• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہم سے جدا ہوئے 7 سال ہو چکے ہیں لیکن آج ان کی مظلومیت پر پہلے سے زیادہ رونا آ رہا ہے ۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ آج پوری قوم نے اس دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ، جس کا شکار محترمہ بے نظیر بھٹو ہوئی تھیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس فیصلے میں بہت تاخیر کر دی گئی ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی 7 ویں برسی پر آج زیادہ دکھی ہونے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ دہشت گردوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں لیکن پھانسی چڑھنے والوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل شامل نہیں ہیں ۔ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف پر حملہ کرنے والوں ، حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں اور اس منصوبہ بندی میں ساتھ دینے والوں کو سب سے پہلے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ہے ۔نہ جانے کیوں اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کا زمانہ یاد آ رہا ہے ۔ بعض روایات کے مطابق ہشام بن عبدالملک نے حضرت امام حسین کے صاحبزادے حضرت امام زین العابدین کو ایک پیغام بھیجا اور ان سے کچھ باغیوں کی سرکوبی کے لیے مدد کرنے کی درخواست کی ۔ ہشام نے اپنے خط میں کہا کہ وہ ان لوگوں کی سرکوبی کرنا چاہتا ہے ، جنہوں نے کربلا میں اہل بیت پر ظلم کیے ۔ حضرت امام زین العابدین نے انہیں جوابی خط میں صرف اتنا لکھا ’’ ہشام ! تو یہ سمجھتا ہے کہ ہم تمہاری چال نہیں سمجھ سکے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ تو ہمارے دشمنوں کی نہیں ، اپنے دشمنوں کی سرکوبی کرنا چاہتا ہے ۔ تمہارے ارادوں سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے لیے ایک اور کربلا برپا ہو سکتی ہے ‘‘ ۔ تاریخ سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت امام زین العابدین کے خدشات درست تھے ۔
یہ بات قابل ستائش ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف انتہائی بہادری اور جرات کے ساتھ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی خود قیادت کریں گے ، چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں ۔ اس اعلان کے بعد قوم ماضی کو فراموش کر سکتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ماضی پیچھا نہیں چھوڑتا ہے ۔ جنرل (ر) پرویز مشرف پر حملہ کرنے اور اس حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کو بھی ملک کے بیشتر حلقے سراہا رہے ہیں لیکن وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو چاہئے کہ وہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں اور اس قتل کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو بھی انجام تک پہنچائیں کیونکہ جن دہشت گردوں کو آج میاں محمد نواز شریف صاحب للکار رہے ہیں ، انہیں سب سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو نے للکارا تھا ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے سندھ کے دورے کے موقع پر ایک مرتبہ یہ اعلان بھی کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت جو کام نہیں کر سکی ہے ، وہ ان کی حکومت کرے گی ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکائے گی ۔ آج پوری قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ہے ۔ ان کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ سندھ کے عوام کے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا کریں ۔
یہ ایک افسوس ناک مگر ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں اور اس عظیم سانحہ کے منصوبہ سازوں کو انجام تک نہیں پہنچا سکی ہے ۔ اس وجہ سے نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ عقیدت رکھنے والے سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا موجودہ بحران بھی شاید اسی بات سے جڑا ہوا ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جنگ کی قیادت کرنی ہے تو انہیں اس بات کا مکمل طور پر ادراک کرنا ہو گا کہ پیپلز پارٹی ایسا کیوں نہیں کر سکی ہے ۔ سمجھنے والا ایک باریک نکتہ ہے ۔ پرویز مشرف پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی ’’ سسٹم ‘‘ حمایت نہیں کر رہا جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو پر حملہ کرنے والے دہشت گرد ’’ سسٹم ‘‘ کے عتاب کا شکار نہیں ہوئے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی اکثر یہی بات کرتے ہیں کہ سانحہ 27 دسمبر کا ذمہ دار ایک سسٹم ہے اور ایک ’’ مائنڈ سیٹ ‘‘ ہے ۔ لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو انجام تک نہیں پہنچانا چاہتے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ خود محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ میں ایک جگہ لکھتی ہیں کہ ’’ میں نے جنرل مشرف کے نام ایک خط لکھا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ عسکریت پسندوں نے مجھے قتل کر دیا تو یہ ان کی حکومت میں موجود عسکریت پسندوں کے ان ہمدردوں کی بدولت ہو گا ، جو مجھے ختم کرکے اس خطرے کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، جو اقتدار پر ان کی گرفت کو میری طرف سے لاحق ہیں۔ کراچی کے قلب میں ایک جم غفیر مسرت و سرشاری کے عالم میں عوام کی طاقت کا جشن منا رہا تھا ۔ اچانک سڑکوں کی روشنیاں ہلکی ہوئیں اور بالآخر بجھ گئیں ۔ پھر اگلے مرحلے میں راولپنڈی کے لیاقت باغ کی شام بینظیر بھٹو کی شہادت سے ایک طویل رات میں بدل گئی۔ اب وزیراعظم نوازشریف سندھ کے عوام کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کریں ۔پرویز مشرف پر حملہ کرنے اور حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی پھانسی سے سندھ کے لوگوں میں لازمی طور پر یہ سوال پیدا ہو گا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان کے دیگر ہزاروں بے گناہ افراد کے قاتلوں کو سزا کیوں نہیں دی جا رہی ؟ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ بھی قائم کیا ہوا ہے۔ وزیر اعظم کو یہ احساس ہو گیا ہو گا کہ پرویز مشرف کس قدر طاقت ور ہیں اور اب وزیر اعظم نے فوجی عدالتوں کے قیام کا بھی اعلان کر دیا ہے ۔اللہ خیر کرے ۔وزیر اعظم کو چاہئے کہ سانحہ 27 دسمبر کو اپنے وجود پر ایک واردات کی طرح محسوس کریں ، اس کے بعد انہیں یہ بات سمجھ آئے گی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کس قدر پیچیدہ ہے اور اس جنگ کی پیچیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو انجام تک نہیں پہنچا سکی ہے ۔کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حقیقی کامیابی کے لیے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اس مجبوری سے نکل سکیں گے ، جس کا شکار پیپلز پارٹی تھی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا فلسفہ یہ تھا کہ جمہوری قوتوں کو کمزور کرنے کے لیے دہشت گردی کوپروان چڑھایا گیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف اب اس جنگ میں جمہوریت کو کچھ ہوا تو یہ ایک اور عظیم المیہ ہو گا ۔ سانحہ 27 دسمبر کے 7 سال بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی مظلومیت پرجہاں زیادہ رونا آ رہا ہے ، وہاں خوف و خدشات بھی پہلے سے زیادہ ہیں ۔
تازہ ترین