• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوموں کی زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، جو ان قوموں کے تاریخی دھارے کو بدل دیتے ہیں۔ ان واقعات کے بعد قوموں کا سفر تاریخ کے ایک دھارے سے ہٹ کردوسرے دھارے میں ہونے لگتاہے۔ 16 دسمبر 2014ء کاسانحہ بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے جس نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں اور پوری قوم کی سمت تبدیل کردی ہے۔ ہم اس سانحہ پر بہت رنجیدہ ہیں کیونکہ ہمارے معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا ہے لیکن بڑے سانحات کے بعد ہی قومیں اپنی نئی راہیں متعین کرتی ہیں۔ تبت کے ممتاز مذہبی رہنما دلائی لامہ کا کہنا یہ ہے کہ ’’جب آپ زندگی میں کسی حقیقی سانحے سے دوچار ہوتے ہیں تو اس پر دو طریقے سے ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں۔ آپ یا تو امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی تباہی کے راستے پر چل پڑتے ہیں یا آپ اس چیلنج کو اپنی اندرونی طاقت کا پتہ چلانے کےلئے استعمال کرتے ہیں۔مہاتما بدھ کی تعلیمات کی بدولت میں دوسرا راستہ اختیار کرنے کے قابل بنا ‘‘۔
سانحہ 16دسمبر نے پوری قوم کو دہشت گردی اورانتہاپسندی کے خلاف جنگ کرنے کے لئے متحد کردیاہے اور قوم کو یہ باور کرا دیا ہے کہ شیطانی قوتوں کے ساتھ لڑنے کےلئے اس میں صلاحیت موجود ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کےلئے جو قومی ایکشن پلان وضع کیاگیا ہے، وہ پاکستانی قوم کے عزم کا اظہار ہے۔ دہشت گردوں کیخلاف پہلے بھی بہت آپریشن ہوئے ہیں لیکن اس مرتبہ جس قومی جنگ کا اعلان کیا گیا ہے، وہ پہلے کی ہر جنگ اور آپریشن سے مختلف ہے۔ کیونکہ پاکستان کے ریاستی اور سیاسی اداروں کی حرکیات(ڈائنامکس) تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری سویلین حکومت اور بعض سیاسی جماعتوں کی یہ خواہش تھی کہ طالبان اور دیگرانتہا پسند گروہوں کے خلاف آپریشن نہ کیاجائے۔ کیونکہ کچھ سیاسی جماعتوں کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح انتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے جا کرملتے ہیں ۔اس امر کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں ۔ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ تمام سیاسی جماعتوں کی کانفرنس بلانے اور دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا بہت اہم کردار ہے ۔ان کی وجہ سے بھی بہت سے لوگوں نے اختلاف رائے سے اجتناب کیا۔ جنرل راحیل شریف نے جس طرح کانفرنس کے شرکاء کو صورت حال کے بارے میں پریذنٹیشن دی اور دہشت گردوں سے لڑنے کے لئے اپنی کمٹ منٹ کا اظہار کیا ،اس کے بعد کسی کے لئے اس جنگ سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں رہا ۔اس تبدیل شدہ صورت حال کا نیا فیکٹر جنرل راحیل شریف اور پاکستان کی مسلح افواج کی غیر روایتی اپروچ ہے ۔
وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کا کردار بہت اہم ہے ۔وہ سویلین حکومت اور سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کررہے تھے ،جن میں سے اکثریت طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہوں سے مذاکرات کی حامی تھیں۔ لیکن چوہدری نثار علی خان نے اپنی بہترین سیاست کاری اور سفارت کاری سے قومی ایکشن پلان تیار کیا اور سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ پر قائل کیا۔ اگرچہ ہم نے بحیثیت قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فیصلہ بہت تاخیر سے کیا لیکن یہ بہت ناگزیر فیصلہ ہے ۔دہشت گردوں نے ہمارے 60ہزار بے گناہ شہریوں کو شہید کردیا۔ا نہوں نے ہمارے ہزاروں فوجی اور دیگر سکیورٹی اداروں کے افسروں اور جوانوں کو بھی شہید کیا ۔مسجدیں، امام بارگاہیں ، تعلیمی درسگاہوں پر بھی حملہ کیا گیا۔ دہشت گردوں نے معاشی طور پر ہمیں تباہ کردیا اور غربت ،بھوک ،افلاس ،بیروزگاری اور بیماریوں کے دلدل میں دھکیل دیا ۔انہوں نے پاکستان کو دنیا کی خطرناک ترین ریاست یا یوں کہئے کہ جہنم بنادیا ۔ہم اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اور خوف کے عالم میں دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے ۔حالانکہ جنگ کا فیصلہ ہمیں بہت پہلےکرلینا چاہئے تھا ۔
جنگ کا مشکل فیصلہ ہم کرچکے ہیں ۔ میں پہلے بھی انہی سطور میں عرض کرچکا ہوں کہ ہمارے پاس کامیابی کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر ہم نے ریاست کی عمل داری اور قانون کی بالادستی قائم نہ کی تو خاکم بدہن پاکستان کو بہت بڑے خطرات سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے اس جنگ میں لازمی فتح کے لئے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی ۔ایک جنگ فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کو لڑنا ہوگی اور دوسری جنگ سویلین حکومت ،سیاسی و مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو لڑنا ہوگی ۔امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ ہوا تو پوری قوم ایک تھی ۔16دسمبر کا واقعہ ہمارے لئے نائن الیون ہے ۔ہمارے ہی عہد میں دہشت گردی کے خلاف قومیں فتحیاب ہوئی ہیں ۔سری لنکا کی مثال ہم سب کے سامنے ہے ۔سری لنکا کی فوج نے سول حکومت اور سیاسی قوتوں کی مدد سے تامل ٹائیگرز کے دہشت گردوں کا خاتمہ کیا ۔تامل ٹائیگرز پاکستان طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک تھے ۔تامل ٹائیگرز کے قبضے میں ایک علاقہ تھا ۔ہمارے ہاں کراچی سے وزیرستان تک دہشت گردوں کے قبضے میں اس طرح کا کوئی علاقہ نہیں ہے ۔تامل ٹائیگرز کو تامل نسلی گروہ کی حمایت حاصل تھی ۔ ہمارے ہاں دہشت گرد اس طرح کی حمایت سے بھی محروم ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی کئی ریاستوں میں دہشت گرد گروہ پیدا ہوئے لیکن ان کی بیخ کنی کردی گئی ۔کامیابی کی یہ مثالیں ہمارے اپنے خطے کی ہیں ۔دنیا بھر میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں ۔قوموں کو اپنے مقصد کا صرف تعین کرنا ہوتا ہے ۔
مسلح افواج کے ساتھ ساتھ سویلین حکومت اور سیاسی قوتوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہوگی ۔کیونکہ فوج اکیلے جنگ نہیں لڑسکتی۔ یہ ہماری قومی جنگ ہے ۔ پہلے صرف حکومت اور دہشت گردوں کے مابین جنگ ہوتی تھی لیکن پہلی مرتبہ پوری ریاست اور سول سوسائٹی اس جنگ میں شامل ہوچکی ہے ۔اس جنگ کے کئی پہلو ہیں ۔دہشت گردوں نے نہ صرف پاکستان کو جہنم بنادیا ہے بلکہ خطے اور دنیا کے امن کیلئے بھی خطرات پیدا کردیئے ہیں ۔داعش اسی ماحول میں پیش قدمی کررہی ہے۔اس لئے اس جنگ میں ہمارا بہت کچھ داؤ پر لگا ہواہے ۔افواج پاکستان کے پاس جنگ کا مکمل پلان اور اس کی حکمت عملی موجود ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سویلین حکومتوں اور سیاسی جماعتوں سے کوئی زیادہ توقع نہیں ہے ۔وہ اب بھی تذبذب کا شکار ہیں اور ان کے پیچھے ہٹ جانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ سویلین حکومت اور سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ جنگ جیتنے کے لئے آگے بڑھیں۔ سویلین حکومتوں کے لئے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ اپنی گورننس کو بہتر بنائیں۔ شفافیت اور میرٹ کا نظام وضع کریں ۔اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ فوج طویل عرصے تک داخلی جنگ نہیں لڑسکتی۔ پولیس اور دیگر سول فورسز کو نئی صورت حال کے لئے تیار کرنا ہوگا کیونکہ امن و امان کو برقرار رکھنے اور دہشت گردی روکنے کی ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے ۔پولیس میں سیاسی مداخلت ختم ہونی چاہئے۔ پولیس اور انتظامی افسروں کی تقرری میرٹ پر ہونی چاہیئے ۔حکومت کو دینی مدارس کے بارے میں بھی ایک واضح پالیسی بنانا ہوگی تاکہ ان مدارس کو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی نرسری نہ بننے دیا جائے ۔دینی مدارس پہلے کی طرح دینی اور دنیادی تعلیم میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ دہشت گردوں کو ملنے والی بیرونی امداد روکنے کے لئے وزارت خارجہ اور سفارت خانوں کو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ہدایت کرے اور داخلی سلامتی کے اداروں کو چوکس کرے ۔سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے عسکری ونگ ختم کریں اور اپنے کارکنوں کو غیر مسلح کریں ۔انہیں انتہا پسند گروہوں سے نہ صرف اپنے رابطے بلکہ ان سے وابستہ سیاسی مفادات بھی ختم کرنا ہوں گے ۔ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہمارے پاس فتح کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے ۔
تازہ ترین