نے رشوت کے پیسے سے حج کیا، رشوت کی مد میں پانچ ہزار کے نوٹوں کے ہار اپنے گلے میں ڈلوائے، اس کا خوب مذمتی تذکرہ کیا۔ اور اُس کا بھی جس نے شہر بھر کے بدنام اور بد عنوان ’’معتبرین‘‘ نئے ایس ایس پی سے ملوانے کے لئے جمع کئے تھے۔ ایک بات ضرور ہے کہ ان کا نام نہیں لکھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اکثر پولیس والے ایسے ہی ہوتے سو ان قصوں کا کردار انہیں بھی سمجھ لیا جائے۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں اور بد عنوان ہاتھی کے پائوں میں تو بیٹر سمیت سارے بد عنوان پولیس والوں کا پائوں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے دیگ میں سے دو چاول نکال کر آپ کے سامنے رکھ دئیےہیں۔ چیمہ صاحب کے کالموں میں پاکستان سے محبت، پاکستان دشمنوں سے اظہار برأت، ملک ٹوٹنے پر دلی دکھ، اور دو قومی نظریہ کے خلاف اندرا گاندھی کی ہرزہ سرائی کی مذمت بھی نظر آتی ہے اور اس جذبے کا اظہار بھی کہ یہ نظریہ قائم و دائم ہے۔ وہ جب سابق مشرقی پاکستان جاتے ہیں، جو بد قسمتی سے اب بنگلہ دیش ہے، تو وہاں پاکستان سے محبت کرنے والوں کو تلاش کرتے ہیں، ان سے مل کر خوش ہوتے ہیں، اور اب وہاں پاکستان سے محبت کرنے والوں کے ساتھ حسینہ واجد کی حکومت جو زیادتیاں کر رہی ہے، ان پر دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔
کہتے ہیں: لگتا ہے اندرا گاندھی کی روح اب شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی میں حلول کر گئی ہے کہ جب بھارت پاکستان کا ایک بازو کاٹنے کے درپے تھا تو اس وقت جس نے بھی اس ننگی جارحیت کی مخالفت کی، اور اپنے ملک کا دفاع کرنے کی بات کی حسینہ واجد آج چالیس سال بعد ان کے خلاف ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ محض بھارت کو خوش کرنے اور سیاسی سپورٹ حاصل کرنے کیلئے پاکستان کے ہر وفادار کو ختم کر دینا چاہتی ہے، اور کوئی اسے روکنے والا نہیں ہے۔ تھوڑا آگے چل کر اپنے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہیں ’’ بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان سے وفا کرنے والوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر پاکستان میں خاموشی اور بے حسی طاری رہی تو پھر ہمارے ساتھ کوئی بھی، کبھی بھی، وفا کرے گا نہ دوستی رکھے گا اور نہ اعتبار کرے گا۔‘‘ یہ اس شخص کی رائے ہے جس کا گھر اور بہت سے محب وطن گھروںکی طرح، 16دسمبر1971کو ایک ماتم کدہ بن گیا تھا۔ انہوں نے اس کم عمری میں معتبر اور باوقار لوگوں کو دیوانہ وار دیو اروں سے ٹکریں مارتے دیکھا۔ وہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ ان کے پہاڑوں جیسا مضبوط حوصلہ رکھنے والے والد گرامی اس دن دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ اس وقت کے اثرات ان پر اُس وقت بھی تھے جب وہ مشرقی پاکستان گئے … ، اور اب تک ہیں۔
(ذوالفقار چیمہ کی کتاب ’’دو ٹوک باتیں‘‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)
تازہ ترین