• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی قوم پہلی مرتبہ دہشت گردی کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے پر متفق ہوئی ہے ۔ پاکستان کی قومی سیاسی قیادت ، مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ افراد اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف 20نکاتی قومی ایکشن پلان کی بھی منظوری دے دی ہے ۔ اگرچہ یہ اتفاق رائے تاخیر سے پیدا ہو اہے لیکن دیر آید درست آید کے مصداق یہ امر خوش آئند ہے کہ دہشت گردی کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ اس اتفاق رائے کو برقرار رکھنے اور قومی ایکشن پلان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ان باتوں کو ضرور پیش نظر رکھنا ہو گا ، جن کی وجہ سے ماضی میں ہماری ریاست دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہی اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لئے قومی اتفاق رائے پیدا نہ ہو سکا ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اچھے اور برے طالبان یا اچھے یا برے دہشت گردوں کے درمیان تفریق کو ختم کرنا ہو گا ۔ وفاقی وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کے دوران یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان ان انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کیوں کرے ، جو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں ہیں۔ اچھے اور برے انتہا پسند گروہوں کا تصور شاید ہماری دفاعی حکمت عملی کی ضرورتوں کے تحت پیدا ہوا ہو گا لیکن جب ہماری ہر حکمت عملی ناکام ہو رہی ہو اور داخلی سلامتی شدید خطرات سے دوچار ہو تو ہمیں ایسے تصورات پر نظرثانی کرنی چاہئے ۔ یہاں نام لینا ضروری نہیں ہے مگر پاکستان کے سکیورٹی ادارے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو انتہا پسند گروہ کبھی دفاعی اور نظریاتی اتحادی تصور کئے جاتے تھے ، وہ ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہونے لگے ہیں اورجن گروہوں کو محب وطن تصور کیا جاتا تھا ، انہوں نے ہی سب سے زیادہ دھوکا دیا ۔ اب تک جو انتہا پسند گروہ اچھے مانے جاتے تھے ، ان کی بنیادی خرابی یہ تھی کہ وہ پاکستان کی سیاست میں نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر الجھتے گئے اور انہوں نے اپنا ایک مخصوص سیاسی مفاد تخلیق کر لیا ۔ اسی مخصوص مفاد کی وجہ سے وہ راستے سے ہٹ گئے اور ہمارے دشمنوں کے لئے انہیں استعمال کرنا آسان ہو گیا ۔ جن انتہا پسندوں گروہوں کو برا تصور کیا جاتا تھا ، انہوں نے بھی اپنی حکمت عملی کے تحت نام نہاد اچھے گروہوں پر مکمل اثر و رسوخ حاصل کرلیا ۔ اب معاملات ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں ۔ دنیا بھر کی افواج اور انٹیلی جنس ادارے بھی اپنے مقاصد کے لئے غیر ریاستی عناصر کو استعمال کرتے ہیں لیکن وہ اس بات کا ضرور خیال رکھتے ہیں کہ یہ عناصر ان کے دشمنوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں اور ان کے اپنے ملک میں گڑ بڑ نہ کریں ۔ ہم اس بات کا خیال نہیں رکھ سکے ہیں ۔ لہٰذا وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو بھی یہ کہنا پڑا کہ اب دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں اچھے اور برے طالبان کی تفریق نہیں کی جائے گی ۔ پاکستان کی حکومت اور سکیورٹی اداروں کو اب بلا تفریق کارروائی کرنا پڑے گی۔
دوسری یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ پاکستان میں طویل عرصے سے دہشت گردی ہو رہی ہے ۔ یہ دہشت گردی منظم انداز میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوئی ۔ یہ سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا ۔ اس وقت ہر اس ترقی پذیر ملک میں دہشت گردی شروع ہوئی ، جہاں آمریت تھی اور ہر جگہ دہشت گرد ’’ نامعلوم ‘‘ ہوتے تھے ۔ اس دہشت گردی سے نہ صرف سیاسی تحریکوں کو کچلنے میں مدد ملتی تھی بلکہ لوگوں میں مجموعی طور پر مایوسی پھیلتی تھی ۔ دہشت گردی کے اسی ماحول میں پاکستان میں تھوڑے عرصے کےلئے جمہوری وقفہ آیا اور پھر فوجی حکومت قائم ہو گئی ۔ اسی اثناء میں امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا ۔ اس نام نہاد جنگ میں پاکستان میں پہلے سے جاری دہشت گردی کو ایک نیا رنگ دیا گیا اور اسے منظم کیا جاتا رہا ۔ نائن الیون سے پہلے اور بعد والی دہشت گردی نے سب سے زیادہ نقصان جمہوری اور ترقی پسند قوتوں کو پہنچایا ۔ دہشت گردی سے بعض حلقوں کے نہ صرف سیاسی مفادات وابستہ ہو گئے بلکہ ان کے معاشی مفادات بھی دہشت گردی سے منسلک ہو گئے ۔ آج بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ خطرہ جمہوریت کو ہے ۔ قومی ایکشن پلان کی کامیابی کے لئے نہ صرف دہشت گردی سے وابستہ سیاسی اور معاشی مفادات کو ختم کرنا ہو گا بلکہ اس دہشت گردی کے نظریاتی اسباب کی بھی بیخ کنی کرنا ہو گی ۔ تیسری بات یہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ صرف طالبان ، القاعدہ اور مذہبی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے ان جیسے دیگر گروہ ہی دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی دہشت گرد موجود ہیں ۔ تمام دہشت گرد گروہوں کا آپس میں بہت گہرا گٹھ جوڑ ہے اور وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔ ملک کے طول و عرض میں ان کے نیٹ ورکس موجود ہیں ۔ ان تمام نیٹ ورکس کا بلا امتیاز خاتمہ کرنا چاہئے ۔
قومی ایکشن پلان کی کامیابی اور دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے کو برقرار رکھنے کے لئے چوتھی اور اہم بات یہ مد نظر رکھی جائے کہ دہشت گردوں کے خلاف غیر جانبدارانہ اور بلا امتیاز کارروائی کی جائے تاکہ کسی حلقے کو یہ احساس نہ ہو کہ اسے نسلی ، لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں اس بات کا بھی خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ بے گناہ افراد اس کارروائی سے متاثر نہ ہوں ۔ قومی ایکشن پلان کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کو بھی اس طرح استعمال کیا جانا چاہئے کہ کوئی حلقہ سیاسی طور پر متاثر نہ ہو اور وہ یہ نہ سمجھے کہ اسے سیاسی مخالفت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ پاکستان میں پہلے بھی لاپتہ افراد کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ۔ ان مقدمات کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کا انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے ریکارڈ خراب ہوا ہے بلکہ پاکستان کی بدنامی بھی ہوئی ہے اور معاشرے کے بعض حلقوں میں غم و غصہ بھی پیدا ہوا ہے ۔ مذکورہ بالا چار باتوں کو ہر مرحلے پر پیش نظر رکھنا ہو گا کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی ہمارے لئے جتنی ضروری ہے ، اتنا ہی اس کامیابی کی منزل تک پہنچنے کےلئے قومی اتفاق رائے کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔
تازہ ترین