• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
24 دسمبر کو اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس میںقومی یکجہتی کا جو منظر دکھائی دیا ہماری حالیہ تاریخ میں اسکی نظیر نہیں ملتی۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے راہنماوں سمیت چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی۔ ایس۔ آئی نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی۔ وزیر اعظم نوازشریف کی صدارت میں ہونے والے 11 گھنٹوں پر محیط طویل اجلاس نے دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے کیلئے ایک 20 نکاتی مشترکہ حکمت عملی کی منظوری دی۔ جسکا اعلان اسی شب وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کسی شک و شبہ کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ یہ قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کا بے مثال مظاہرہ تھا۔
شاید دنیا بھر کی اقوام میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہو لیکن پاکستانی قوم میں بہر حال یہ پہلو بہت نمایاں ہے کہ بحران کی صورت میں وہ متحد ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ اختلافات کا مظاہرہ سیاسی قبیلے میں ہوتا ہے۔ شاید ہی دو چار جماعتیں قومی مسائل پر کامل اتفاق رائے رکھتی ہوں۔ تقریباً ایک جیسے منشور رکھنے کے با وجود چند جماعتیں یا تو اقتدار کی بار گاہوں میں اکھٹی ہو جاتی ہیں یا پھر کسی حکومت کو گرانے کے لئے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیتی ہیں ۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ 1971کے سانحے کے بعد بچے کچھے پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے بے مثال حب الوطنی اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے شدید اختلافات رکھنے کے با وجود ان جماعتوں نے انکے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔ جب وہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لئے شملہ روانہ ہوئے تو ساری قومی سیاسی قیادت نے ہوائی اڈے پر انہیں رخصت کر کے تقویت دی۔ اسی مثالی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ آئین سازی کے دوران ہوا ،جس کے نتیجے میں 1973کا متفقہ آئین سامنے آیا۔ اسی اتحاد کا بڑا مظاہرہ سانحہ مشرقی پاکستان سے چھ برس قبل 1965میں بھی ہوا ،جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ جنرل ایوب خان کی آمریت سے شدید اختلافات رکھنے والی سیاسی جماعتیں بھی دفاع وطن کے لئے متحرک ہو گئیں۔ پوری قوم نے بھی یک زبان اور یک دل ہو کر اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کیا ۔ اس کے علاوہ قدرتی آفات کے رد عمل میں بھی سیاسی، دینی اور دیگر تنظیموں نے ہمیشہ بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کیا۔
اتحاد و یکجہتی کا یہ مظاہرہ 16دسمبر 2014 کو اس وقت سامنے آیا جب آرمی پبلک اسکول پشاور کے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ اساتذہ اور طلباء و طالبات دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ معصوم بچوں کے لہو نے پوری قوم کو رلا دیا۔ پاکستان بھر میں یہ سوچ انگڑائی لے کر بیدار ہوئی کہ ہمیں دہشت گردوں پر بھر پور وار کرنا چاہئے۔ وزیر اعظم کی بلائی ہوئی کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے غیر مشروط طور پر شرکت کی۔ عمران خان کی احتجاجی مہم تقریباً چار ماہ سے جاری تھی۔ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین اختلافات کی خلیج خاصی وسیع ہو چکی تھی ۔ ایک دوسرے پر الزامات اور مخالفانہ اشتہارات کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ کچھ حلقے یہ خیال کر رہے تھے کہ عمران خان دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت تو کریں گے تا ہم وزیر اعظم کی بلائی ہوئی کانفرنس میں یا تو شریک نہیں ہوں گے یا کسی اور کو اپنی نمائندگی کے لئے بھیجیں گے۔ قوم کو اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب انہوں نے بھی اس کانفرنس میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی اور وزیر اعظم کے پہلو میں بیٹھ کر مشترکہ اعلامیہ کیساتھ اتحاد کا مظاہرہ کیا ۔ اتحاد و یکجہتی کا یہ مظاہرہ صرف اہل سیاست تک محدود نہ رہا۔ معاشرے کے تمام طبقات نے دہشت گردی کو کچلنے کا عزم ظاہر کیا۔ میڈیا کا رخ بھی سیاسی تماشوںسے ہٹ کر دہشت گردی کے خاتمے کے سنجیدہ موضوع پر مرکوز ہو گیا۔ عمران خان نے یکجہتی کی فضا کو مزید تقویت دیتے ہوئے ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے کے خاتمے کا اعلان بھی کر دیا۔ اس سے ماحول میں پائی جانے والی سیاسی کشیدگی بالکل ختم ہو گئی اور میڈیا کے لئے یہ موضوع تقریباً ختم ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری قوم ایک محاذ پر نظر آنے لگی۔ علمائے کرام دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں بعض تحفظات رکھتے ہوئے بھی میدان میں آگئے اور قومی اتفاق رائے کے دھارے میں شامل ہو گئے۔
آج کے پاکستان میں کوئی گروہ ،کوئی جماعت ،کوئی تنظیم، کوئی طبقہ اور کوئی قبیلہ ایسا نہیں جو دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے حکومت اور فوج کے عزم کا ساتھ نہیں دے رہا۔ شاید یہ معصوم بچوں کے لہو کا کرشمہ ہو کہ ہم جو بکھرے ہوئے تھے وہ دہشت گردوں کے خلاف اکھٹے ہو گئے ہیں۔ ایک 16دسمبر نے ہمیں تقسیم کیا تھا اور ایک 16دسمبر نے ہمیں متحد کر دیا۔ لیکن بہت سے لو گ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا اتحاد و یکجہتی کی یہ فضا قائم رہ سکے گی ؟کیا اس فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے فیصلہ ساز دہشت گردی اور اس کے اسباب و محرکات کے خاتمے کے لئے کوئی نتیجہ خیز اقدامات کر سکیں گے؟ ان سوالات کے فوری جوابات تلاش کرنا تو ممکن نہیں لیکن اب تک کی پیش رفت سے مایوسی بھی نہیں ہوتی۔ لیکن اتحاد و اتفاق کی اس فضا میں ایسی آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں جن سے تقسیم اور اس فضا کے گرد آلود ہونے کا خطرہ ہے ۔ کچھ لوگ دہشت گردی کے خلاف اس ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسجدوں، مدرسوں ، علمائے کرام اور ایسے حلقوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو اسلام ، پاکستانی تہذیب و ثقافت اور اپنے قومی نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ پرویز مشرف دور کی نام نہاد روشن خیالی کی یلغار لگتی ہے جو موقع دیکھ کر دینی اور اسلامی اقدار کے خلاف سر گرم ہو گئی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو خطرہ ہے کہ دوسری طرف سے بھی رد عمل پیدا ہو۔ اور یوں دہشت گردی کے خلاف قومی عزم کی دیوار میں دراڑ پڑ جائے۔ اس لئے نام نہاد روشن خیالوں ، این جی اوز اور لبرل طبقے سے محتاط رہنا ہوگا۔ اگر مقصد انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے تو علماء سمیت معاشرے کا کوئی طبقہ اسکی مخالفت نہیں کر رہا۔ لہذا یکسوئی اور یکجہتی کی اس فضا کو کسی طرح بھی مجروح نہیں کرنا چاہئے۔
20 نکاتی مشترکہ حکمت عملی کا ایک نکتہ میڈیا سے متعلق بھی ہے۔ ا نسداد دہشت گردی کیلئے میڈیا کو واقعتا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور انتہا پسندوں کی تشہیر اور انکے افکار کی ترویج سے گریز کرنا چاہئے۔ تاہم اس معاملے میں صرف صحافتی اداروں کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ وفاقی حکومت کو پیمرا اور پریس کونسل جیسے اہم اداروںکو متحرک بنا کر صحافتی اداروں کو ضوابط کا پابند بنانے کیلئے بروئے کا ر آنا چاہئے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے افکار ونظریات کی ترویج روکنے کی ذمہ داری بھی کلی طور وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کا اہتمام بھی خود حکومت ہی کو کرنا ہو گا۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات کو انسداد دہشت گردی کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔قوموں کی تاریخ میں اس طرح کے کامل اتفاق رائے کے مراحل کم آتے ہیں ۔ ان مراحل کو کھو دیا جائے تو یہ بہت بڑی قومی کم نصیبی ہوتی ہے۔ بظاہر یہ کہاجا سکتا ہے کہ حکومت، مسلح افواج اور پوری قومی سیاسی قیادت حقیقی معنوں میں ایک پیج پر آ گئے ہیں۔ ایک مشترکہ لائحہ عمل بھی بنا لیا گیا ہے۔ قوم منتظر رہے گی کہ یہ لائحہ عمل کس طرح عملی شکل اختیار کرتا اور پاکستان کوحقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بناتا ہے۔
تازہ ترین